QR CodeQR Code

تحریک لبیک، کالعدم گروہ اور ہمارے حکمران

19 Apr 2021 15:46

اسلام ٹائمز: اگر ہم اپنے بنیادی موضوع کی طرف آئیں تو اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کالعدم قرار دی گئیں جماعتیں اور دہشتگرد گروہ اس ملک میں اب بھی آزاد ہیں اور انہیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں، بہت سے مواقع پر حکومت اور ادارے انہی کو استعمال کرتے ہیں اور ان سے معاملات حل کرنے میں مدد حاصل کرتے ہیں، اسی لئے ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں اور ملک سے شدت پسندی، دہشتگردی کا خاتمہ نہیں ہو رہا، نجانے یہ موسم کب بدلے گا، کب اس چمن میں قائد کے افکار کی بہار چلے گی، کب اس دھرتی پہ اقبال کے گیتوں سے سماں بندھے گا، تہتر برس ہوئے اس دھرتی کی اس پیاس کو بجھانے کا کوئی انتظام نہیں ہوسکا۔


تحریر: ارشاد حسین ناصر

تحریک لبیک پاکستان نامی مذہبی سیاسی جماعت پر اس کی پرتشدد کارروائیوں کے بعد حکومت نے باقاعدہ پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا، جس کے بعد یہ جماعت اب کالعدم شمار ہو رہی ہے، اس کے اثاثے، بنک اکائونٹس منجمد کر دیئے گئے، اس کے اہم لیڈرز کو فورتھ شیڈول میں شامل کر دیا گیا اور قانون کے مطابق ان کی تقاریر پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ میڈیا کو کالعدم جماعت کی کوریج کرنے سے پیمیرا نے روک دیا ہے اور سوشل میڈیا پر جماعت سے وابستہ کئی ایک اکائونٹس کو بلاک کیا گیا ہے۔ قارئین محترم! آپ آگاہ ہیں کہ یہ کوئی پہلی جماعت نہیں جس پر پابندی لگائی گئی ہے، اس سے پہلے بھی پاکستان میں مختلف سیاسی، دینی، مذہبی جماعتوں نیز مسلح تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان کالعدم جماعتوں کا کیا ہوا، ان کی موجودہ صورتحال کیا ہے اور ان پر جو پابندیاں لگائی گئی تھیں، وہ کس حد تک موثر ہیں، کیا ان پابندیوں سے وہ مقاصد حاصل ہوسکے، جو حکومت کے پیش نظر تھے؟ اگر ہم ان کالعدم جماعتوں کی موجودہ پوزیشن کے بارے آگاہی حاصل کرسکیں تو پھر تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کے اثرات، مستقبل کی صورتحال اور کردار بارے درست تجزیہ پیش کرسکتے ہیں۔

کیا کالعدم قرار دینا ہی آخری حل ہوتا ہے یا اس کے علاوہ بھی آپشنز ہوسکتے ہیں، اس سے قبل جن جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا، وہ زیادہ تر مشرف کے دور اقتدار میں ہوا، جس میں دہشت گردی کے خلاف امریکہ کیساتھ کاندھا ملانے پر پاکستان میں موجود جہادی گروہوں نے حکومت اور فوج کے خلاف مسلح جدوجہد کا اعلان کیا تھا، یہ کالعدم جماعتیں اور جہادی گروہ مختلف ناموں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان میں سرگرم عمل تھے، جس میں سب سے بڑی تنظیم القاعدہ تھی، جس کی چھتری تلے دوسری کئی ایک تنظیمیں بھی کام کر رہی تھیں، ان سب مسلح گروہوں کو کالعدم قرار دیا گیا جبکہ پاکستان کی کئی دینی جماعتوں جن میں تحریک جعفریہ پاکستان، سپاہ محمد پاکستان، جیش محمد، لشکر طیبہ، سپاہ صحابہ پاکستان بھی کالعدم قرار پائیں، القاعدہ کی کوکھ سے تحریک طالبان پاکستان نے بھی جنم لیا اور ملک کے طول و عرض میں بم دھماکوں بالخصوص سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا کر اپنے وجود کا بھرپور اظہار کرتے رہے۔

ہم نے دیکھا کہ کالعدم ہونے کے باوجود طالبان نے پاکستان بھر میں اپنے نیٹ ورک کو وسیع کیا اور ملک کے طول و عرض میں تخریب کاری اور خون آشامی کی نئی تاریخ رقم کی، جس کا ذکر کرکے بھی خوف محسوس ہوتا ہے، ایسے میں ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ حکومت نے کالعدم قرار دے جو قلعہ فتح کرنے کا شادیانہ بجایا تھا، وہ کیا تھا؟ حقیقت کا کھوج لگائیں تو دہشت گرد، مسلح گرو ہ جنہیں کالعدم قرار دیا جاتا رہا ہے، ان کیساتھ ہم آہنگ، ہم فکر بلکہ ہم مسلک گروہ جو سرگرم عمل رہتے ہیں، وہ ان کالعدم گروہوں کو آکسیجن فراہم کرتے رہے ہیں، اس کو سمجھنے کیلئے یہی کافی ہے کہ تحریک طالبان کو اگر کالعدم قرار دیا گیا ہے تو پاکستان میں اس کی مددگار تنظیمیں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی موجود تھیں، جو اس دہشت گرد ٹولے کو مکمل مدد فراہم کر رہی تھیں، جو خود بھی کالعدم تھیں، مگر ان کے قائدین کو یہ پروٹو کول حاصل تھا کہ پولیس کی بھاری سکیورٹی کے حصار میں یہ پورے ملک میں جلسے، جلوس اور ریلیاں کرتے تھے۔

کہنے کو یہ فورتھ شیڈول میں ہوتے، مگر عملی طور پہ حکومتی سکیورٹی میں ان کی تمام تخریبی سرگرمیاں جاری رہتیں، ایک طرف فورتھ شیڈول جیسے ظالم قانون کا اگر کوئی غریب آدمی شکار ہو جائے تو اس کا جینا حرام ہو جاتا ہے، نہ جائیدا خرید سکتا ہے، نہ فروخت کرسکتا ہے، ایک تھانے سے دوسرے تھانے کی حدود میں بغیر اطلاع نہیں جا سکتا، کسی بھی قسم کی سیاسی و سماجی سر گرمی میں حصہ نہیں لے سکتا، پولیس جب چاہے اسے اٹھا لے اور تین ماہ تک بغیر کسی وجہ بتائے جیل میں بھیج دے۔ دوسری طرف ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کالعدم قرار دی گئی دہشت گرد تنظیموں اور ان کے قائدین کو حکومتی پروٹو کول حاصل ہے اور ان کی حفاظت کا بندوبست بھی حکومت کے ذمہ ہے۔ کیا عجیب نہیں لگتا کہ نون لیگ کی پنجاب حکومت دہشت گرد ملک اسحاق کے گھر کا ماہانہ خرچ اٹھائے اور عالمی سطح پر کالعدم قرار دی گئی جماعت الدعوہ کو کروڑوں روپے سرکاری فنڈ سے جاری کئے جائیں، پھر وہ پابندی کہاں گئی؟ پابندی کس چیز کا نام ہوا، کالعدم قرار دیئے جانے کا کیا مطلب ہوا۔؟

یہی وہ دوغلا پن ہے، جس کی وجہ سے ہمارا ملک ایف اے ٹی ایف میں مسلسل جکڑا ہوا ہے اور اسے کلیئر نہیں کیا جا رہا۔ اب تحریک لبیک کی شکل میں ایک نئے گروہ نے اپنے شدت پسندانہ انداز سے پاکستان کو عالمی سطح پر مشکلات کا شکار کرنے کیلئے ناموس رسالت ۖ کے اہم اور جذباتی ایشو پر دو راہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ایک رہنما کی گرفتاری اور اس کے بعد مسلسل ہنگامہ آرائی سے ایک طرف ملکی نظام درہم برہم ہوچکا ہے تو دوسری طرف عام غریب آدمی کا جینا محال ہے، کتنے مزدور اور دیہاڑی دار ہیں، جو ان ہنگاموں کی وجہ سے دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ پولیس اور اس کالعدم قرار دی گئی جماعت کے درمیان مسلسل جھڑپیں اور ہنگامہ آرائی نے ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا ہے، حکومت کے غلط انداز اور حکمت عملی سے کالعدم قرارد ی گئی جماعت کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے اور کئی مذہبی پیشوا اور دینی جماعتوں نے بھی کالعدم گروہ کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا ہے۔ میرے خیال میں حکومت کی غلط حکمت عملی کے باعث ایسا ممکن ہوا، اگر حکومت معتبر اہلسنت علماء اور گدی نشینوں کو درمیان میں لا کر مذاکرات کرتی تو نتیجہ اس سے مختلف ہوتا اور حکومت کو کسی سبکی کا سامنا بھی نہ کرنا پڑتا۔

اب جب اس جماعت کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے تو ہمارا وزیراعظم جو کوئٹہ میں پڑی لاشوں سے بلیک میل نہیں ہوتا، ایک کالعدم گروہ سے بلیک میل ہو رہا ہے، اب کالعدم تحریک لبیک کے مطالبات کو مانا جا رہا ہے، کیونکہ اب مولانا فضل الرحمن نے ان کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، اب تحریک طالبان نے ان کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، اب مفتی منیب الرحمان اور حامد سعید کاظمی نے ان کی حمایت کا علان کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں کے کان پر اس وقت جوں رینگتی ہے، جب ان کی کرسی کو خطرہ محسوس ہو، ورنہ پندرہ دنوں سے کراچی میں مزار قائد کے سائے تلے انتہائی پرامن انداز میں اپنے پیاروں کے غیر قانونی اغواء اور عدم دستیابی پر سراپا احتجاج سادات و مومنین و مومنات کی صدائے احتجاج کو آپ کے کراچی سے تعلق رکھنے والے کسی وزیر نے سنا اور نہ ہی صدارت پاکستان کے عہدے پر سرفراز کراچی سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت کے کانوں پہ جوں رینگی۔ کیا یہ لوگ جو پرامن اور بے ضرر انداز سے اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں، پاکستان کے شہری نہیں ہیں، ان کے دکھ درد اور مسئلہ کو حل کرنا آپ کے دائرہ حکومت میں نہیں آتا۔؟

سوال پھر یہی سامنے آتا ہے کہ کیا متشدد انداز، دہشت گردانہ افکار اور نظریات کے پرچارک اور ان کے ذبردستی نفاذ اور ڈنڈے سے اپنی فکر کو لاگو کرنے جیسے اقدامات کرنے اور سرگرمیاں جاری رکھنے سے ہی کسی کے قد کاٹھ اور اہمیت کو تسلیم کیا جانا ہے، چاہے وہ کالعدم ہی کیوں نہ ہو تو پھر آپ کی تبدیلی کہاں چلی گئی۔ ایسا تو ماضی کی حکومتیں بھی کر رہی تھیں، بلکہ آپ سے بہتر کر رہی تھیں؟
اگر ہم اپنے بنیادی موضوع کی طرف آئیں تو اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کالعدم قرار دی گئیں جماعتیں اور دہشت گرد گروہ اس ملک میں اب بھی آزاد ہیں اور انہیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں، بہت سے مواقع پر حکومت اور ادارے انہی کو استعمال کرتے ہیں اور ان سے معاملات حل کرنے میں مدد حاصل کرتے ہیں، اسی لئے ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں اور ملک سے شدت پسندی، دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو رہا، نجانے یہ موسم کب بدلے گا، کب اس چمن میں قائد کے افکار کی بہار چلے گی، کب اس دھرتی پہ اقبال کے گیتوں سے سماں بندھے گا، تہتر برس ہوئے اس دھرتی کی اس پیاس کو بجھانے کا کوئی انتظام نہیں ہوسکا۔


خبر کا کوڈ: 928086

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/928086/تحریک-لبیک-کالعدم-گروہ-اور-ہمارے-حکمران

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org