QR CodeQR Code

تحریک لبیک عمومی سطح فکر کی برہنہ عکاسی ہے

18 Apr 2021 18:00

اسلام ٹائمز: وقتی طور پر دباؤ سے شاید آپ ابال کو ٹھنڈا کر لیں لیکن کارکنوں کی نظر میں آپ غلط ہیں اور انکا مقصد مقدس۔ یہ کارکن ایک نئی طاقت یا نئی شکل میں ریاستی اقدامات کے مقابل باہر نکل سکتے ہیں۔ مسئلہ کا حل مذاکرات اور افہام و تفہیم سے معاملات کو درست کرنا تھا، نہ کہ دھوکہ دہی اور جبر و تشدد کی راہ اپنانا۔ اگر موجودہ اقدام تحریک کو انتخابی سیاست سے دور کرنے یا انکی عوامی قوت کو کم کرنے کیلئے ہے تو پاکستان میں تجربات کرنے پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح بھی یہی چاہتے تھے کہ ہم پاکستان کو ایک تجربہ گاہ بنائیں، جہاں اسلامی قوانین کو پرکھا جا سکے۔ ہم اسلامی تو نہیں، ہاں تجربہ گاہ بن گئے، یہ اہم پیشرفت ہے۔


تحریر: سید اسد عباس

تحریک لبیک پاکستان کے کارکن اور ان کے حامی اپنے شدت پسند مظاہروں کی وجہ سے معروف ہیں۔ ان کے مظاہروں میں اکثر توڑ پھوڑ، لوٹ مار، جلاؤ گھیراؤ دیکھنے میں آتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ سب توڑ پھوڑ تحریک کے کارکن ہی کرتے ہوں، لیکن عموماً انہی کے احتجاج میں ایسا دیکھنے میں آتا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کا آغاز ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ہوا اور مولانا خادم حسین رضوی اس کے سربراہ قرار پائے۔ مولانا خادم حسین رضوی اٹک کے رہائشی تھے اور لاہور کی مسجد میں امامت کی ذمہ داریاں انجام دیتے تھے۔ ایک مسجد کے امام کیسے ملک گیر تحریک کے سربراہ بنے، اس فارمولے کو جاننے کی ضرورت ہے۔ ان کے اردگرد جمع ہونے والے افراد کون ہیں اور کیسے وہ اس تحریک میں شامل ہوئے، یہ بھی سوال انگیز ہے۔ ظاہراً ان سب کا نکتہ اشتراک حرمت رسول ؐ اور طریقہ احتجاج ہے۔ حرمت رسول ؐ پاکستان کے تقریباً سبھی مسلمانوں کا اعتقاد ہے، تاہم اس عنوان سے طرز عمل میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

یہ تنظیم اپنے طریقہ احتجاج کے سبب عوامی پذیرائی حاصل کرکے چند ہی برسوں میں ملک گیر تنظیم کے طور پر ابھری۔ اس تنظیم نے بہت جلد انتخابی سیاست میں قدم رکھا اور قومی انتخابات میں اپنے مدمقابل تنظیموں اور افراد کو زبردست چیلنج دیا۔ اس تنظیم کے قائدین اور کارکنوں کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا دفاع شان رسالتؑ ہے اور اس مقصد کے لیے یہ ہر اقدام کر گزرنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ اسے ایک غیر نظریاتی اور جذباتی عوامی طاقت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ دیکھا جائے تو ان کا شعار خوشنما اور قابل تقلید ہے، یعنی ’’لبیک یارسول اللہ‘‘ لیکن اس نعرہ کی حقیقت سے نہ وہ خود آشنا ہیں اور نہ ہی ان کو کسی تربیتی مرحلے سے گزارا گیا ہے کہ وہ جان سکیں کہ ’’لبیک یارسول اللہ‘‘ سے کیا مراد ہے۔ انھیں اندازہ نہیں کہ رسول اللہ کی تعلیمات کے خلاف وہ جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ کرتے ہیں لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے رسول اللہ ؐ قطعا راضی نہیں ہوسکتے۔

یہ تحریک پاکستانی معاشرے کی فکری سطح کی نہایت برہنہ عکاسی ہے، ہم بحیثیت قوم تقریباً یوں ہی ہیں، ایسے ہی اپنے جائز و ناجائز مطالبات کو جائز و ناجائز طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس مقصد کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کو مقدس بھی جانتے ہیں۔ ریاست اور ریاستی اداروں کو ان تمام امور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر اسے معاملات کی سنگینی اور اس کے مضمرات کا اندازہ نہ ہو تو اس کا اٹھایا گیا ہر اقدام غلط ہی تصور ہوگا اور اس کے نتائج ہمیں مستقبل میں بھگتنے ہوں گے۔ جب آپ مولانا خادم حسین رضوی صاحب کو اتنے عرصے سے برداشت کر رہے تھے تو پھر اچانک ان کی تحریک کے خلاف سخت اقدام کی ضرورت کیوں پیش آئی۔؟ حکومت نے 16 نومبر 2020ء کو مولانا خادم حسین رضوی سے معاہدہ کیا کہ فرانسیسی سفیر کو دو یا تین ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانونی سازی کے بعد واپس بھیج دیا جائے گا۔

اس معاہدے پر عمل نہ ہونے کے بعد فروری 2021ء میں مذکورہ جماعت اور حکومت کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا، جس کے تحت حکومت کو 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے وعدے پر عمل کرنے کی مہلت دی گئی۔ خادم حسین رضوی صاحب سے یہ مذاکرات کون کر رہا تھا اور کس کی ایما پر یہ وعدے کیے جا رہے تھے۔؟ یہ دھوکہ دہی اور وعدہ خلافی کا طرز عمل کیوں اپنایا گیا؟ اگر آپ فرانسیسی سفیر کو بے دخل نہیں کرسکتے تھے یا ایسا کرنا نہیں چاہتے تھے تو آپ نے مولانا سے وعدہ کیوں کیا۔؟ اگر آپ ان کی بات نہیں ماننا چاہتے تھے تو یہ آپریشن آپ نے اسی وقت کیوں نہ کیا اور اسی وقت مولانا اور ان کی تنظیم کے خلاف اقدام کرکے اس مسئلے کو حل کیوں نہ کیا۔ اب جب کہ مولانا کے بیٹے اور تحریک لبیک کے نئے سربراہ حافظ سعد نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو ریاست کو گرفتاری بھی یاد آگئی اور تنظیم کو کالعدم قرار دینا بھی۔

میں نہیں سمجھتا کہ اس قسم کے اقدامات تنظیم کے کارکنوں اور حامیوں کی سطح فکر کے مدنظر درست ہیں۔ وقتی طور پر دباؤ سے شاید آپ ابال کو ٹھنڈا کر لیں لیکن کارکنوں کی نظر میں آپ غلط ہیں اور ان کا مقصد مقدس۔ یہ کارکن ایک نئی طاقت یا نئی شکل میں ریاستی اقدامات کے مقابل باہر نکل سکتے ہیں۔ مسئلہ کا حل مذاکرات اور افہام و تفہیم سے معاملات کو درست کرنا تھا، نہ کہ دھوکہ دہی اور جبر و تشدد کی راہ اپنانا۔ اگر موجودہ اقدام تحریک کو انتخابی سیاست سے دور کرنے یا ان کی عوامی قوت کو کم کرنے کے لیے ہے تو پاکستان میں تجربات کرنے پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح بھی یہی چاہتے تھے کہ ہم پاکستان کو ایک تجربہ گاہ بنائیں، جہاں اسلامی قوانین کو پرکھا جا سکے۔ ہم اسلامی تو نہیں، ہاں تجربہ گاہ بن گئے، یہ اہم پیش رفت ہے۔


خبر کا کوڈ: 927930

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/927930/تحریک-لبیک-عمومی-سطح-فکر-کی-برہنہ-عکاسی-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org