2
Wednesday 14 Apr 2021 16:50

حکومت والوں کی سوچ سے مختلف

حکومت والوں کی سوچ سے مختلف
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

شیخ رشید کی پریس کانفرنس آپ سن چکے ہونگے۔ وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ گھر گھر میں حکومتی اقدامات کی بھرپور مذمت ہو رہی ہے۔ بہرحال ہر موقع پر صرف مذمت کافی نہیں ہوتی۔ مولانا سعد رضوی کی گرفتاری نے سارے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ گرفتاری اپنے ہمراہ ایک شدید ردعمل لائی ہے۔ مجھے اور آپ کو مولانا سعد رضوی صاحب سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ ہمیں گرفتاری کے ردعمل پر بھی اعتراض ہوسکتا ہے لیکن ہر عمل کا ردعمل ضرور ہوتا ہے۔ ردعمل کے حوالے سے اس وقت مزارِ قائد کا ذکر بھی ضروری ہے۔ جہاں کتنے ہی دنوں سے مسنگ پرسنز کے لواحقین پُرامن دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ دھرنا دینے والے یہ وہ لوگ ہیں، جن کے عزیز و اقارب اور ہم مذہب افراد کو پورے ملک میں کئی مرتبہ ٹارگٹ کلنگ اور خودکُش دھماکوں میں اڑایا گیا۔ انہوں نے اپنے پیاروں کی لاشیں سامنے رکھ کر جب بھی دھرنے دیئے تو کہیں ایک اینٹ تک نہیں اکھڑی۔ اب یہ لوگ پھر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں کہ ہمارے جن عزیزوں کو لاپتہ کر دیا گیا ہے، اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں قانون کے مطابق سزا دو اور اگر مجرم نہیں ہیں تو اغوا کرنے والوں کو سزا دو۔ ہمارے پیاروں کو ہمارے سامنے مار دو یا پھر ہمیں انتظار کی سولی سے نیچے اتارو۔

ہمارے مقتدر ادارے توجہ نہیں دے رہے۔ وہ اسی کوشش میں ہیں کہ یہ لوگ بھی ڈنڈے اور پتھر اٹھائیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں اور خودکشُیاں کر رہے ہیں جبکہ ہمارے پالیسی میکرز لوگوں کو زبردستی جلاو اور گھیراو کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ تحریک لبیک پر پابندی کے فیصلے سے مولانا سعد رضوی صاحب کے نئے امتحانات کا آغاز ہوگیا ہے۔ لیڈروں اور تنظیموں کے ارتقاء میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس وقت کالعدم تنظیموں اور کھلم کھلا دہشت گردوں سے مولانا کو چوکنا رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ بڑی سمجھنے کی بات ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کے سربراہ تحریک لبیک کے اراکین کو پُرامن رہنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ یعنی انسان کُش لوگ تحریک لبیک والوں کو درسِ اخلاق دیتے نظر آتے ہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ تحریک لبیک کو بدنام کرنے کیلئے یہ جو توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراو کے مناظر ہیں، یہ کسی اور کی کارستانی ہو۔

دوسری طرف پولیس والوں کی لاشیں بھی ہر انسان کو خون کے آنسو رُلاتی ہیں۔ ایک کانسٹیبل کو کتنی مشکل سے ماں باپ پالتے اور پڑھاتے ہیں۔ یہ بے چارے آرڈر کے پابند ہوتے ہیں۔ کنگ میکر جہاں چاہتے ہیں، انہیں گولیوں اور ڈنڈوں کے آگے کھڑا کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں سکیورٹی فورسز کا نچلا طبقہ عام عوام سے بھی زیادہ مظلوم ہے۔ ان دنوں تفتان کے بارے میں آپ نے سنا ہوگا۔ تفتان ملک کی ایک فعال راہداری ہے۔ اس پر اگر توجہ دی جائے تو یہ اپنے وجود میں خود ایک سی پیک ہے۔ تاہم یہاں عوام کو سہولیات دینے کے بجائے سکیورٹی اہلکاروں کو سویلین کا دماغ چاٹنے پر مامور کر دیا گیا ہے۔ اب ظاہر ہے سکیورٹی فورسز کو کہیں بھی تعینات کرنے کا بجٹ ملتا ہے۔ اب اس بجٹ کو ہضم کرنے کیلئے کارکردگی دکھانی پڑتی ہے۔ چنانچہ تفتان بارڈر پر یہ کارکردگی دکھائی جا رہی ہے کہ انتہائی رازداری کے ساتھ ملکی سلامتی کی خاطر کئی کئی گھنٹے ردی کے پرانے بھاری بھر کم رجسٹروں میں یہ معلومات پوچھ پوچھ کر لکھی جاتی ہیں کہ تم کون ہو؟

کہاں کے رہنے والے ہو؟ کیا کرتے ہو؟ پڑھے کتنے ہو؟ سکول کا کیا نام تھا؟ ہیڈ ماسٹر کون تھا؟ شادی کہاں سے کی ہے؟ کہیں غلطی سے ابھی  طالب علم تو نہیں، اگر پڑھتے ہو تو اپنا بیگ چیک کراو؟ یہ ساری کتابیں ہم ضبط کریں گے۔ اچھا جب اگلی دفعہ آو تو ہمارے لئے ایک فیروزہ یا عقیق بھی لیتے آنا۔۔۔ اندازہ کریں ان بے چاروں کی لاعلمی کا۔ یہ سارا ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ صورت میں پہلے ہی حکومت کے پاس موجود ہے۔ بہرحال انہیں حکم ہے کہ تم نے ردی کے رجسٹروں کا پیٹ بھرنا ہے تو یہ سکیورٹی والے سارا دن یہی کام کرتے رہتے ہیں۔ کئی کئی گھنٹے مفت میں ایک ایک آدمی کا دماغ چاٹتے ہیں۔ خود بھی لوگوں کے کوسنے سنتے ہیں اور لوگوں کو بھی گالم گلوچ  سے نوازتے ہیں۔ انہیں کوئی کہے تو کیا کہے۔ بس اربابِ اختیار کے سامنے یہ اپیل ہی کی جا سکتی ہے کہ خدارا ان سکیورٹی کے جوانوں اور عوام دونوں پر رحم کرو!

اب یہ جتنے بھی لوگ تحریک لبیک یا پولیس کے مارے گئے یا زخمی ہوئے اور جتنا بھی املاک اور اقتصاد کا نقصان ہوا، اس پر میرے اور آپ کے کڑھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اب اس روزے اور گرمی کی حالت میں جو لوگ مزارِ قائد پر دھرنا دیئے ہوئے ہیں اور یا پھر تفتان میں دھکے کھا رہے ہیں، اِن کے چیخنے چلانے سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ کیسے یہ حالات بدل سکتے ہیں!؟ کیسے سکیورٹی فورسز اور عوام کے درمیان دوستی کا ماحول بن سکتا ہے!؟ کیسے لوگ جلاو اور گھیراو کے بجائے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔۔۔ یہ ہم سب کے سوچنے کی بات ہے۔ آپ چاہے کسی سکیورٹی ادارے میں ہیں یا عوام میں، آپ اپنے ملک کے بارے میں ضرور سوچیں، اس لئے کہ سوچنے والوں کی اپنی ایک حکومت ہوتی ہے۔ جی ہاں سوچنے والوں کی حکومت، حکومت والوں کی سوچ سے مختلف ہوتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 927195
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش