QR CodeQR Code

پاکستان کے مسلمانوں کی بصیرت کا امتحان

18 Apr 2021 23:51

اسلام ٹائمز: میں یہ ہر محفل میں کہہ چکا ہوں کہ اگر تحریک لبیک نے قانون کی خلاف ورزی بھی کی تو قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیئے تھی۔ یہ کس قانون کے تحت انہیں لٹا کر انکی پچھلی شرمگاہ کو تشدد کا نشانہ بنا کر انکی وڈیو وائرل کی گئی۔ یہ ان ملزمان کی توہین اور تذلیل پاکستان میں نافذ کس قانون کے تحت کی گئی ہے۔ اس تذلیل و توہین پر مبنی وڈیوز وائرل کرنے کا پوری دنیا کے سرکش شیاطین امریکی زایونسٹ بلاک کو خوش کرنے کے علاوہ اسکا کیا مقصد تھا!؟ وہ جو نیدر لینڈ، ہالینڈ کا جیرٹ ولڈرز نے ٹویٹ میں کہا، کیا عمران خان کی انصافین حکومت نے اسکے علاوہ کچھ اور کیا امر جلیل نے اپنے افسانوں میں اللہ تعالیٰ کی توہین کی، اسکی ایسی کوئی وڈیو کیوں نہ بنی!؟ اسکے خلاف کس تھانے میں مقدمہ درج ہوا۔ حیف ہے امر جلیل کیجانب سے اللہ تعالیٰ کی توہین پر بھی خاموشی اختیار کیے رکھی۔


تحریر: محمد سلمان مہدی

تحریک لبیک کے عنوان سے بریلوی مسلک کے مولوی خادم حسین کی قیادت میں ایک مذہبی تنظیم پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر طلوع ہوئی۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل پولیس اہلکار ممتاز کے دفاع کی وجہ سے یہ پلیٹ فارم بریلوی مذہبی حلقوں میں ایک حد تک مشہور ہوا۔ بعد ازاں اس کے قائدین کے اختلافات کی وجہ سے تحریک لبیک تقسیم ہوگئی۔ ایک پلیٹ فارم تحریک لبیک یارسول اللہ (ص) کا نام استعمال کرتا رہا اور ایک تحریک لبیک پاکستان کے نام سے سرگرم رہا۔ اسلام ٹائمز کے کالم نگار اس پر شروع سے اپنا نکتہ نظر پیش کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں بعض محترم کالم نگاروں نے بعض زاویوں سے اس صورتحال کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ اس لیے اس تحریر میں اس ایشو کو یہ حقیر جس زاویئے سے دیکھ رہا ہے، وہ پیش خدمت ہے۔ یعنی بارہ اپریل 2021ء کے دن سے اس صورتحال کا جائزہ یعنی تحریک لبیک کے موجودہ جواں سال سربراہ حافظ سعد رضوی کی گرفتاری۔ یاد رہے کہ ان کے یا ان کے والد خادم حسین کے نام کے ساتھ رضوی کا لاحقہ اس لیے لگتا ہے کہ وہ احمد رضا خان کی مذہی تشریحات کو معتبر مانتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ حافظ ایسے مسلمان کو کہتے ہیں کہ جسے قرآن شریف کی ہر سورہ و آیت زبانی یاد ہو۔ اس کے مقابلے پر لفظ ناظرہ ہوتا ہے، یعنی ہر مسلمان کا قرآن شریف کی سورہ و آیات کو دیکھ کر قرات یا تلاوت کرنا۔

مادر وطن پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر جو ہلچل مچی ہوئی ہے، اس کا آغاز بارہ اپریل 2021ء کو لاہور میں تحریک لبیک کے سربراہ حافظ سعد رضوی کی گرفتاری سے ہوا۔ اس گرفتاری پر بہت بڑا سوالیہ نشان بنتا ہے۔ بارہ اپریل کو انہیں گرفتار کیوں کیا گیا!؟ اس وقت ان پر کونسا مقدمہ تھا؟ یعنی ٹائمنگ! یاد رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے تحریک لبیک کے قائدین سے معاہدہ ہوا تھا۔ فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو نے خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ (کلنا لہ الفداء) کی کھلم کھلا اہانت پر مبنی تضحیک آمیز کارٹون (کیریکیچر) شایع کیے تھے۔ بجائے اس ناقابل معافی جرم و گناہ کی مذمت و مخالفت کرنے کے، فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے چارلی ہیبڈو کا دفاع کیا تھا۔ یعنی فرانسیسی صدر بھی اس جرم و گناہ میں علی الاعلان شریک ہوگیا اور وہ بھی آزادی اظہار رائے کے نام پر! اس پر پوری دنیا میں امت اسلامی نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا، احتجاج کیا۔ پاکستان میں بھی احتجاج ہوا۔ تحریک لبیک نے پاکستان حکومت سے مطالبہ کیا کہ فرانس سے ہر قسم کے تعلقات ختم کیے جائیں۔ اس ضمن میں یہ بھی کہ پاکستان میں فرانسیسی سفارتخانہ اور دیگر سفارتی مشن بند کرکے فرانسیسی سفیر اور دیگر فرانسیسی سفارتی عملے کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر ملک بدر کردیا جائے۔ وفاقی حکومت نے تحریک لبیک کو آسرا دے رکھا تھا جبکہ تحریک لبیک نے 20 اپریل2021ء کو اسی ایشو پر اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کر رکھا تھا۔

تو لاہور میں حافظ سعد رضوی کو بارہ اپریل 2021ء کو گرفتار کرکے پنجاب پولیس نے پہل کی۔ اگر ان پر ماضی کا کوئی مقدمہ تھا تو وہ پہلے ہی کیوں نہ عدالت میں چلایا گیا!؟ اس گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں تحریک لبیک کے رہنماء و کارکنان سڑکوں پر جمع ہونے لگے اور مرکزی راستوں پر دھرنے لگ گئے۔ پولیس نے کارروائی شروع کی۔ اطلاعات یہ ہیں کہ پنجاب اور سندھ میں رینجرز بھی پولیس کی معاونت کرتی رہی۔ بعض مقامات پر تصادم ہوا۔ فائرنگ بھی کی گئی۔ پولیس اور مظاہرین دونوں کی جانب سے کارروائیاں ہوئیں۔ لاہور شہر میں کم سے کم دو پولیس اہلکار اس دوران مارے گئے اور متعدد زخمی ہوئے۔ ذرایع ابلاغ نے جو کوریج کی اس سے یہ کہیں معلوم نہیں ہوسکا کہ تحریک لبیک کے کتنے کارکنان و ہمدرد مارے گئے!؟ جبکہ ان کی طرف سے بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان کا بھی جانی نقصان کیا گیا ہے۔ اس دوران سوشل میڈیا پر بھی ایک نفرت انگیز مہم چلائی گئی اور چند وڈیو کلپس جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، اسے دیکھ کر میرے جیسے ٹھنڈے مزاج کا بندہ بھی تڑپ کر رہ گیا۔ ایک جوان کے دو وڈیو کلپس وائرل ہوئے، جس میں ایک میں وہ چند دیگر جوانوں کے ساتھ مل کر نعرے لگا رہا تھا اور پولیس اہلکار سامنے کھڑے ہوئے تھے۔ دوسرے میں اسی جوان کو ایک بڑے سے کمرے میں لٹایا ہوا دکھایا گیا، جہاں چند اہلکار جن کے چہروں سے بہت نیچے کیمرہ کو فوکس کیا گیا تھا، وہ اس نوجوان کی توہین و تذلیل و تشدد میں مصروف تھے۔ ایک اس کی پشت پر چڑھا اور دوسری طرف موجود اہلکار نے اس کی پچھلی شرمگاہ والے حصے پر تشدد کے ایک بڑے ڈنڈہ نما اوزار سے مارنا شروع کیا۔

جس جوان پر یہ تشدد کیا جا رہا تھا، وہ ہ پینٹ شرٹ پہنے ہوئے تھا۔ ایک اور وڈیو جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ وہاں ایک شلوار قمیص میں ملبوس مولوی ٹائپ کے جوان کے ساتھ اسی نوعیت کا تشدد ہوا۔ البتہ وہ مقام مختلف تھا۔ ایک شخص کے دو وڈیو کلپس وائرل ہوئے۔ ایک میں ہجوم کی قیادت کرتے دکھایا گیا۔ دوسری وڈیو میں وہ خود کو پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کا کاؤنسلر کہہ رہا ہے۔ وڈیو سے ہر ذی شعور خود سمجھ سکتا ہے کہ سامنے موجود کوئی شخص اسے جو حکم دے رہا ہے، وہ اس کا رٹا لگا کر دہرا رہا ہے۔ آخر میں اس نے کہا کہ پنجاب پولیس زندہ باد۔ یہ اس صورتحال کا دوسرا پہلو ہے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ 14 اپریل2021ء کو روزنامہ پاکستان کی ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق متشدد تصادم میں سات افراد ہلاک ہوئے۔ ان سات میں وہ دو پولیس اہلکار بھی شامل تھے، جن کا تذکرہ پہلے کیا جاچکا۔ یعنی مرنے والوں میں محض پولیس اہلکار نہیں ہیں بلکہ عام شہری یا تحریک لبیک کے ہمدرد بھی ہیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ اس صورتحال کو یکطرفہ طور پر نہ دیکھا جائے۔

سولہ اپریل 2021ء کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے رانا ثناء اللہ نے جو بیان دیا اور اس پر اگلے دن وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین نے جو ردعمل ظاہر کیا۔ یہ اس صورتحال کا ایک اور رخ ہے۔ یعنی کیا پنجاب میں نون لیگ نے تحریک لبیک کے احتجاج کی آڑ میں اپنا کوئی کھیل کھیلنے کی کوشش کی ہے!؟ آیا انہوں نے اس احتجاج کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے!؟ لیکن چوہدری فواد صاحب یہ بھول گئے کہ جب نون لیگ کی وفاق اور پنجاب میں حکومت تھی، تب موجودہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے قائد یعنی موجودہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں لاہور تا اسلام آباد کا لانگ مارچ اور اسلام آباد میں طویل المدت دھرنا اور اس دوران تشدد کے متعدد واقعات بھی پاکستان کی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہیں۔ پاکستان اس وقت بھی ایک نیوکلیئر طاقت تھی، تب پاکستان کا ایک آئین تھا اور ریاست سے مراد اگر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت بھی ہے اور پی ٹی وی اسی ریاست پاکستان کا ٹیلی ویژن چینل ہے یا عدلیہ بھی اسی ریاست کا ایک ستون ہے تو اس ریاست کے خلاف تو تحریک انصاف نے بھی کم ادھم مستی نہیں کی تھی۔ انہوں نے خود بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تھا۔ لہٰذا اس موضوع پر فواد صاحب کے لیکچر کی اخلاقی حیثیت نہیں۔

اصل ایشو توہین در شان رسالت مآب خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ ہے۔ تو ادھر ادھر کی ساری باتوں کو ادھر ادھر کرکے اصل مطلب پر آجائیں۔ جب تحریک لبیک نے نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں احتجاج کیا، تب تحریک انصاف اور شیخ رشید صاحب کا موقف کیا تھا!؟ کیا آپ کا سافٹ ویئر بھی اپ ڈیٹ کر دیا گیا ہے!؟ اب آپ حکومت میں ہیں تو عشق رسولﷺ میں جو آپ کا موقف نون لیگ کی حکومت کے دور میں تھا، وہ کیوں بدل گیا!؟ معاہدہ جس کسی نے بھی کیا اور کروایا، اب ان سبھی کی ذمے داری ہے کہ فرانس سے متعلق حکومت پاکستان کی پالیسی تبدیل کی جائے۔ مطالبات جائز ہیں یعنی فرانس سے تعلقات ختم کریں، فرانسیسی سفارتی مشن بند اور فرانسیسی اسٹاف بشمول سفیر ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک بدر کر دیئے جائیں۔ اس پر حکم جاری کریں ناں!۔  اب آپ ثابت کریں کہ تحریک لبیک پر پابندی فرانس کے حوالے سے مطالبات کی وجہ سے نہیں لگائی اور ثابت اسی طرح کرسکتے ہیں کہ فرانس سے تعلقات ختم کریں۔ سفارتخانہ بند کر دیں۔  غیر ملکی عملہ بشمول فرانسیسی سفیر ملک بدر کر دیں۔ یہ مطالبہ تحریک لبیک کا نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کا ہے اور اس پر ریفرنڈم کروا کر حقیقت معلوم کرلیں۔

تحریک لبیک کو اس ایشو پر سولو فلائٹ نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ لیکن مذہبی جماعتوں کے قائدین کی عدم توجہی کی وجہ سے ہی معاملہ یہاں تک پہنچا۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے قائدین کا سیاسی پلیٹ فارم متحدہ مجلس عمل تھا اور اب ملی یکجہتی کاؤنسل بھی ہے تو جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ ہو یا کوئی دوسرا، تیسرا۔ اگر کسی نے بھی اس ایشو پر سودے بازی کی اور اسے کوئی اور رخ دینے کی کوشش کی تو یاد رکھیں واللہ خیرالماکرین۔ اب اس کا فیصلہ منصورہ لاہور یا کراچی کے کسی دارالعلوم سے نہیں ہونا چاہیئے بلکہ صرف اور صرف ملی یکجہتی کاؤنسل کے پلیٹ فارم سے ایک مشترکہ موقف سامنے آنا چاہیئے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ بیس اپریل کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور ملی یکجتی کاؤنسل مل جل کر متحد ہوکر اسلام آباد میں فرانسیسی سفارتخانے کے باہر ایک عظیم الشان دھرنا دے کر بیٹھ جائیں۔ بس یہ خیال رہے کہ تکفیری ناصبی اٹھائی گیرے اور دہشت گردی میں ملوث مولوی شامل نہ ہوں۔ یوں آپ مذہبی بزرگان اس نئے پاکستان کی ایک نئی تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بزرگان نے قرارداد مقاصد کے ذریعے پاکستان کی اسلامی شناخت کا حتمی تعین کر دیا تھا۔ آج بھی پاکستان کو آپ کے ویسے ہی اجماع کی ضرورت ہے۔ فرانس سے تعلقات منقطع کرنا، سفارتخانہ بند کرنا، سفیر ملک بدر کرنا۔  یعنی ہر نوعیت کا تعلق ختم کرنا۔ یہ سنگل پوائنٹ ایجنڈا ہے۔ بس۔

جہاں تک معاملہ ہے تحریک لبیک کا، میں یہ ہر محفل میں کہہ چکا ہوں کہ اگر تحریک لبیک نے قانون کی خلاف ورزی بھی کی تو قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیئے تھی۔ یہ کس قانون کے تحت انہیں لٹا کر ان کی پچھلی شرمگاہ کو تشدد کا نشانہ بنا کر ان کی وڈیو وائرل کی گئی۔ یہ ان ملزمان کی توہین اور تذلیل پاکستان میں نافذ کس قانون کے تحت کی گئی ہے۔ اس تذلیل و توہین پر مبنی وڈیوز وائرل کرنے کا پوری دنیا کے سرکش شیاطین امریکی زایونسٹ بلاک کو خوش کرنے کے علاوہ اس کا کیا مقصد تھا!؟ وہ جو نیدر لینڈ، ہالینڈ کا جیرٹ ولڈرز نے ٹویٹ میں کہا، کیا عمران خان کی انصافین حکومت نے اس کے علاوہ کچھ اور کیا امر جلیل نے اپنے افسانوں میں اللہ تعالیٰ کی توہین کی، اس کی ایسی کوئی وڈیو کیوں نہ بنی!؟ اس کے خلاف کس تھانے میں مقدمہ درج ہوا۔ حیف ہے امر جلیل کی جانب سے اللہ تعالیٰ کی توہین پر بھی خاموشی اختیار کیے رکھی۔

وفاقی وزیر کہتے ہیں کہ کراچی میں فرقہ واریت میں بھارتی ادارہ راء ملوث تھا۔ راء ادارہ ملوث ہوتا ہے تو اس کے سہولت کار آلہ کار مولوی کیوں ریاستی مذہبی اداروں میں رکنیت یا مسئولیت رکھتے ہیں!؟ پاکستان کا ہر مسلمان خواہ وہ سنی ہو یا شیعہ دیکھ لے کہ کراچی سمیت ملک بھر میں کس کس مولوی اور کس کس جماعت نے محرم اور صفر میں حسینی عزاداروں کے خلاف فرقہ واریت اور جبری تبدیلی مسلک کی مہم چلائی اور بعض افراد کی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کیں۔ انہی دنوں شیعہ مساجد اور امام بارگاہوں پر موجود اللہ تعالیٰ، خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ اور مولا علی ؑ سمیت پنجتن پاک اور بارہ اماموں اور جناب سیدہ بی بی فاطمہ زہراء (س) کے ناموں کی طرف لعنت کا اشارہ کرنے کی وڈیو بھی وائرل ہوئی تھی۔ ایسے بدبخت مولویوں سے بھی ہر مسلمان خبردار رہیں۔ یہ سب اس فتنے کا حصہ ہیں۔ تب بھی ہم نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کو بنو امیہ کی ریاست بنا دیا گیا ہے۔ تب بھی ہم نے خبردار کیا تھا کہ سیکولر ڈیموکریسی کی سازش ہو رہی ہےو لیکن بہت سارے مولوی اس سازش کے سہولت کار اور آلہ کار بنے۔ تب سے اب تک کے درمیانی حالات میں وہ سارے مولوی گم رہے اور اب پھر تحریک لبیک کے دفاع کے نام پر لبیک یارسول اللہﷺ کے نعرے پر متفق امت اسلامی کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے میدان میں اتر چکے ہیں۔ پاکستانیو! ہشیار!۔ مسلمانو! خبردار!۔ یہ پاکستان کے ہر مسلمان کی بصیرت کے امتحان کا وقت ہے۔


خبر کا کوڈ: 927940

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/927940/پاکستان-کے-مسلمانوں-کی-بصیرت-کا-امتحان

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org