0
Tuesday 13 Apr 2021 19:30

مسئلہ فلسطین اور غرب و عرب

مسئلہ فلسطین اور غرب و عرب
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

جب بھی فلسطین کی بات ہوتی ہے تو اذہان میں حق اور باطل کا پیمانہ سامنے آجاتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح سے ہے کہ جب جب کربلا کا ذکر ہوتا ہے تو حسینی کردار یزیدی کردار کو شکست خوردہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اذہان حق اور باطل کے معرکہ کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں۔ یہ فارمولہ رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا۔ حق کی قوتیں باطل قوتوں کے ساتھ نبرد آزما رہیں گی اور ممکن ہے کبھی ظاہری طور پر حق کی قوت کو دو قدم پیچھے ہونا پڑتا ہو، لیکن آخرکار حق ہی ہے جو غالب آتا ہے اور غالب ہی آنے والا ہے۔ بالآخر باطل کو نابود ہونا ہی ہے۔ فلسطین کی جب جب بات ہوتی ہے تو ہمارے سامنے ایک ایسا خاکہ کھنچا چلا جاتا ہے کہ جس میں صہیونی جرائم کی ایک طویل داستان رقم ہے۔ صہیونیوں کے فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کی تاریخ ایک سو سال پر محیط ہوچکی ہے۔ جیسا کہ مقالہ کے عنوان میں ہی بیان کیا گیا ہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی جرائم میں عالم مغرب کی آشیرباد یا شراکت داری۔ جی ہاں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

تاریخ کا مطالعہ کرنے سے علم ہوتا ہے کہ سرزمین فلسطین پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست بنانے کے لئے برٹش آرتھر بالفور، امریکی ٹریو مین اور اسی طرح دیگر مغربی ممالک کے مختلف سیاست مداروں نے صہیونیوں کا ساتھ دیا۔ صہیونیوں کے ان مغربی آقاوں نے نہ صرف فلسطین پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست کے قیام کے لئے ان کا ساتھ دیا بلکہ فلسطین پر صہیونیوں کے ناجائز تسلط کے لئے صہیونیوں کو ہر قسم کی آزادی فراہم کی، تاکہ وہ فلسطینی عوام کا قتل کریں اور ان کو انہی کی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کریں۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے درمیانی حالات میں اگر صرف فلسطین کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں پائی جاتی ہے کہ عالم مغرب نے صہیونیوں کے فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کی پشت پناہی اور ان کی مدد کی ہے۔ اس لئے اگر آج کی جدید دنیا میں یہ بات کہی جائے کہ فلسطینی عوام کے خلاف صہیونیوں کے ایک سو سالہ جرائم اور ظلم میں امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک برابر کے شریک ہیں تو یہ بات بالکل بے جا نہ ہوگی۔

آج بین الاقوامی فورم پر امریکی اور مغربی سامراج فلسطین پر قائم غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست کا حامی نظر آتا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی حالت تو اس طرح کی ہے جیسے صہیونیوں کے غلام ہوں۔ امریکی اور یورپی سامراج فلسطین میں جاری قتل و غارت گری اور ہر قسم کی انسانی حقوق کی پامالی سمیت ناانصافیوں میں برابر کا شریک جرم ہے۔ آج جو کچھ جدید دنیا میں فلسطین کے ساتھ کیا جا رہا ہے، یہ خود جدید دنیا کے چہرے پر ایک بدنما داغ کی مانند ہے۔ عالمی اداروں کی کھلی بے حسی ان کی کمزوری اور حیثیت کو واضح کر رہی ہے۔ آج فلسطینی عوام دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم عوام ہیں۔ جہاں اس معاملہ میں غرب برابر کا شریک ہے، وہاں آج عرب بھی اس معاملہ میں صہیونیوں کے جرائم میں برابر کا شریک کار ہے۔ آج مغربی دنیا کی ایماء پر عرب دنیا کے چند ممالک فلسطینی عوام کے خلاف کھڑے ہوچکے ہیں۔ انہیں فلسطین کی مذہبی اور ثقافتی حمیت سے بھی کوئی غرض نہیں۔ ان کے لئے فلسطینی عوام کا بہنے والا خون شاید نالیوں میں بہنے والے گندے پانی سے بھی کم قیمت رکھتا ہے۔

انتہائی دکھ کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ مسلم دنیا کی سب سے مقدس زمین حجاز و یثرب پر قائم آل سعود کی حکومت اسرائیل کے ساتھ یارانہ بنا چکی ہے۔ یمن میں براہ راست امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ بحرین، عرب امارات اور ان کی دیکھا دیکھی کچھ افریقی ممالک بھی اسی راستہ پر چل نکلے ہیں۔ انہوں نے قدس شریف کا سودا کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ ان کو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین سے کوئی لگائو باقی نہیں رہا۔ اب ایسے حالات میں یہ عرب حکمران ہوں یا مغربی حکمران ہوں، ان میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے۔ یہ تاریخی اعتبار سے شاید فلسطینی عوام کے لئے بدترین دور تشبیہ کیا جائے۔ یہاں ان عرب حکمرانوں کے اس گھنائونے کردار سے نہ صرف فلسطین کی تاریخ کے لئے سیاہ باب ہے بلکہ دنیا کی دیگر مظلوم اقوام کہ جن میں سرفہرست فلسطین کے بعد کشمیری ہیں، ان کو بھی دھچکا اور گہری چوٹ پہنچ رہی ہے۔ یہ سوال مقبوضہ کشمیر کی وادی میں جنم لے چکا ہے کہ جن مسلمان اور عرب ممالک نے مغربی ممالک کی تقلید کرتے ہوئے اسرائیل کی پردہ داری شروع کر دی ہے تو اب ان سے کشمیر کے معاملہ پر کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ یقیناً مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کی یہ تشویش برحق ہے۔

حیرت انگیز اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ابتداء ایک ایسے زمانہ میں شروع کی ہے کہ جب خود صہیونی جعلی ریاست اسرائیل سیاسی طور پر غیر مستحکم نظر آ رہی ہے اور اسی طرح عسکری عنوان سے بھی اب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی پوزیشن یہ ہے کہ آخری معرکہ میں وہ اڑتالیس گھنٹوں سے زیادہ میدان میں باقی نہیں رہ پائے۔ اسی طرح حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے سیاسی و عسکری میدان میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی حاصل کی ہے۔ جہاں اسرائیل میں ایک سال میں تین مرتبہ انتخابات ہوئے ہیں، وہاں فلسطین کی قانون ساز کونسل کے انتخابات میں حماس اور مزاحمتی گروہوں کی کامیابی نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔

ایک طرف صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل ہے کہ جس نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ کسی طور پر بھی اپنے ظالمانہ اقدامات سے رکنے والا نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شاید امریکہ اور یورپی ممالک سمیت اب عرب دنیا کے حکمرانوں کی جانب سے اسرائیل کی کمر تھپ تھپانا ہو۔ بہرحال مسلم دنیا کے عرب ممالک کو چاہیئے کہ وہ فلسطینی عوام کی امنگوں کا خیال رکھیں۔ اگر فلسطین کی مدد نہیں کرسکتے اور کرنا نہیں چاہتے تو کوئی بات نہیں، لیکن ان کی پیٹھ پر خنجر بھی نہ گھونپیں۔ عرب دنیا کے حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتکاری کے فیصلے واپس لیں۔ اس عنوان سے لاطینی امریکہ کے ممالک اگرچہ وہ کئی ممالک سے نسبتاً چھوٹے ہیں، لیکن پھر بھی انہوں نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کے اقدامات کئے ہیں، جو قابلِ تحسین ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کا قیام اس لئے عمل میں لایا گیا تھا، تاکہ مغربی ایشیائی ممالک میں مسلمان حکومتوں کو کمزور کرکے اس خطے کے وسائل پر اسرائیل قابض ہو جائے اور گریٹر اسرائیل کے ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ پہنا سکے۔ عالم مغرب نے اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے اسرائیل کی ہر ممکنہ مدد جاری رکھی، تاکہ اسرائیل محفوظ رہے۔ بہرحال گذشتہ ستر سالوں میں اب اسرائیل کی صورتحال یہ ہے کہ وہ مسلسل سازشوں اور قتل و غارت گری سمیت قبضوں کے بعد آخرکار اپنے ہی گرد دیواریں قائم کر رہا ہے۔ یعنی اسرائیل پھیلنے کی بجائے سکڑ رہا ہے۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر آج امریکہ میں یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی موجود ہے، جو اسرائیل کے وجود کو جعلی تصور کرتی ہے اور فلسطین کو فلسطینیوں کا مانتی ہے۔ مسئلہ فلسطین اور اس کی حمایت ایک ایسا وسیلہ ہے کہ جس کی مدد سے مسلم امہ متحد ہوسکتی ہے بلکہ عالم مغرب کی تمام سازشوں اور جرائم کا منہ توڑ جواب بھی دے سکتی ہے۔ آج دنیا بھر میں عوام کے جذبات اسرائیل مخالف ہیں، دنیا کے عوام مظلوم اقوام کے ساتھ ہیں۔ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں ہماری نوجوان نسل فلسطینیوں کیساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کر رہی ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جس نے روز اول سے ہی فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھی ہے اور یہ حمایت پاکستان کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی اصولی و نظریاتی سیاست کے اجزاء سے حاصل ہوئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 926993
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش