2
7
Tuesday 13 Apr 2021 18:51

نیابت امام زمان (عج) اور نیابت امام خمینی

نیابت امام زمان (عج) اور نیابت امام خمینی
تحریر: محمد سلمان مہدی

جہاں تک میرا مطالعہ ہے، طول تاریخ میں کسی بھی نامور مشہور مرکزی نبی خدا  (ع) کی کوئی شورائے نبوت میرے علم میں نہیں آسکی۔ اسی طرح چہاردہ معصومین علیہم السلام میں سے تیرہ معصومین علیہم السلام کی بنفس نفیس موجودگی سے امام زمان کی غیبت صغریٰ تک بھی کوئی شورائے امامت میرے علم میں نہیں آسکی۔ اگر کسی بھی اہل علم کے علم میں ایسی کسی شورائے نبوت اور شورائے امامت کا ذکر ہے تو میری کم علمی کو ختم کرنے کی نیت سے میری راہنمائی فرمائے، میرے علم میں اضافہ فرمائے۔ امام زمان (عج) کی غیبت صغریٰ کے دور میں یکے بعد دیگرے چار نائب رہے اور یہ نظام نیابت بھی شورائی نہیں تھا۔ آخری توقیع از طرف امام زمان اپنے چوتھے نائب علی بن محمد سمری کے نام آئی، جس میں چھ روز بعد ان کی رحلت سے متعلق خبر دی گئی۔ اس توقیع کے متن میں کسی بھی شوریٰ کا کوئی اشارہ بھی نہیں۔ چھٹے روز علی بن محمد سمری (رہ) کی رحلت سے قبل  سوال ہوا کہ آپ کے بعد وصی کون ہوگا تو جواب دیا کہ امر اللہ کے لیے ہے، وہی پہنچانے (بھیجنے والا ہے)۔

بار بار متوجہ کرنے کے بعد بھی ایک نامعلوم محترم ماننا نہیں چاہتے۔ مسلسل غلط بیانی کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس تحریر کا پہلا پیراگراف اس پس منظر میں تحمل فرمائیں۔ ولی فقیہ کی اصطلاح تو شاید سمجھ نہ آئے، سیدھا سیدھا امام زمان (عج) کا نظام نیابت سے متعلق سبھی اپنے آپ سے سوال کرکے جواب تلاش کریں۔ امام زمان (عج) نے غیبت صغریٰ میں نظام نیابت ہی دیا تھا۔ وہ نظام نیابت بھی ایک ہی نائب کے ذریعے چلتا رہا۔ میری رائے پر مجھ سے متعلق طنزیہ تکے لگانے والے کو مبانی فقہ سے متعلق خود مبانی فقہ کے تحت ہی میری رائے کا جواب دینا چاہیئے تھا۔ کیا قرآن میں وہ حقائق موجود نہیں، جو میں نے اپنی رائے میں ریفرنس یا مثالوں کے طور پر بیان کیے!؟ یا کیا سنت میں وہ حقائق موجود نہیں!؟  یا۔۔۔ کیا غیبت صغریٰ کے دور کے عملی نظام میں وہ حقیقت مجسم موجود نظر نہیں آرہی!؟ کیا آخری توقیع کو ناسخ اور پچھلی کو منسوخ نہ سمجھا جائے!؟  کیا شیعہ اسلامی فقہ میں عقل ادلہ اربعہ میں سے نہیں۔ ایک ناقابل تردید حقیقت قرآن کے سرسری مطالعے سے بھی ثابت ہو رہی ہے۔ انبیاء علیہم السلام، خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کے دور کے عملی نظام سے ثابت ہو رہی ہے۔ امام زمان کی غیبت صغریٰ کے دور میں مجسم ثابت ہو رہی ہے۔ اسباب نزول بھی فراموش کر دیں کیا!؟ یہ کونسا فرمائشی پروگرام ہے؟ محکم عملی نظیریں موجود ہوں، تب بھی متشابہ کے پیچھے جانا ہے کیا؟ چہ عجب!۔

نیابت کے عنوان سے جو نظام امام زمان (عج) کی میراث ہے، اس میں آخری توقیع علی بن محمد سمری کی ہے اور علی بن محمد سمری کا موقف وہی ہےو جو ولایت فقیہ سے متعلق میری رائے کے عنوان سے سات اپریل 2021ء کو اسلام ٹائمز نے شایع کی۔ خاص طور پر پہلا پیراگراف۔ یعنی بنی نوع انسان کی رہنمائی، قیادت و رہبری کا الہیٰ انتظام۔ علی بن محمد سمری ؒ نے سوال کرنے والے کو بہت واضح جواب دے دیا کہ (یہ) امر اللہ (سے متعلق ہے) اور وہی بھیجنے والا(یا پہنچانے والا) ہے۔ ہم نے جس عقل کو استعمال کرنے کی درخواست کی ہے، وہ قرآن و سنت میں موجود عملی مثالوں کی روشنی میں ہی کی ہے۔ ایک وقت میں بہت سارے مختلف الخیال فقہاء جب بیک وقت اجتماعی امور میں ایک دوسرے سے متضاد و متصادم رائے، موقف یا حکم بیان کریں گے تو فقہاء کی حجیت کہاں سے رہ جائے گی اور اس اختلافی رائے کی بھی عملی مثالیں موجود ہیں۔ اس لیے اگر نائب ایک سے زیادہ ہوں تو وہ بھی اس صورت میں ہوں گے کہ وہ نائبین بھی واضح طور پر ایک مرکزی نائب کے تحت آجائیں۔ یعنی وہی کام جو آئمہ معصومین علیہم السلام کے دور میں اور باالاخص نواب اربعہ کے دور کے نظام نیابت کے تحت کیا کرتے تھے، انکا مینڈیٹ اس مرکزیت کے تحت ہی حجیت برقرار رکھ سکتا ہے، ورنہ تو وہ خود ہی مرکزی نظام کے خلاف موقف دے کر حجیت سے خارج ہوچکے ہوتے ہیں۔

دوسرا موضوع امام خمینیؒ کی نیابت ہے۔ یہ پورا ایک مکمل موضوع ہے۔ امام خمینی ؒ کی ایک حیثیت امام زمان کے مرکزی نائب کی ہے اور دوسری حیثیت مملکت ایران میں آئینی، قانونی اور رسمی حیثیت ہے۔ یہ موضوع وہی بہتر سمجھ سکتا ہے کہ جسے مملکتوں کے سیاسی نظام سے مکمل آگاہی ہو۔ جب بھی کوئی نئی مملکت یا انقلاب کے نتیجے میں نیا سیاسی نظام آتا ہے تو وہ ایک ٹرانزیشن کے عمل سے گزرتا ہے۔ آئین یا دستور کے عنوان سے مملکت کا بالاترین قانون بنتا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عملی تجربات کی روشنی میں نقائص اور خامیاں دور کی جاتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو انڈین انڈی پینڈینس ایکٹ کے تحت ڈومینین کی حیثیت سے برطانوی سامراج نے آزاد کیا تھا۔ آئین سازی کا مرحلہ بعد میں مکمل ہوا۔ تقریباً ہر بڑے جمہوری ملک میں جہاں آئینی سیاسی جمہوری نظام ہو، وہاں ایسے ہی ہوتا ہے۔ نقائص اور خامی کو دور کرنے کے لیے کبھی کبھار آئینی ترامیم کرنا پڑتی ہیں۔ امام خمینیؒ کی زندگی ہی میں انقلاب کے بعد پہلا قانون اساسی یعنی آئین (دستور)  نافذ ہوچکا تھا۔ اس کی اصل پنجم (یعنی آئین کے آرٹیکل یا شق پانچ میں تحریر ہے کہ ”در زمان غیبت حضرت ولیعصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ در جمہوری اسلامی ایران ولایت امر و امامت امت، بر عھدہ فقیہ عادل و باتقویٰ، آگاہ بہ زمان، شجاع، مدیر و مدبر است کہ طبق اصل یکصد و ھفتم عھدہ دار آن می گردد۔“

اب اس آئین کی اصل یکصد و ھفتم کو ملاحظہ فرمائیں تو وہاں اصل پنجم یعنی آرٹیکل پانچ کے ساتھ ساتھ صفات کے لیے آرٹیکل 109 میں بیان کردہ صفات کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اصل یکصد و نھم کے عنوان کے تحت شرایط و صفات رہبر میں واضح طور پر لکھا ہے کہ: صلاحیت علمی لازم برای افتاء در ابواب مختلف فقہ، عدالت و تقویٰ لازم برای رہبری امت اسلام اور بینش صحیح سیاسی و اجتماعی، تدبیر، شجاعت، مدیریت و قدرت کافی برای رھبری۔ (در صورت تعدد واجدین شرایط فوق، شخصی کہ دارای بینش فقھی و سیاسی قوی تر باشد، مقدم است)۔ مجلس خبرگان رہبری آئین کے آرٹیکل پانچ اور ایک سو نو میں بیان کردہ صفات کے حامل ایک فقیہ (مجتھد) کو آئین کے آرٹیکل ایک سو سات کے تحت تعین کرے گا۔ فارسی بلد افراد زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ ایرانی آئین کا آرٹیکل ایک سو سات (ال یکصد و ہفتم) کا یہ متن کیا کہتا ہے۔

پس از مرجع عالیقدر تقلید و رہبر کبیر انقلاب جہانی اسلام و بنیانگذار جمہوری اسلامی ایران حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی «قدس سرہ الشریف» کہ از طرف اکثریت قاطع مردم بہ مرجعیت و رہبری شناختہ و پذیرفتہ شدند، تعیین رہبر بہ عہدہ خبرگان منتخب مردم است۔ خبرگان رہبری دربارہ ہمہ فقہاء واجد شرایط مذکور در اصول پنجم و یکصد و نہم بررسی و مشورت می کنند ہر گاہ یکی از آنان را اعلم بہ احکام و موضوعات فقہی یا مسائل سیاسی و اجتماعی یا دارای مقبولیت عامہ یا واجد برجستگی خاص در یکی از صفات مذکور در اصل یکصد و نہم تشخیص دہند او را بہ رہبری انتخاب می کنند و در غیر این صورت یکی از آنان را بہ عنوان رہبر انتخاب و معرفی می نمایند۔ رہبر منتخب خبرگان، ولایت امر و ہمہ مسئولیت ہای ناشی از آن را بر عہدہ خواہد داشت۔ رہبر در برابر قوانین با سایر افراد کشور مساوی است۔

ایران کے آئین میں شورائے جمہوری اسلامی یعنی ایران کی پارلیمنٹ (قومی اسمبلی) ہے۔ شورائے ولایت فقیہ یا شورائے رہبری کا کوئی آئینی ادارہ آئین میں موجود نہیں ہے۔ شورائے نگھبان بھی ہے اور بلدیاتی اداروں کی بھی شوریٰ ہے، لیکن وہ شوریٰ ہرگز کوئی وجود نہیں رکھتی، جس کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ ولایت فقیہ کے لیے مرجع تقلید کی شرط کے مخالف خود امام خمینی ؒتھے۔ وہ ایک جامع الشرایط مجتھد کی اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے اور انہوں نے آئینی ترامیم سے متعلق سال 1368 ھجری شمسی میں بازنگری قانون اساسی کی ایرانی فارسی اصطلاح کے عنوان پر اس وقت کے صدر مملکت یعنی موجودہ امام خامنہ ای صاحب کو ایک فرمان لکھا۔ ایران کے ھجری شمسی کیلنڈر کے دوسرے مہینے کی چار تاریخ کو یہ فرمان لکھا۔ اس کے بعد اسی مہینے کی نو تاریخ کو آیت اللہ مشکینی کے خط برائے بازنگری قانون اساسی سے متعلق جواب لکھا۔ اب متن ملاحظہ فرمائیے کہ امام خمینیؒ نے لکھا کہ:

”۔۔۔۔۔ پس از عرض سلام، خواستہ بودید نظرم را در مورد متمم قانون اساسی بیان کنم۔  ھر گونہ آقایان صلاح دانستند عمل کنند، من دخالت نمی کنم۔ فقط در مورد رھبری، ما کہ نمی توانیم نظام اسلامی مان را بدون سرپرست رھا کنیم۔ باید فردی را انتخاب کنیم کہ از حیثیت اسلامی مان در جھان سیاست و نیرنگ دفاع کنند۔ من از ابتداء معتقد بودم و اصرار داشتم کہ شرط مرجعیت لازم نیست۔ مجتھد عادل مورد تایید خبرگان محترم سراسر کشور، کفایت می کند۔ اگر مردم بہ خبرگان رای دادند تا مجتھد عادلی را برای رھبری حکومتشان تعیین کنند، وقتی آن ھا ھم فردی را تعیین کردند تا رھبری را بہ عھدہ بیگرند۔ قھری او مورد قبول مردم است۔ در این صورت او ولی منتخب مردم می شود و حکمش نافذ است۔ در اصل قانون اساسی من این را گفتم، ولی دوستان در شرط مرجعیت پافشاری کردند۔ من ھم قبول کردم۔ من در آن ھنگام می دانستم کہ این در آیندہ نہ چندان دور، قابل پیادہ شدن نیست۔ توفیق آقایان را از درگاہ خداوند متعال خواستارم۔“

مذکورہ بالا جوابی خط یا امام خامنہ ای صاحب کو لکھا جانے والا فرمان آئینی ترامیم اور اس کی عوام سے بذریعہ ریفرنڈم تائید و قبولیت کے پس منظر میں درست سیاق و سباق سے سمجھا جاسکتا ہے، جبکہ امام خمینی ؒ کی زندگی ہی میں ان کے فرزند سید احمد خمینی اور اس وقت پارلیمنٹ کے اسپیکر علی اکبر ھاشمی رفسنجانی اور دیگر نے امام خمینیؒ کی جانشینی سے متعلق توجہ دلانا شروع کر دی تھی کہ آپ کے بعد کیا ہوگا۔ امام خمینیؒ مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے منظوری دے چکے تھے، لیکن اس کو ریفرنڈم کے ذریعے ہی نافذ کیا جانا تھا۔ اس درمیان میں امام خمینی ؒ نے رحلت فرمائی۔ لہٰذا جس اجلاس کو مثال کے طور پیش کرکے امام خمینی کے رسمی جانشین سے متعلق شکوک و شبہات پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کی مکمل کارروائی کی وڈیو موجود ہے۔ اسے دیکھ لیں۔ وہاں بات ہو رہی ہے، ایک عبوری مدت کی رھبری سے متعلق، جس کے دوام کا انحصار ریفرنڈم کے بعد کے آئین پر منحصر تھا۔ یعنی ترمیم شدہ آئین پر۔ اس اجلاس میں بھی خود ہاشمی رفسنجانی صاحب نے خود اپنا واقعہ سنایا، دیگر نامور شخصیات بشمول سید احمد خمینی کا واقعہ سنایا اور دیگر گواہ کا بھی تذکرہ کیا کہ ان کے بعد کی رھبری سے متعلق امام خمینیؒ نے اپنی زندگی ہی میں امام خامنہ ای صاحب کا نام لے کر کہا تھا وہ ہیں۔

اس موضوع پر ایک اور متعلقہ بڑی اور نامور شخصیت آیت اللہ ابراھیم امینی تھے۔ انہوں نے تسنیم خبر رساں ادارے کو اور دیگر کو انٹرویو میں اس دور کے اہم تاریخی واقعات کی وہ روداد سنائی ہے، جس کے مرکزی کرداروں میں وہ خود بھی شامل تھے۔ رہ گئی یہ بات کہ امام خامنہ ای صاحب نے اس وقت کیا موقف اختیار کیا۔ وہ یہی موقف تھا کہ بہت سے لوگ انہیں صاحب نظر نہیں مانتے اور اس منصب پر اسے آنا چاہیئے کہ جسے یہ (یعنی وہ جو امام خامنہ ای صاحب کا نام آنے کے بعد اعتراض پر مبنی موقف پیش کر رہے تھے۔ کم سے کم ایک کا نام بھی لیا)، یہ لوگ بھی مانیں۔ یہ اس کا درست سیاق و سباق ہے۔ ایک عالم دین، ایک محقق، حتیٰ کہ ایک عام مومن کو بھی یہ زیب نہیں دیتا کہ ایسے اہم ترین موضوعات پر وہ واقعیت کے برعکس غلط بیانی کو واقعیت کے طور پر پیش کرے۔ یہ اس کے ایمان و صداقت و عدالت اور اس کی ساکھ پر ایسا ناقابل معافی داغ ہوتا ہے کہ اس کی سزا اسے انہی فقہاء سے پوچھ لینی چاہیئے کہ جن فقہاء کی خیالی شوریٰ کا وہ معتقد ہے۔ امام خامنہ ای کا آج تک ولایت فقیہ سے متعلق وہی نظریہ ہے، جو امام خمینی کا تھا۔ جن فقہاء کا نہیں ہے، ان کا نام بیان کرنا چاہیئے، تاکہ عام لوگوں کو سب کی پہچان ہوسکے۔ امام خمینی ؒ اس دور میں بھی امام زمان کے مرکزی نائب تھے، جب انہوں نے وقت کے ظالم و جابر سلطان کے خلاف کلمہ حق کہا تھا۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد جو کچھ سامنے آیا ہے، وہ ایک ملت اور مملکت کی جانب سے امام زمان (عج) کے نائب کی سرپرستی، قیادت و رہبری کو آئینی، قانونی، رسمی حیثیت میں مان لینے کا مرحلہ ہے۔

ابھی تک دنیا میں یہ واحد ایرانی ملت اور مملکت ہے، جس نے غیبت حضرت ولیعصر (عج) میں اپنی تکلیف شرعی کا تعین کرکے کامیابی سے عصر امام زمان (عج) میں داخل ہوچکے۔ باقی آپ صرف باتیں ہی سنتے رہیں اور سر دھنتے رہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں ایک عالم اسم اعظم کا علم رکھتا تھا۔ جب وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے پر آیا تو اس کے بعد کیا ہوا، اسے یاد رکھیں۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام کے دور کا حکومتی ماڈل، حضرت یوسف علیہ السلام کے دور کا حکومتی ماڈل بھی موجود ہے۔ لیکن قاطع حجیت انبیاء علیہم السلام میں خاتم الانبیاءﷺ کی ہے۔ امت و انسانیت کی الہیٰ قیادت سے متعلق اس موضوع پر ہم ترتیب کے ساتھ تین مقالے پیش کرچکے۔ ایک یہ اور اس سے قبل دو مقالے۔ ہم جس ولایت فقیہ کے معتقد ہیں، وہ امام خمینی ؒ کی تشریح کردہ ضرور ہے، لیکن بنیادی طور پر ہر انسان آزادانہ آگاہانہ اپنی تحقیق سے اس کا قائل ہونا چاہیئے۔

جب یہ کہا جائے کہ یہ تقلیدی مسئلہ نہیں ہے تو ادلہ اربعہ میں عقل بھی قرآن و سنت کے بعد تیسرے معیار کی حیثیت سے موجود ہے۔ نہ آپ قرآن میں موجود حقیقت کو مان رہے ہیں، نہ ہی سنت میں موجود حقیقت مان رہے ہیں اور نہ ہی عقل۔  اور ان تین معیار کے تحت جو بات ثابت ہو، اس پر اجماع بھی کر لیں تو ایسے اجماع کی اپنی حیثیت کا تعین کرنے کی زحمت کریں۔ ہمارے محترم معترض نے فقھاء کی رائے کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کی ہے جبکہ معصوم انبیاء علیہم السلام اور خاص طور پر خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے دور کی عملی اور روشن مثالوں کی موجودگی میں مکتب اہل بیت کے مبانی کی روشنی میں اپنی رائے کی شرعی حیثیت بھی جانچ سکتے ہیں۔ اس موضوع پر یہ میری رائے ہے اور دلائل بھی ہیں۔ اس لیے اب اس موضوع پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میری نظر میں اپنی بات ان روشن مثالوں کے ساتھ پیش کرچکا کہ دور نبوت کی حد تک ہمارے سنی بھائی بہن بھی اتفاق کریں گے کہ اللہ کی جانب سے قیادت، رہبری و راہنمائی کا جو الہیٰ نظام ہے، اس میں مرکزی نبیؑ ہی واحد مرکز ہوا کرتا تھا۔ خاتم الانبیاء کے دور میں تو وہ تنہاء ہی نبی خدا تھے اور ان پر ختم نبوت ہوچکی۔ اس لئے دور نبوت تک تو معاملہ بہت واضح ہے۔
خبر کا کوڈ : 926992
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
توقیع جس میں امام زمان نے اپنے پیروکاروں کا (غیبت صغریٰ کے اختتام اور غیبت کبریٰ کے آغاز پر) وظیفه بیان کیا هے، فرمایا « فانهم حجتی علیکم ... » فقهاء آپ شیعوں پر حجت ہیں اور میں «امام» ان فقهاء پر حجت ہوں، یعنی هر فقیه جامع الشرائط شیعه مومنین پر حجت اور ولایت رکهتا ہے۔ یه ولایت کسی ایک فقیه میں منحصر نہیں ہے اور آینده کے بارے جب جناب سمری نے سوال کیا تو امام نے خدا پر چهوڑا یعنی جب خدا چاهے میرا ظهور هوگا اور جب تک امام غائب ہیں، شیعوں کا وظیفه فقهاء کی اطاعت ہے، البته دائره اختیارات فقهاء میں اختلاف ہے اور ہاں اگر ایک فقیه جیسے امام خمینی رضوان الله اگر ایک خطه میں عوامی حمایت سے نظام اسلامی تشکیل دینے میں کامیاب هو جائے تو حکومتی امور میں جب تک قرآن و سنت کے دائره میں ان کا حکم هوگا، سب پر ان کی اطاعت واجب ہے، حتی اس سرزمین میں رہنے والے مجتهدین پر بهی۔ چنانچه آیت ا .. بهجت جیسی بزرگ شخصیت بهی خود کو مطیع امام خامنه ای سمجهتی تهی، لیکن اس خطه سے باهر مثلاً آیت خوئی، سیستانی پر اطاعت لازم نہیں، چنانچه امام خمینی جب نجف میں تبعید هو کر گئے اور وہاں رہے تو باقی مراجع کی طرح ایک مجتهد تهے اور وہاں کے مراجع اور عوام جو آپ کی مقلد نہیں تهی، پر آپ کی اطاعت ضروری نه تهی اور نه اب ہے۔
Pakistan
محترم
پہلے کہیں جا کر آخری توقیع کا مطالعہ فرما لیں۔ آخری توقیع کا عربی متن اور ترجمہ دونوں پڑھ لیں. تاکہ بار بار آپکو سمجھانا نہ پڑے۔
نائب ایک وقت میں ایک ہی رہا اور اسی ایک کے توسط سے امام زمان (عج) نے ارتباط رکھا۔
یہ امام زمان (عج) کا نظام ولایت و نیابت ہے۔ آپ کا جو جی چاہے کریں مگر اس موضوع پر آپکی دلیل بہت کمزور ہے۔
اولی الامر کی اطاعت بھی فرد واحد کی اطاعت پر ہی دلالت کرتی ہے۔ اسلام توحیدی عقیدہ میں اولاد آدم امت واحدہ اور ان کی قیادت و رہبری بھی مرکزیت یعنی ایک ہی میں منحصر ہے۔
فقہاء کا کام وہی ہے جو معصومین (ع) کے دور میں تھا اور ان فقہاء پر بھی نائب ایک ہی مقرر رہا۔ اب یہ من مانی کا جو تصور آپ کے پاس ہے، یہ آپ کے اپنے فہم کا مسئلہ ہے۔ نظام امامت و ولایت و نیابت میں ایسا کچھ نہیں جو آپ دعویٰ کر رہے ہیں۔ ایک وقت میں امام معصوم جس کا حکم نافذ وہ کتنے تھے۔۔۔ ایک ہی امام معصوم (ع)، امام زمان (عج) کے دور غیبت صغریٰ میں ایک وقت میں کتنے نائب؟؟ ایک ہی نائب۔۔ تو یہ ایک وقت میں ایک مرکز کا ہونا تو ثابت ہے۔ ایک وقت میں اتنے سارے مرکز؟؟؟ کیوں؟؟ کیسے؟؟ آپکے ہر سوال کا جواب ہے آخری توقیع اور امام زمان (عج) کے دور کا نظام نیابت۔ مزید وقت ضایع نہ کریں، نہ میرا، نہ اپنا۔
ہماری پیشکش