1
Monday 26 Apr 2021 16:30

زندگی زیبا است اما شہادت زیبا ترین

زندگی زیبا است اما شہادت زیبا ترین
تحریر: سویرا بتول

زندگی ایک فانی شے ہے اور اِس کا سفر پانی کے سینے پر تیرنے والے بلبلے کی طرح ہے جسے ہر حال میں فنا ہونا ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہر جسم نے موت کا مزہ چکھنا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ انسان سیاہ موت پر سرخ موت کو ترجیح دے۔ فلسفہ شہادت ہے کیا اور انسان اپنی زندگی میں شہادت کی آرزو کیوں کرے؟ آئیں کلامِ الہیٰ اور فرامینِ محمدﷺ و آلِ محمد کے ذریعے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ *شہادت* خدا کا ایک منفرد انعام ہے، جو خدا کے محبوب لوگوں کو عطا ہوتا ہے۔ جن کے بارے میں خدا خود فرماتا ہے کہ "خدا مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا" (سورة آلِ عمران ١٧٠)۔ قرآن مجید کی روشنی میں جب واضح ہوتا ہے کہ شہادت خدا کا انعام ہے اور ہمیشہ انعام اسے دیا جاتا ہے، جس کی کارکردگی بہتر ہو اور انعام دینے والا اُس سے راضی ہو۔

شاید یہی وجہ ہے کہ امام المتقین علیؑ ابنِ ابی طالب نے بوقتِ شب ِضربت بلند آواز میں یقین سے فرمایا *فزت برب کعبہ*(رب کعبہ کی قسم میں علیؑ کامیاب ہوگیا) حالانکہ آپؑ نے بڑے بڑے معرکے سر کئے۔ جنگِ خندق میں عمر بن عبدود پر آپؑ کی ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ٹھہری۔۔ آپؑ نے حالتِ رکوع میں زکواة دی اور قرآن کی آیت نازل ہوئی۔۔ آپؑ کے گھرانہ پر درود نازل ہوا، شبِ ہجرت بستر رسول ﷺ پر سو کر تمام رضائیں خرید لیں، مگر کہیں بھی اپنی کامیابی کا نعرہ بلند نہیں کیا، مگر جیسے ہی شہادت کا انعام حاصل ہوا *فزت برب کعبہ* کا نعرہ بے اختیار لبوں سے چھلک پڑا۔ گویا وصی رسول، شوہرِ بتول نجانے کب سے لقائے الہیٰ کا جام پینے کے مشتاق تھے۔

شہید کا رتبہ
حدیث نبوی ہے کہ شہید کی سات صفات ہیں۔
١۔ جب اُس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے، خدا اُس کے بدلے اُس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے۔
٢۔ شہید کا سر زمین پر نہیں لگتا بلکہ وہ حوروں کی گود میں گرتا ہے۔
٣۔ اُسے فوراً جنت کی ہوشاک پہنا دی جاتی ہے۔
٤۔ اسے جنت میں مخصوص رہائش گاہ دکھائی جاتی ہے۔
٥۔ اُس کی نظروں کے سامنے جنت کے تمام پھول لائے جاتے ہین، جنہیں وہ پسند کرتا ہے، اُس کی رہائش گاہ پر لگا دیئے جاتے ہیں۔
٦۔ اُس کی روح کو جنت میں گھومنے پھرنے کی عام اجازت ہوتی ہے۔
٧۔ شہید کا خدا سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔
فرمانِ معصومؑ  ہے کہ شہید پر جب تلوار، تیر یا خنجر چلتا تو اُس کے گرد خدا کے نور کی چادر پھیل جاتی ہے اور اُس نور میں اس قدر مخمور ہو جاتا ہے کہ اسے اپنے جسم کے کٹنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔

شہید کی خدا سے قربت
فرمان معصوم ہے " شہید کی روح کو فرشتے جنت کے پہلے درجے میں لے جاتے ہیں تو اسے قرار نہیں آتا۔ پھر ملائکہ اسے دوسرے درجے میں لے جاتے ہیں، وہاں بھی اُس کی روح بے قرار رہتی ہے۔ یہاں تک کہ جنت کے آخری درجہ میں بھی روح کو تسکین نہیں پہنچتی۔۔ آخرکار فرشتے اسے جنت کے مدارج کے خاتمے کے بعد اس سے آگے *لقاء اللہ* میں لے جاتے ہیں، جہاں اُس کی بے قراری کو قرار آ جاتا ہے۔

شہید کا اعزاز
شہید کو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ قبر میں اُس کی آزمائش نہیں ہوتی، یعنی اُسے قبر و برزخ کے سوال و جواب کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ حدیث نبوی ہے کہ شہید کے سر پر تلور کی چمک سے اس کی آزمائش ہوچکی ہوتی ہے اور وہ پہلے ہی سوالوں کا جواب دے چکا ہوتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شہید علمی طور پر اپنے ایمان کی صداقت ثابت کرچکا ہوتا ہے، اس لیے عالم برزخ میں اِس سے مزید سوال پوچھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

شہید کی شفاعت
بروز حشر تین قسم کے لوگ شفاعت کا حق رکھتے ہیں۔ انبیاء کرام، علماء اور شہداء۔ شہداء کو شفاعت کا حق اس لیے حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی مظلوموں، محروموں اور بے کسوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قربان کی اور ہمشہ ان کی مدد کے لیے کمر بستہ رہے، اس لیے شہداء بروز حشر شفاعت کا حق رکھتے ہیں۔ حدیثِ پیغمبرِ اسلامﷺ ہے: *من مات علی حب آلِ محمد مات شہیدا* "جو کوئی محبتِ آل محمد میں مرا شہید مرا"

وہ مکتب جو شہادت کا مکتب تھا، آج اُسے ہم نے چند رسومات تک محدود کر دیا ہے۔ ہم میں سے اکثر شہادت اور عام موت کے درمیان فرق کو محسوس نہیں کر پاتے۔ ذاتی مشاہدے میں ایسی بہت ساری شخصیات دیکھنے کو ملی ہیں کہ جن کے سامنے شہادت کا ذکر کیا گیا تو طرح طرح کی باتیں سننے کو ملیں۔ چونکہ ہمارے معاشرے بالخصوص پاکستان میں شہید کی منزلت کا ادراک کم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہم شہادت پرور قوم ہیں مگر افسوس ہم اپنے مقام و منزکت سے آگاہ نہیں۔ اس دھرتی نے ایسے ایسے شہید پیدا کیے ہیں کہ اگر اُن کے زندگی نامے منظر عام پر لائے جائیں تو ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے والا ہر جوان اپنے فرائض کو احسن طریقے سے انجام دے۔ شہادت ہماری میراث ہے جو نسل در نسل ہم تک منتقل ہوئی ہے۔

اس ماہِ صیام میں ہمارے لبوں پر رمضان مبارک میں پڑھی جانے ولی دعاؤں کا یہ ورد رواں رہنا چاہیئے: *الھم برحمتک فی الصالحین فادخلنا و فی علیین فارفعنا و قتلا فی سبیلک مع و لیک فوفق لنا* "اے پرودگار ہمیں توفیق دے کہ ہم تیری راہ میں اور تیرے ولیؑ کے ہمراہ قتل ہو جائیں اور شہادت کی سعادت سے ہمکنار ہوں۔" جب موت کا تقرر اور زندگی کا فنا ہونا لاریب ہے تو پھر انسان کو چاہیئے کہ وہ سورة جمعہ کی آیت 6 کا مصداق بنے کہ "موت کی تمنا کرو، تاکہ تم اپنے دعویٰ میں سچے ثابت ہو سکو" البتہ کوشش ہونی چاہیئے کہ عارضی زندگی سعادت کے طور پر بسر ہو اور ابدی سفر شہادت کے دوش پر طے ہو، کیونکہ شہادت خدا کا بہت بڑا انعام ہے۔
خبر کا کوڈ : 929357
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش