QR CodeQR Code

ام المومنین حضرت خدیجہ (س) کے بعض فضایل و مناقب شیعہ و سنی کتب کی روشنی میں 

23 Apr 2021 09:33

اسلام ٹائمز: تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ پیغمبر اکرم (ص) پر ایمان لائیں۔ *ابن عباس سے نقل ہے کہ سب سے پہلے پیغمبر اکرم (ص) پر ایمان لانے والے علی علیہ السلام تھے اور عورتوں میں سے حضرت خدیجہ تھیں۔* (فضایل امیرالمومنین،21؛ کنزالفوائد 1/256؛ الامالی(طوسی)259) مسعودی اور فتال نیشاپوری کی روایت کے مطابق پہلی وحی کے بعد علی (ع) نے پیغمبر کیساتھ نماز ادا کی اور جب گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ نے نماز عصر پیغمبر کے ساتھ پڑھی۔ (اثبات الوصیۃ، 116؛ روضۃ الواعظین 1/52) خود امام علی علیہ السلام اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ: لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ (ص) سَبْعَ حِجَجٍ مَا يُصَلِّي مَعَهُ غَيْرِي إِلَّا خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ۔۔۔(کنزالفوائد1/272) خود پیغمبر نے حضرت فاطمہ (س) سے فرمایا: خداوند متعال اور مجھ پر پہلے ایمان لانے والے علی اور آپکی والدہ خدیجہ تھیں۔


تحریر: تصور عباس خان
البینات ریسرچ انسٹیٹیوٹ

ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی رحلت دہم ماہ مبارک رمضان بعثت کے دسویں سال ہوئی اور اسی سال حضرت ابو طالب علیہ السلام کی بھی وفات ہوئی اور اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا اور مورخین کے مطابق ان شخصیات کے بعد مکہ میں گزارے گئے تین سال پیغمبر (ص) کی زندگی کے سخت ترین دن تھے۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا ایک کامل، باشخصیت، آبرومند اور قریش کی خواتین میں سے شریف ترین، امیر ترین اور خوبصورت ترین خاتون تھیں۔ اس دور جاہلیت میں جہاں انسان اخلاقی پستیوں کو چھو رہا تھا، حضرت خدیجہ (س) کا "طاہرہ" اور "سیدہ قریش" کا لقب پانا اور پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سے انہیں صدیقہ کا لقب عطا ہونا، ام المومنین کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے*  ۔(قرب الاسناد: 325؛ تاریخ طبری، 2/281؛ الاستیعاب 4/1817؛ دلایل النبوة2/ 67؛ البدایة والنهایة 2/62)

پیغمبر اکرم کا شام کی طرف سفر اور واپسی پر میسرہ غلام کا پیغمبر اکرم کی عظمت، برکت، اخلاق اور پسندیدہ صفات کا تذکرہ اور راستے میں ہوئے واقعات کے بیان نے حضرت خدیجہ کے دل میں پیغمبر اکرم (ص) کی محبت پیدا کر دی اور اس طرح خداوند متعال کے لطف و کرم سے آپ نے ام المومنین کا لقب بھی پا لیا اور کائنات کی افضل ترین خواتین میں آپ کا شمار ہوا۔ خود ام المومنین نے پیغمبر اکرم سے کہا: اے محمد! میں آپ سے آپ کی رشتہ داری، آپ کی اپنی قوم میں شرافت اور بزرگواری، امانت داری، اچھا اخلاق اور صداقت کی وجہ سے محبت کرتی ہوں۔ (سیرت رسول:1/166؛ شرح الاخبار3/19؛ قرب الاسناد 324؛ الانوار:224؛ اسدالغابه: 1/23؛ البدایة والنهایة: 2/294؛ تاریخ طبری2/281)

حضرت خدیجہ کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر پیغمبر اکرم تبلیغ یا عبادت کے لیے باہر جاتے تو ان کے واپس آنے تک آپ چین سے نہ بیٹھتیں اور ابن حجر عسقلانی کی روایت کے مطابق اگر پیغمبر کے واپس آنے میں زیادہ دیر ہو جاتی تو باہر پہاڑوں میں ان کو ڈھونڈنے نکل پڑتیں (الاصابہ:8/102) یا حضرت ابو طالب  سے پیغمبر اکرم کے بارے خبر لانے کا کہتیں (الھدایۃ الکبری، 65)۔ رسول اکرم بھی آپ سے بے حد محبت کرتے تھے اور جب تک حضرت خدیجہ زندہ رہیں، ان کے احترام کی خاطر دوسری شادی نہیں کی اور اپنی جوانی کے بہترین ایام حضرت خدیجہ کے لیے مختص کر دیئے۔ (الکافی،5/391؛ صحیح مسلم، 4/1889؛ الاستیعاب1/39؛ اسدالغابہ3/129 )

آپ کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ پیغمبر اکرم کسی نہ کسی بہانے سے آپ کو یاد کرتے، حتی بعض امھات المومنین کو یہ ناگوار بھی گزرتا۔ ایک دن پیغمبر نے حضرت خدیجہ کا ذکر کیا تو حضرت عائشہ نے کہا کہ اس عورت (خدیجہ) سے بہتر آپ کو خدا نے عطا کیا ہے تو پیغمبر اکرم بہت زیادہ غضبناک ہوئے اور فرمایا: نہیں خداوند متعال کی طرف سے ان سے بہتر بدل عطا نہیں ہوا، وہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں، جب تم نے مجھے دیکھا بھی نہیں تھا اور تمہارے ایمان لانے سے پہلے ایمان لائیں اور مجھے اولاد دی، جو تم نہیں دے سکیں* (شرح الاخبار، 3/22 )۔ رسول خدا کے نزدیک آپ کے مقام و مرتبہ کے لیے بخاری کی یہ روایت ہی کافی ہے کہ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ پیغمبر کی بیویوں میں سے سب سے زیادہ مجھے غیرت حضرت خدیجہ پر آتی تھی، اگرچہ میں نے اسے نہیں دیکھا تھا، لیکن پیغمبر اکرم ان کا بہت زیادہ ذکر کرتے۔۔۔ کبھی کبھی میں پیغمبر اکرم (ص) سے کہتی کہ ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں خدیجہ کے علاوہ کوئی عورت ہی نہیں ہے تو پیغمبر فرماتے: خدیجہ خدیجہ تھیں(یعنی ان جیسا کوئی نہیں) اور میری اولاد انہیں سے ہے* (صحیح بخاری،5/38)

پیغمبر اکرم نے ہمیشہ حضرت خدیجہ کو یاد رکھا، کبھی ان کا ذکر کرکے؛ کبھی ان کی سہیلیوں سے محبت اور نرمی سے پیش آکر اور کبھی ان کے گھر گوشت بھیج کر حضرت خدیجہ کی منزلت بیان کرتے رہے۔ آپ نہ صرف پیغمبر اکرم سے محبت کرتیں تھیں بلکہ خدا اور ان کے رسول پر پختہ ایمان اور ان کی اطاعت کو واجب سمجھتی تھیں۔ ابن کثیر سے نقل سھیلی کا یہ تاریخی جملہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ کہا: آپ نے کبھی بھی نہ پیغمبر کی مخالفت کی، نہ کوئی تکلیف دی اور نہ ہی کبھی اپنی آواز کو ان کے سامنے اونچا کیا*(اللہ اکبر) (البدایہ والنھایہ3/127)۔ فریقین کے محدثین اور مورخین کے مطابق حضرت خدیجہ کائنات کی چار افضل خواتین میں سے ایک ہیں۔

علی بن ہاشم کی روایت کے مطابق اہل بیت (ع) ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ کائنات کی افضل خواتین چار ہیں: آسیہ، مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد (ص) (شرح الاخبار، 3/64.) اور ابن عباس سے بھی مختلف سلسلہ اسناد کے ساتھ یہ نقل ہوا ہے (الخصال 1/205و 206؛ الاستیعاب،4/1822)۔ ثعلبی نے سورہ آل عمران کی آیت 36 کے ذیل میں ترمذی سے صحیح السند روایت کو ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ: کائنات کی چار افضل خواتین ہیں۔ مریم، آسیہ، خدیجہ اور فاطمہ (تفسیر الکشف والبیان، 3/55، ترمذی نے اسے صحیح السند قرار دیا ہے۔ صحیح ترمذی،5/703؛ عمدۃ عیون صحاح الاخبار 390و 391؛ البدایہ والنھایہ 2/34.)

 قرآن حضرت آسیہ کی زبانی نقل کرتا ہے کہ آپ نے جنت میں گھر کی آرزو کی، لیکن حضرت خدیجہ وہ ہستی ہیں کہ جنہیں ان کی زندگی میں یہ بشارت دی گئی۔ شیعہ کتب کے علاوہ صحاح ستہ میں تواتر کے ساتھ مختلف روایات میں یہ بیان کیا گیا ہے۔ رسول خدا نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھ سے کہا: خدیجہ کو اس گھر کی بشارت دو جو جنت میں ان کے لیے تیار کیا گیا ہے، جس میں نہ غم و حزن ہوگا اور نہ کسی چیز کا ملال* (شرح الاخبار، 3/17)  صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے نقل ہے کہ: وَأَمَرَهُ رَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ فِي الجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ۔۔۔ خداوند متعال نے پیامبر اکرم کو حکم دیا کہ حضرت خدیجہ کو جنت میں گھر کی بشارت دیں*(صحیح بخاری، 5/38؛ صحیح مسلم، 4/1888؛ امتاع الاسماع 2/226؛ عمدۃ عیون،393 )

بخاری اور مسلم، اسماعیل بن ابی خالد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی سے پوچھا کہ کیا پیغمبر اکرم (ص) نے یہ بشارت حضرت خدیجہ کو دی تو کہا: ہاں انہیں جنت میں اس گھر کی بشارت دی گئی۔(صحیح مسلم4 /1887؛ صحیح بخاري ،5/38.) نہ صرف بشارت دی گئی بلکہ امام صادق (ع) اور امام باقر (ع) سے نقل روایات اور فتال نیشاپوری کی روایت کے مطابق جب حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ زہراء اپنی ماں کے لیے رو رہی تھیں تو جبرائیل آئے اور فرمایا: یا رسول اللہ فاطمہ (س) سے کہہ دیجیئے کہ آپ کی والدہ ماجدہ جنت میں اس گھر میں ہیں، جو حضرت آسیہ اور مریم بنت عمران کے گھر کے درمیان ہے (اور وہ وہاں ہیں)۔ (شرح الاخبار،3/17؛ الامالی(طوسی) 175؛ روضۃ الواعظین1/ 74)

حضرت خدیجہ و السابقون السابقون کی روشن اور واضح مصداق ہیں اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ پیغمبر اکرم (ص) پر ایمان لائیں۔ *ابن عباس سے نقل ہے کہ سب سے پہلے پیغمبر اکرم (ص) پر ایمان لانے والے علی علیہ السلام تھے اور عورتوں میں سے حضرت خدیجہ تھیں۔* (فضایل امیرالمومنین،21؛ کنزالفوائد 1/256؛ الامالی(طوسی)259) مسعودی اور فتال نیشاپوری کی روایت کے مطابق پہلی وحی کے بعد علی (ع) نے پیغمبر کے ساتھ نماز ادا کی اور جب گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ نے نماز عصر پیغمبر کے ساتھ پڑھی۔ (اثبات الوصیۃ، 116؛ روضۃ الواعظین 1/52) خود امام علی علیہ السلام اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ: لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ (ص) سَبْعَ حِجَجٍ مَا يُصَلِّي مَعَهُ غَيْرِي إِلَّا خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ۔۔۔(کنزالفوائد1/272) خود پیغمبر نے حضرت فاطمہ (س) سے فرمایا: خداوند متعال اور مجھ پر پہلے ایمان لانے والے علی اور آپ کی والدہ خدیجہ تھیں۔ ابن حیون سے نقل نسائی کی روایت کے مطابق علی (ع) اور خدیجہ رسول کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور اس وقت کوئی بھی ان کے علاوہ ایمان نہیں لایا تھا۔ (شرح الاخبار1/ 452) ) دہم ماہ مبارک رمضان وفات ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصادر:
1: القرآن الکریم
2: ابن اثیر، عز الدين بن الأثير أبو الحسن على بن محمد الجزرى، أسد الغابة فى معرفة الصحابة، بيروت، دار الفكر، 1409/1989.
3: ابن بابويه، محمد بن على، الخصال- قم، چاپ: اول، 1362ش.
4: ابن بطريق، يحيى بن حسن، عمدة عيون صحاح الأخبار في مناقب إمام الأبرار - قم، چاپ: اول، 1407 ق.
5: ابن حجر، أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد، الإصابة في تمييز الصحابة، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلى محمد معوض، الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت،1415 هـ۔
6: ابن حيون، نعمان بن محمد مغربى، شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار عليهم السلام - قم، چاپ: اول، 1409 ق.
7: ابن عبدالبر، أبو عمر يوسف بن عبدالله بن محمد بن عبد البر، الاستيعاب فى معرفة الأصحاب، تحقيق على محمد البجاوى، بيروت، دار الجيل، ط الأولى، 1412/1992.ُُُُّّّّ
8: ابن عقده كوفى، احمد بن محمد، فضائل أمير المؤمنين عليه السلام - ايران؛ قم، چاپ: اول، 1424 ق.
9: ابن کثیر، أبو الفداء اسماعيل بن عمر بن كثير الدمشقى، البداية و النهاية، بيروت، دار الفكر، 1407/ 1986.
10: ابن كثير دمشقى, اسماعيل بن عمرو, تفسير القرآن العظيم دار الكتب العلمية، منشورات محمد على بيضون بيروت 1419 ق
11: بكرى، احمد بن عبد الله، الأنوار في مولد النبيّ صلى الله عليه و آله - قم، چاپ: اول، 1411 ق.
12: بلاذری، أحمد بن يحيى بن جابر البلاذرى، جمل من انساب الأشراف، تحقيق سهيل زكار و رياض زركلى، بيروت، دار الفكر، ط الأولى، 1417/1996.
13: بخاری، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري، صحیح البخاری، المحقق: محمد زهير بن ناصر الناصر، دار طوق النجاة،1422هـ۔
14: بیھقی، ابو بكر احمد بن الحسين البيهقى، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، تحقيق عبد المعطى قلعجى، بيروت، دار الكتب العلمية، ط الأولى، 1405/1985.
15: ثعلبى نيشابورى، ابو اسحاق احمد بن ابراهيم، الكشف و البيان عن تفسير القرآن، دار إحياء التراث العربي، بيروت، 1422 ق‏
16: ترمذی، محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى الترمذي، أبو عيسى، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر، الطبعة: الثانية، 1395 هـ - 1975 م
17: خصيبى، حسين بن حمدان، الهداية الكبرى - بيروت، 1419 ق.
18: طبری، أبو جعفر محمد بن جرير الطبري، تاريخ الأمم و الملوك، تحقيق محمد أبو الفضل ابراهيم، بيروت، دار التراث، ط الثانية، 1387/1967.
19: طوسى، محمد بن الحسن، الأمالي (للطوسي) - قم، چاپ: اول، 1414ق.
20: عياشى، محمد بن مسعود، تفسير العيّاشي - تهران، چاپ: اول، 1380 ق.
21: فتال نيشابورى، محمد بن احمد، روضة الواعظين و بصيرة المتعظين (ط - القديمة) - ايران؛ قم، چاپ: اول، 1375 ش.
22: قاضى ابرقوه‏، رفيع الدين اسحاق بن محمد همدانى قاضى ابرقوه، سيرت رسول الله‏، تحقيق اصغر مهدوى، تهران، خوارزمى، چ سوم، 1377ش.
23: كراجكى، محمد بن على، كنز الفوائد - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1410 ق.
24: كفعمى، ابراهيم بن على عاملى، البلد الأمين و الدرع الحصين - بيروت، چاپ: اول، 1418 ق.
25: كلينى، محمد بن يعقوب، الكافي (ط - الإسلامية) - تهران، چاپ: چهارم، 1407 ق.
26: مسعودى، على بن حسين، اثبات الوصية - ايران ؛ قم، چاپ: سوم، 1384 / 1426.
27: مسلم، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي، دار إحياء التراث العربي،بی تا، بيروت
28: مقریزی، تقى الدين أحمد بن على المقريزى، إمتاع الأسماع بما للنبى من الأحوال و الأموال و الحفدة و المتاع،)، تحقيق محمد عبد الحميد النميسى، بيروت، دار الكتب العلمية، ط الأولى، 1420/1999.
29: ميرى، عبد الله بن جعفر، قرب الإسناد (ط - الحديثة) - قم، چاپ: اول، 1413 ق.


خبر کا کوڈ: 928775

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/928775/ام-المومنین-حضرت-خدیجہ-س-کے-بعض-فضایل-مناقب-شیعہ-سنی-کتب-کی-روشنی-میں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org