0
Tuesday 27 Apr 2021 01:26

افغانستان سے امریکی انخلاء نہیں موجودگی خطرناک ہے

افغانستان سے امریکی انخلاء نہیں موجودگی خطرناک ہے
تحریر: سید اسد عباس

امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کیتھ ایف میکنزی نے افغانستان میں القاعدہ اور داعش کے دوبارہ فعال ہو جانے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خطے کے ملکوں اور خاص طور پر پاکستان کے لیے شدید تشویش کی بات ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء پر چند دن قبل امریکی وزارتِ دفاع میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ القاعدہ اور داعش کا افغانستان میں دوبارہ فعال ہو جانے کا امکان، وسطی ایشیائی ریاستوں اور ایران کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔ جنرل میکنزی نے کہا کہ افغانستان میں استحکام خطے کے تمام ملکوں کے مفاد میں ہے۔ جنرل میکنزی نے کہا کہ ان کے خیال میں امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد اگر دباؤ برقرار نہ رکھا گیا تو القاعدہ اور دولت اسلامیہ افغانستان میں دوبارہ منظم ہوسکتی ہیں۔

جنرل میکنزی نے کہا کہ یہ دباؤ افغان حکومت کی طرف سے ڈالا جا سکتا ہے، لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں افغان حکومت کے خدوخال کیا ہوں گے۔ سینٹرل کمانڈر کے سربراہ نے مزید کہا کہ طالبان نے بھی یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان تنظیموں کو افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر طالبان مستقبل میں افغان حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں تو وہ اپنے وعدے کی پاسداری کریں گے۔ ابھی ہم یہ نہیں جانتے کہ افغان حکومت کی شکل کیا ہوگی، کیونکہ طالبان نے افغانستان کے امن مذاکرات میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور یہ مذاکرات عارضی طور پر تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔

پریس کانفرنس کے دوران برطانوی خبر رساں ادارے کے نمائندے نے جنرل میکنزی کے گذشتہ بیان کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ کا فی الوقت افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ فوجی اڈوں کے بارے میں کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ جنرل میکنزی نے کہا کہ میرے خیال میں آپ تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور قزاقستان کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام ملکوں کے ساتھ اس نوعیت کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں میں روس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکہ کے لیے اڈے حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ ساتھ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ اس وقت امریکہ نے روس پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ علاوہ ازین یوکرین کے مسئلہ پر بھی دونوں ملکوں کے تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔

اڈوں کے تناظر میں جنرل میکنزی نے خلیجی ملکوں کا ذکر کیا اور کہا کہ امریکہ کو اپنے خلیجی "پارٹنرز" سے فضائی حدودوں کو استعمال کرنے اور اڈوں کی بہتریں سہولت حاصل ہے، تاہم انھوں نے کہا کہ افغانستان کافی دور پڑتا ہے۔ جنرل میکنزی نے کہا کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مختلف تجاویز پر غور ہو رہا ہے۔ افغانستان سے امریکی اور نیٹو ممالک کی افواج کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کی افواج ایک معاہدے کے تحت ایک ساتھ افغانستان میں داخل ہوئی تھیں اور ایک ساتھ ہی نکلیں گی۔

امریکی فوج کے انخلا کی مجوزہ تاریخ رواں برس کے ستمبر کے مہینے تک متوقع ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بائیڈن نے خلیجی ممالک سے بھی اپنے فوجی اثاثہ جات کے انخلاء کا اعلان کیا ہے، ساتھ ساتھ یمن جنگ میں سعودیہ کی حمایت کے خاتمے کا بھی اعلان کیا ہے۔ جس پر مبصرین کی رائے ہے کہ بائیڈن حکومت نے نیٹو نیز اپنے اتحادیوں کو پیغام دیا ہے کہ اب یہ خطہ ہماری ترجیح نہیں رہا۔ بعض کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتخابات میں کیے گئے اپنے وعدوں پر عمل کر رہے ہیں، لیکن میرے خیال میں کسی بھی ملک کے لیے اتنی بڑی تعداد میں افواج کو کسی دوسرے ملک میں تعینات رکھنا آسان کام نہیں ہے۔

الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق  گذشتہ برس کرونا جیسی وبا کے باوجود عالمی سطح پر فوجی اخراجات کا تخمینہ 2 ٹریلین امریکی ڈالر ہے، جس میں امریکہ سب سے زیادہ خرچ کرنے والا ملک ہے۔ ممکن ہے کہ امریکا سعودیہ اور عرب اتحادیوں کو یہ پیغام دینے جارہا ہو کہ اگر وہ اپنے دفاع کے لیے امریکی افواج کو خطے میں رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں مزید خرچ کرنا ہوگا۔ بہرحال جہاں تک افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء اور وہاں داعش اور القاعدہ کے دوبارہ فعال ہونے کا تعلق ہے تو امریکہ یا تو دنیا کو اب بھی 2011ء جتنا لاعلم سمجھتا ہے یا خود اب تک اس فکری حالت سے باہر نہیں نکل پایا۔ آج دنیا جانتی ہے کہ شام میں داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کو تربیت نیز امداد فراہم کرنے والے امریکہ اور اس کے اتحادی تھے۔

اب بھی شام کے علاقے التنف میں امریکی فوجی چھاؤنی شدت پسند، حکومت مخالف باغیوں کی آماجگاہ ہے۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ شام سے داعش اور شدت پسند گروہوں کا خاتمہ امریکہ نے نہیں بلکہ روس نے کیا اور یہ کام روس نے فقط تین ماہ کی مختصر مدت میں انجام دیا۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ شام سے داعش کے بھگوڑوں کو اڑا کر افغانستان لایا گیا اور تورا بورا میں ان کو محفوظ پناہ گاہ مہیا کی گئی، جس کا اظہار افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی کیا۔ ایسی صورتحال میں امریکی جنرل کا یہ کہنا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان کے لیے داعش اور القاعدہ کا خطرہ بڑھ جائے گا، ایک اطلاع سے زیادہ دھمکی تصور کیا جانا چاہیئے۔

بہرحال امریکہ کو اب یہ اچھی طرح سے علم ہوچکا ہے کہ روس، چین اور ایران کی عالمی فعالیت کے سبب امریکہ کا افغانستان میں رہنا آسان نہیں رہا۔ امریکہ یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ خطے کی طاقتیں افغانستان کے مسئلے کو ضرور حل کریں گی، کیونکہ جنگ زدہ افغانستان ان میں سے کسی کے فائدے میں نہیں ہے۔ امریکی جنرل کا یہ اظہار ایسا ہی ہے، جیسے کوئی ناپسندیدہ مہمان گھر سے نکلتے نکلتے اہل خانہ میں سے کسی ایک سے کہہ رہا ہو کہ اگر مجھے بھیج دیا تو گھر میں مکھیاں کون مارے گا۔ میرا خیال ہے کہ اب مناسب وقت ہے کہ امریکہ کو عزت سے رخصت کیا جائے اور وہ کام جو امریکہ گذشہ کئی دہائیوں میں انجام دینے کی ایکٹنگ کرتا رہا ہے، اس کو واقعی انجام دے دیا جائے، تاکہ یہ خطہ بالعموم اور افغانستان کے عوام بالخصوص امن و سکون کا سانس لے سکیں۔
خبر کا کوڈ : 929441
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش