0
Wednesday 21 Apr 2021 18:30

عشق خاتم الانبیاؑ کہاں؟ سول وار کہاں؟

عشق خاتم الانبیاؑ کہاں؟ سول وار کہاں؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ویسے بڑا عجیب لگتا ہے کہ فرانس میں گستاخی پر جل پاکستان رہا ہے، ہم اپنے ہی لوگوں اور اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ عشق رسولﷺ ایمان کا تقاضا ہے اور اس کے بغیر ایمان کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ ہمارا طاقتور پہلو ہے، جو ہمیں باہم متحد کر دیتا ہے۔ ہمارا دشمن ہمارے اس طاقتور پہلو کو جان گیا ہے اور وہ اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر  رہا ہے۔ ہم پوری عقیدت اور عشق کے ساتھ  استعمال ہو رہے ہیں۔ فرانس کے سفیر کو نکالنا ہی محبت رسولﷺ کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے، یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ کمزور کا ردعمل اپنے آپ کو نقصان پہنچانے تک محدود ہوتا ہے، جاہل کا ردعمل اپنے آپ کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ اگر اس ردعمل کا تعلق مذہب سے بھی ہو تو انفرادی، اجتماعی کے ساتھ ساتھ ریاستی نقصان بھی کر لیا جاتا ہے۔

اس ملک میں بریلوی مسلک کے لوگ انتہائی پرامن اور وطن پرست ہیں، وہ کسی بھی صورت میں پاکستان کے خلاف بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ مجھے اور کسی کو بھی علامہ خادم حسین رضوی صاحب سے اختلاف ہوسکتا ہے، مگر ان کی پاکستان سے محبت شک و شبہے سے بالا تر ہے۔ وہ لوگ پاکستان سے محبت کو ہماری طرح ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ دشمن نے ہماری محبت رسولﷺ کو استعمال کیا اور صورتحال باہمی تصادم تک چلی گئی۔ تحریک کے لوگوں کا مطالبہ  ریاستی مفادات کے مقابل کھڑا ہے۔ ذرا صورتحال ملاحظہ کریں، چند دن پہلے روسی وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کرکے گئے ہیں۔ ستر کی دہائی کے بعد پہلی بار روس پاکستان میں دلچسپی کا ظہار کر رہا ہے، انڈیا میں وزیراعظم نے ان سے ملاقات تک نہیں کی، یعنی انڈیا کے امریکی لابی میں جانے سے ہمارے لیے روس سے تعلقات بہتر کرنے کا موقع ملا ہے۔ پاکستان کی دفاعی ضروریات کے لیے اور روس کی سرمایہ کاری کے لیے بہت ہی سازگار ماحول پیدا ہو رہا ہے۔

ادھر امریکی افواج بیس سال کی مسلسل جنگ کے بعد شکست خوردگی کی حالت میں افغانستان سے نکل رہی ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ افغان جو مرضی کریں، ہم جا رہے ہیں۔ اب یہاں سے ریاست پاکستان کے ایک بڑے کردار کا دروازہ کھل رہا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی جو مرضی بڑھکیں ماریں، اصل بات یہ ہے کہ وہ پاکستان کے بغیر افغانستان پر اپنا کنٹرول نہیں رکھ سکیں گے۔ پاکستان بھی یہ کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی معاہدہ ہو جائے، جس سے ہمارا یہ بارڈ پرامن رہے۔ ایران، چین کے چار سو ارب ڈالر کے معاہدے نے پاکستان، ایران اور چین کو باہم جوڑ دیا ہے، آج ایران کے ساتھ پاکستان کا تیسرا بارڈر پشین کے مقام پر فنکشنل ہوچکا ہے اور پاکستان ایران باہم جڑ رہے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ تہران کے دورے پر ہیں اور باہمی تعلقات مستحکم ہو رہے ہیں۔ پاکستان و ایران دونوں چین و روس سے تعلقات بہتر بنانے میں لگے ہیں۔ ایران و پاکستان کا یہ اتحاد ان دونوں قوتوں کے ساتھ ملکر افغانستان میں داعش و دیگر عناصر کو روکنے کا باعث بھی بنے گا اور افغانستان کو بھی استحکام ملے گا۔

کچھ ہی عرصے بعد ایف اے ٹی ایف کی میٹنگ ہے، جس میں یہ فیصلہ ہونے جا رہا ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ کیا جائے یا گرے لسٹ سے نکال دیا جائے؟ پاکستان نے بھرپور محنت کی ہے، بڑی تعداد میں قوانین بنائے گئے ہیں، اکاونٹس بلاک کیے گئے اور  وہ شرائط پوری کرنے کی کوشش کی گئی، جو ایف اے ٹی ایف کی طرف سے عائد کی گئیں تھیں۔ کیونکہ گرے لسٹ کی تلوار بڑے سرمایہ کار کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے روک رہی ہے اور دنیا کے اقتصادی نظام سے پاکستان پوری طرح مستفید نہیں ہو پا رہا۔ ایف ٹی ایف کا ہیڈ کوارٹر فرانس میں ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کافی عرصے بعد بہت اچھا پرفارم کر رہی ہے اور کرونا کے باوجود اس نے اربوں ڈالر کی برآمدات کی ہیں۔ فرانس کے سفیر کو نکالنے کا مطلب یورپی یونین سے تعلق کو بگاڑنا ہوگا۔ ہمارے سفارکاروں کی کئی سال کی محنت غارت جائے گی، جو انہوں نے انڈین لابی کو شکست دے کر سپیشل سٹیٹس حاصل کیا تھا۔ اسی طرح ہماری انڈسٹری بری طرح متاثر ہوگی، عین ممکن ہے کہ یورپی یونین ہمارے تاجروں، طلباء اور دیگر شعبوں پر پابندیاں عائد کر دے۔ اس وقت خود پاکستان کے مدارس کو بڑی تعداد میں ڈونیشن دینے والوں کا تعلق یورپی ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے ٹویٹر پر سول وار ان پاکستان کا ٹرینڈ دیکھا تو میں حیران رہ گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ بات درست ہے کہ ان دنوں ملک میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ رہا، مگر کسی بھی طرح سے سول وار والی بات کہاں؟ یہ بات تو مظاہرہ کرنے والوں نے سوچی بھی نہیں ہوگی مگر دنیا کے میڈیا میں یہ بات رپورٹ ہوئی۔ تحریک طالبان پاکستان نامی گروہ نے پولیس اور دیگر ریاستی اداروں سے ٹکراو پر تحریک لبیک کی تحسین کی، جسے تحریک کی قیادت نے یکسر مسترد کر دیا۔ ابھی تک جو رپورٹس سامنے آرہی ہیں، اس احتجاج کو انڈیا نے ہوا دی اور چار لاکھ کے قریب ٹویٹس انڈیا سے کی گئیں، جن کا تعلق سول وار سے تھا۔

بطور پاکستانی مسلمان ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ وہ کونسی قوت ہے، جو ایسے وقت میں جب ہمارے بہت سے ریاستی مفادات داو پر لگے ہیں، ریاست اور محبت وطن قوتوں کو باہم دست و گریبان کرنا چاہتی ہے؟ روس اور چین کے پاکستان سے بہتر تعلقات سے انڈیا اور امریکہ کو تکلیف پہنچ رہی ہے، وہ پاکستان کا عدم استحکام چاہتے ہیں۔ اسی طرح ایف اے ٹی ایف سے لے کر یورپی یونین تک تعلقات کے معاملات کو بگاڑنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا، تحریک کی قیادت کو جذبات کی بجائے حکمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ریاست پاکستان ہماری اپنی ریاست ہے، اس کا مفاد ہمیں جان سے عزیز ہے، اسے مقدم رکھنا ہوگا۔ گستاخی پر باہمی مشاورت سے ملکر چلنا ہوگا کہ ہمارا بھرپور ردعمل بھی جائے اور ہمارے مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔
خبر کا کوڈ : 928562
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش