1
Monday 26 Apr 2021 22:45

جو بائیڈن کی ترکی کے خلاف نئی محاذ آرائی

جو بائیڈن کی ترکی کے خلاف نئی محاذ آرائی
تحریر: سید رحیم نعمتی
 
ہفتے کے دن امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بیانیہ جاری کرتے ہوئے 1915ء میں سلطنت عثمانیہ کی جانب سے ارمنیوں کے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے اسے "نسل کشی" کا واضح مصداق قرار دیا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی امریکی صدر نے سرکاری طور پر اس واقعہ کو نسل کشی قرار دیا ہو۔ دوسری طرف سے ترکی کا ردعمل سامنے آنا ایک فطری عمل تھا لہذا ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے جو بائیڈن کا نام لئے بغیر کہا کہ بعض افراد ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ اسی طرح ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاووش اوگلو نے کہا کہ الفاظ تاریخ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے امریکی صدر کے بیان کو "سیاسی موقع پرستی" اور "پاپولرازم" قرار دیا۔
 
ترکی کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان کی شدید مذمت کی گئی ہے اور دعوی کیا گیا ہے کہ "بائیڈن کا اظہار خیال علمی اور قانونی لحاظ سے بے بنیاد ہے۔" اسی طرح ترکی کی وزارت خارجہ نے امریکی سفیر کو بلا کر شدید اعتراض بھی کیا۔ یوں جو بائیڈن نے اپنے اس بیان کے ذریعے امریکہ اور ترکی کے تعلقات میں تناو کی ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پہلے سے تناو کا شکار تھے لیکن تناو کی یہ نئی لہر جدید رخ اختیار کر سکتی ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات پر نئے اثرات ڈالنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی صدر کا یہ بیان ترک حکام کیلئے غیر متوقع نہیں تھا۔
 
امریکی صدر کا یہ بیان سامنے آنے سے ایک دن پہلے دونوں ممالک کے حکام کے درمیان تین سطح پر رابطہ قائم کیا گیا تھا۔ جو بائیڈن کی رجب طیب اردگان سے، امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلینکن کا ترک وزیر خارجہ چاووش اوگلو سے اور امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جک سیلیوان کا ترک صدر کے ترجمان ابراہیم کالین سے ٹیلی فونک بات چیت ہوئی۔ لہذا ترک حکام امریکی صدر کے بیان کی تفصیلات سے آگاہ ہو چکے تھے۔ دوسری طرف جو بائیڈن نے اپنی الیکشن مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ جیت کی صورت میں 24 اپریل 2021ء کے دن ایک بیان جاری کریں گے جس میں ارمنیوں کے قتل عام کو سرکاری طور پر نسل کشی قرار دیں گے۔
 
یاد رہے اکتوبر 2019ء میں امریکہ کے ایوان نمائندگان میں 405 حامی ووٹوں اور محض 11 مخالف ووٹوں سے سلطنت عثمانیہ کے دور میں ارمنیوں کے قتل عام کو "نسل کشی" قرار دے دیا گیا تھا۔ اس وقت بھی ترک حکام نے امریکی کانگریس کے اس اقدام کو قانونی لحاظ سے بے اہمیت قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کا مقصد صرف اندرونی سطح پر سیاسی مفادات کا حصول ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ترک حکام امریکی صدر کے حالیہ بیان کے بارے میں بھی یہی سوچ رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں جو بائیڈن کا یہ بیان کانگریس کی اس لابی کو خوش کرنے اور الیکشن مہم کے دوران اپنے وعدے پر عمل پیرا ہونے کی خاطر دیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ اس قدر محدود بھی نہیں جتنا ترک حکام تصور کر رہے ہیں۔
 
دراصل تمام امریکی صدور کچھ حد تک امریکہ میں مقیم ارمنیوں کی لابی کے دباو میں رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سابقہ امریکی صدور کی کوشش رہی ہے کہ وہ سلطنت عثمانیہ دور میں ارمنیوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دینے سے باز رہیں۔ مثال کے طور پر براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اس واقعہ کی سالگرہ کے موقع پر اسے "عظیم سانحہ" کہا تھا اور ان کا یہ عمل امریکہ میں مقیم ارمنیوں کی لابی کو ناگوار بھی گزرا تھا۔ ماضی میں صرف رونلڈ ریگن ایسے امریکی صدر تھے جنہوں نے 22 اپریل 1891ء کے دن ہولوکاسٹ میوزیم افتتاح کرتے وقت اس واقعے کے بارے میں نسل کشی کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ لیکن ان کے بیانیے کی سطح ایسی نہیں تھی جو اس وقت جو بائیڈن کے بیانیے کی تھی۔
 
جو بائیڈن کا حالیہ بیانیہ صرف ارمنیوں کے قتل عام کے بارے میں جاری ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی بیانیے میں نہ صرف دو بار اس واقعے کیلئے نسل کشی کا لفظ استعمال کیا ہے بلکہ "استنبول" کی جگہ "قسطنطنیہ" کا لفظ استعمال کیا جو روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر ہے۔ یوں یہ بیانیہ بائیڈن حکومت کی جانب سے ارمنیوں کے قتل عام سے متعلق واقعہ کی مین پالیسی کی عکاسی کر رہا ہے۔ اس سے پہلے فرانس نے 2001ء میں ارمنیوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیا تھا اور اس کے بعد 2016ء میں جرمنی کی پارلیمنٹ نے بھی فرانس کی پیروی کرتے ہوئے اسے نسل کشی قرار دے دیا تھا۔ اب امریکی صدر کے بیان کے بعد عالمی سطح پر ترکی کے خلاف ایک نیا محاذ پیدا ہو جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 929383
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش