1
1
Monday 19 Apr 2021 20:44

حکومتی پابندی کتنی مؤثر، کیا تحریک لبیک تحلیل ہوگی؟

حکومتی پابندی کتنی مؤثر، کیا تحریک لبیک تحلیل ہوگی؟
رپورٹ: ایم رضا

پاکستان پچھلے پانچ دنوں سے پرتشدد مظاہروں کی لپیٹ میں رہا ہے، جس کی وجہ لاہور میں سیاسی و مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی کی پیر (12 اپریل) کے روز پنجاب پولیس کے ہاتھوں گرفتاری بنی۔ ان پرتشدد مظاہروں میں حکومت کے مطابق 4 پولیس اہلکار جاں بحق اور 600 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں تحریک لبیک پاکستان کے بھی متعدد کارکنان جاں بحق ہوئے ہیں۔ ان پرتشدد مظاہروں کے بعد پاکستانی حکومت اس جماعت پر انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997ء کے تحت پابندی لگا چکی ہے۔ یہ پابندی انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی دفعہ 11 بی (1) کے تحت لگائی گئی ہے، تاہم وفاقی حکومت کو تحریک لبیک پاکستان کو بحیثیت سیاسی جماعت تحلیل کرنے کیلئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 212 (1) کا سہارا لینا پڑے گا۔

واضح رہے کہ اس جماعت نے 2018ء کے عام انتخابات میں 22 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے، جبکہ اس کے سندھ اسمبلی میں 3 اراکین بھی موجود ہیں۔ الیکشنز ایکٹ 2017ء کی دفعہ 212 (1) کے مطابق وفاقی حکومت اگر سمجھتی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت پاکستان کی سالمیت کیخلاف کام کر رہی ہے یا الیکشن کمیشن اور کسی ذرائع کے تحت حکومت کو پتہ چلے کہ سیاسی جماعت غیر ملکی فنڈز حاصل یا دہشت گردی میں ملوث ہے، تو حکومت ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے اس جماعت کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ دوسری جانب حکومت سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے 15 دن بعد معاملے کو سپریم کورٹ کے پاس بھیجنے کی پابند ہے۔ اگر سپریم کورٹ حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو الیکشنز ایکٹ 2017ء کے تحت وہ جماعت “تحلیل” ہو جائے گی۔

انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹ کی وکیل اور قانونی مشیر ریما عمر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کرنے کا “صحیح طریقہ کار” الیکشن ایکٹ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کے بعد اسے تحلیل کرنے کی طرف قدم بڑھایا جا رہا ہے۔ لاہور میں مقیم ایک وکیل اسد جمال کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کا اقدام حکومت کا یکطرفہ فیصلہ ہے، سپریم کورٹ ٹی ایل پی رہنماؤں اور وکلاء کا مؤقف جاننے کیلئے نوٹس جاری کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ حکومت کے مؤقف کا جائزہ لے گی، جس کے بعد نظرثانی کرے گی جبکہ حکومت کو ٹی ایل پی کیخلاف شواہد اکٹھے کرنا ہوں گے اور عدالت کو مطمئن کرنا پڑے گا۔ اسد جمال کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی کا الزام کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا آسان راستہ ہے، تاہم حکومت کو عدالت میں اس بات کو ثابت کرنا پڑے گا کہ گذشتہ دنوں ملک میں جو کچھ ہوا، وہ دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے۔

اگر ٹی ایل پی تحلیل ہوتی ہے تو اسکے اراکین کا کیا ہوگا؟
اگر سپریم کورٹ تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کے حکومتی فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو پارٹی کے سندھ اسمبلی میں موجود تینوں اراکین نااہل قرار دے دیئے جائیں گے، جس کا الیکشن کمیشن باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔ اس بارے میں جب تحریک لبیک پاکستان کے سندھ اسمبلی کے رکن محمد یونس سومرو سے پوچھا گیا کہ اگر انہیں کہا جائے کہ وہ اپنی جماعت یا اسمبلی رکنیت میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں تو وہ کیا کریں گے، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ تحریک لبیک پاکستان کے عہدیدار نہیں اور باقی معاملات پر وہ اپنے وکیل سے مشورہ کریں گے۔

کیا یہ پابندی تحریک لبیک کی سرگرمیاں مکمل ختم کر دیگی؟
حکومت کی جانب سے ماضی میں بھی متعدد سیاسی و مذہبی جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ پاکستان کے انسداد دہشتگری کے ادارے نیکٹا کے سابق سربراہ احسن غنی اور اسلام آباد کی نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں انسداد دہشتگری کے پروفیسر اور شعبہ بین الاقوام تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر خرم اقبال کے خیال میں تحریک لبیک پاکستان کے خلاف یہ پابندی شاید زیادہ موثر ثابت نہ ہوسکے۔ ڈاکٹر خرم اقبال کا کہنا ہے کہ حکومت کو تنظیم کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر روکنے میں متعدد چیلینجز کا سامنا ہوگا، سب سے پہلی دشواری تو یہ ہے کہ ماضی کی طرح بہت زیادہ امکانات ہیں کہ یہ تنظیم کسی دوسرے نام سے اپنی سرگرمیاں شروع کر دے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں قوانین میں ایسی تبدیلیاں لائی گئی ہیں، جو تنظیموں کے نام بدل کر کام کرنے سے روکنے میں موثر ثابت ہوسکتی ہیں۔

اس کے علاوہ جماعت الدعوۃ، لشکرِ طیبہ یا دیگر کالعدم تنظیموں کی طرح اس تنظیم کے باقاعدہ فلاحی اور امدادی ادارے موجود نہیں، جس کی وجہ سے حکومت کے لئے تنظیم کے مالی اثاثوں کا پتہ چلانا مشکل ہوگا۔ اس کے علاوہ مالی طور پر تحریک لبیک پاکستان کا زیادہ تر انحصار ایسے مخیر خضرات کے چندے پر ہے، جو آج تک سامنے نہیں آئے اور جس کا شاید ریکارڈ موجود نہ ہو۔ ان لوگوں کی نشاندہی کرنا اور ان کی امداد کو تنظیم تک پہنچنے سے روکنا بھی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلینچ ہوگا۔ اسی طرح تحریک لبیک پاکستان سے جڑے مدارس کی نشاندہی بھی حکومت کے لئے ایک مسئلہ ہوگی، کیونکہ جب بھی تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے مظاہرے کئے گئے، ان میں بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے مدارس کے طلباء کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

اب یہ جاننا کہ دراصل کتنے اور کون سے ایسے مدارس ہیں، جو اس تنظیم کے ساتھ منسلک ہیں اور پھر ان کے خلاف کارروائی کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم سوشل میڈیا پر بھی بہت سرگرم اور متحرک ہے اور اپنے نظریات کو اس کے ذریعے عام کرنے میں کوشاں ہے، لہذا سوشل میڈیا پر ان کی موجودگی کو کنٹرول کرنا اور نفرت آمیز مواد کے پھیلاؤ کو روکنا بھی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلینچ ہوگا۔ انسداد دہشتگری کے ادارے نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی کا کہنا ہے کہ ان کے تجربہ کے مطابق تنظیموں کو کالعدم قرار دینا اور ان پر پابندی عائد کرنا ان کی سرگرمیوں کو روکنے میں زیادہ موثر ثابت نہیں ہوا کیونکہ یہ تنظیمیں پابندی عائد ہونے کے بعد کسی نئے نام سے اپنی سرگرمیاں شروع کر دیتی ہیں۔ احسان غنی کے مطابق تنظیم پر پابندی عائد کرنے سے کئی زیادہ موثر اقدام شخصیات پر پابندی عائد کرنا ہے، کیونکہ پاکستان میں اس وقت کوئی ایسا قانون موجود نہیں، جو تنظیم کے افراد کو الیکشن لڑنے سے روکے، لہذا اس پابندی کے بعد تحریک لبیک بطور سیاسی جماعت تو شاید الیکشن میں حصہ نہ لے سکے، لیکن اس تنظیم کے افراد آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ سکتے ہیں۔

نیکٹا کے سابق سربراہ کے مطابق ہم نے دیکھا کہ حکومت صرف ایک معاہدے کے نتیجے میں تحریک لبیک پاکستان کے لوگوں کے نام فورتھ شیڈیول سے نکالنے پر آمادہ ہوگئی، اس طرح لگائی اور ہٹائی جانے والی پابندیاں کبھی موثر ثابت نہیں ہوتیں۔ احسان غنی کا کہنا ہے کہ اس پابندی پر عملدرآمد کا دارومدار اس بات پر منحصر کہ حکومت ان کی سرگرمیاں روکنے میں کتنی سنجیدہ ہے، کیونکہ حکومت سمیت دیگر سیاسی جماعتوں میں تحریک لبیک پاکستان کو سپورٹ کرنے والے افراد آج بھی موجود ہیں، اگر حکومت ان کی سرگرمیوں کو روکنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے چاہیئے کہ تشدد پر اکسانے اور تشدد میں ملوث افراد کی نشاندہی کرے اور ان کے خلاف مقدمے درج کرکے انہیں سخت سزائیں دلوائی جائیں، ورنہ ماضی کی طرح یہ پابندی بھی تنظیم کی سرگرمیوں کو روکنے میں کوئی خاطر خواہ بدلاؤ نہیں لائے گی۔
خبر کا کوڈ : 928103
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
تحریک لبیک سے سیٹنگ ہوگی
ہماری پیشکش