0
Tuesday 27 Apr 2021 08:23

مقاومت کی فوجی برتری اور صہیونی غم و غصہ

مقاومت کی فوجی برتری اور صہیونی غم و غصہ
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

غاصب اسرائیل کو گذشتہ ہفتہ دو تین ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس نے اس کے سکیورٹی کے نظام کا کچا چھٹا سب کے سامنے واضح کر دیا ہے۔ میڈیا میں سامنے آنے والی خبروں کے مطابق مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غاصب صہیونی حکومت کے دو حساس سکیورٹی مقامات میں دھماکے ہوئے ہیں، جس نے اسرائیل کے آہنی گنبد جیسے دفاعی نظام کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ صہیونی صحافی ایڈی کوہن نے اپنے ٹوئیٹر پر ایک ویڈیو کلپ نشر کیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ دھماکہ اسرائیل کی ایک اہم اور حساس تنصیبات میں ہوا ہے۔ اس ٹوئیٹر کے کچھ وقت بعد اسرائیل میں سرکاری ذرائع نے دھماکے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ دھماکہ جدید ہتھیار من جملہ میزائل بنانے والی فیکٹری میں ہوا ہے۔ جمعرات کی صبح بھی شام کے علاقے سے ایک میزائل داغا گیا، جو غاصب صہیونی حکومت کے دفاعی نظام "گنبد آہنی" کو عبور کرتے ہوئے صہیونی ایٹمی تنصیبات "ڈیمونا" کے اطراف میں گرا ہے۔

مختصر دورانیے میں دو حملوں کے بارے میں مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔ میزائل بنانے والے کارخانے میں ہونے والے دھماکے کے بارے میں صہیونی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ یہ ایک حادثہ ہے، جو انسانی غلطی کی وجہ سے رونما ہوا ہے، لیکن صہیونی حکومت کے اس موقف کو میڈیا سمیت اسرائیلی عوام نے قبول نہیں کیا ہے۔ عبری زبان کے اخبار ہاآرتض نے اس پر اپنا تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ ایک حادثہ تھا اور کنٹرول سے خارج ہونے کی وجہ سے جدید ہتھیار بنانے والے اس کارخانے میں انسانی غلطی کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا ہے، لیکن کیا اس کا اتنے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے، وہ اس بیان کی نفی کرتا ہے۔ اگر اسرائیلی حکومت پر چند لمحوں پر مشتمل حسن ظن کا مطاہرہ بھی کیا جائے تو تب بھی یہ واقعہ مشکوک نظر آتا ہے۔

غاصب صہیونی حکومت اس دھماکے کو کیوں چھپانا چاہتی ہے اور اسے عام انسانی غلطی کہہ کر اس سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے، کیونکہ اگر وہ یہ تسلیم کر لے کہ بیرونی عناصر بالخصوص مقاوت و استقامت کا بلاک اس دھماکہ کا ذمہ دار ہے تو اسے بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، کیونکہ اگر وہ اس حملے کا مقاومتی بلاک کو جواب دے تو اس کے نتائچ بحرانوں میں گھری اسرائِیل کی موجودہ حکومت کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ دوسری طرف اگر وہ اس بات کو قبول کر لیں کہ موجودہ حملہ اسرائیل کے مستحکم سلامتی اور سکیورٹی نظام کے باوجود انجام پایا ہے تو یہ بھی "گنبد آہنی" جیسے دیگر سکیورٹی نطام کی مکمل ناکامی ہے۔ غاصب اسرائیل اور اس کے حمایتوں نے "گنبد آہنی" سمیت اسرائیل کے دیگر سکیورٹی دفاعی نظام کو ناقابل تسخیر قرار دیا ہوا ہے، لہذا میزائل فیکٹری اور بالخصوص ڈیمونا ایٹمی تنصیبات کے قریب شام سے میزائل حملہ دنیا بھر پر ثابت کر دیگا کہ اسرائیل اپنے مضبوط و مستحکم دفاعی نظام کے جو بلند بانگ دعوے کرتا ہے، وہ حقیقت میں معمولی میزائلوں کا دفاع کرنے کے بھی قابل نہیں ہے۔

بہرحال تمام دعووں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ اسلحہ ساز فیکٹری میں دھماکہ اور ڈیمونا میزائل حملہ کس نے اور کہاں سے کیا ہے، ان حملوں نے غاصب صہیونی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر اسرائیل نے شام اور ایران جیسے ممالک میں تخریب کاری کی تو اس کا جواب اسرائیل کی اسلحہ ساز فیکٹری اور ڈیمونا جیسی حساس تنصیبات کو حملوں کا نشانہ بنا کر دیا جائے گا۔ اسرائیل کی اسلحہ ساز فیکٹری اور ڈیمونا ایٹمی تنصیبات پر حملے کی سرخیوں کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ فلسطین کی کتائب شہید ابو علی مصطفیٰ نامی مسلح فلسطینی تنظیم نے اسرائیل پر راکٹوں کی برسات کی ہے۔ غزہ پٹی سے 36 راکٹ داغے گئے، جس کے بعد اسرائیلی فضائی دفاعی نطام آئرن ڈوم "گنبد آہنی" کا مزید پول کھل کر سامنے آگیا۔ اسرائیل کا گنبد آہنی نامی دفاعی نظام صرف 6 راکٹوں کو روکنے میں کامیاب ہوا، جس سے صہیونیوں کے خوف و ہراس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

بحرانوں مِیں گھرے اسرائیل نے اگرچہ کرونا وائرس کے حوالے سے اپنے تمام شہریوں کو ویکسین لگانے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن مقاومت کے مقابلے کے لیے تیار کردہ گنبد آہنی کی ایک اور ناکامی نے خطے میں صہیونی جنگی اسٹریٹیجی کو ایک بار پھر نئے چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ اسرائیل کا گنبد آہنی غزہ پٹی کے دیسی ٹائپ راکٹوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو ایران اور مقاوت کے جدید میزائلوں اور ڈرونز کا کیسے مقابلہ کرے گا، جس کی طاقت کا اندازہ امریکی سینٹ کام کے سربراہ جنرل میکنزی نے حال ہی میں کیا ہے۔ علاقے میں موجود دہشتگرد امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ سینٹ کام نے اعتراف کیا ہے کہ ایران ڈرون ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ پیشرفت کرچکا ہے، جس کی وجہ سے امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں فضائی برتری کا چیلنج درپیش ہے۔ سینٹ کام کے سربراہ میکنزی نے واضح الفاظ میں ایران کی ڈرون ٹیکنالوجی اور ڈرون طیاروں کی کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی ڈرونز کی فوجی، جاسوسی اور دیگر خصوصی صفات نے خطے میں امریکی فضائی برتری کو مشکلات سے روبرو کر دیا ہے۔

جنرل میکنزی نے امریکی فضائیہ کی برتری کے سلسلے میں کیے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ایران کی طرف سے ڈرونز طیاروں کے وسیع اور کامیاب استعمال کے بعد 1950ء کے عشرے کے بعد پہلی بار امریکہ فضائی برتری کے بغیر اپنی کارروائیاں انجام دینے پر مجبور ہے۔ دہشت گرد امریکی فوج کے کمانڈر جنرل میکنزی کا مزید کہنا تھا کہ جب تک ایرانی ڈرونز کی شناسائی اور ان کا توڑ ایجاد کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں، مشرق وسطیٰ میں امریکہ کو فضائی برتری حاصل نہیں ہوسکتی۔ امریکی فوجی جنرل کا یہ اعتراف اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ سمیت دیگر ممالک کی تمام تر پابندیوں اور ڈونالڈ ٹرامپ کی زیادہ سے زیادہ دبائو کی پالیسی کے باوجود ایران نے دفاعی شعبے میں نمایاں ترقی و پیشرفت کی ہے اور ایران کے مقامی ماہرین اور دفاعی شعبے کے سائنس دانوں نے ڈرونز ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا ہے۔

ایران کے تیار کردہ ڈرونز نے خطے میں جاسوسی، سرویلنس اور دیگر فوجی مقاصد کے لیے جو کامیاب کارروائیاں انجام دی ہیں، اس کا دشمن بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے مارچ 2021ء میں قومی سلامتی کی عارضی حکمت عملی کے تحت جو دستاویز جاری کی تھی، اس میں ایران کو علاقے کا اہم کھلاڑی قرار دیا گیا ہے اور اس میں ایران کی سائنس و ٹیکنالوجی کی پشرفت کو "گیم چینجر" کے طور پر زیر بحث لایا گیا ہے۔ ایران کی دفاعی صنعت کی ترقی من جملہ ڈرونز اور میزائل ٹیکنالوجی اس وقت امریکہ کے لیے ایک بڑے چیلنج میں تبدیل ہوچکی ہے اور اس کے مقابلے کے لیے امریکہ مختلف منفی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ کے معروف مبصر مائیکل نائٹس(Michael Knights) کے بقول ایران کے ترقی یافتہ ڈرونز کی ایک مثال یمن کی طرف سے استعمال ہونے والے ڈرونز ہیں، جس نے اسرائیل کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایران کی ڈرونز ٹیکنالوجی میں ترقی و پیشرفت کی دوست اور دشمن دونوں تائید و تصدیق کر رہے ہیں۔

ایران اس وقت ڈرونز ٹیکنالوجی میں انواع و اقسام کے ڈرونز تیار کر رہا ہے، جس میں چھوٹے سائز کے جاسوس ڈرونز طیاروں سے لے کر جیٹ سائز کے بغیر پائلٹ کے طیارے شامل ہیں، جن کی بری اور بحری دونوں میدانوں میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ان ڈرونز کے ذریعے فوجی، دفاعی اور دیگر شعبوں میں بہت زیادہ مدد لی جا سکتی ہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر2231 کی روشنی میں ایران ڈرونز سمیت اپنی دیگر فوجی و غیر فوجی مصنوعات کو دنیا بھر میں فروخت کرسکتا ہے اور اس مسئلہ نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ سینٹ کام کے جنرل میکنزی کا ڈرونز کے بارے میں حالیہ اعتراف اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مقاومت کے بلاک کی فوجی و دفاعی ٹیکنالوجی صرف ایران و شام و لبنان تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ امانت ہے اور فلسطین سمیت ان تمام محروموں کے لئے ہے، جو غاصب صہیونی حکومت اور استعماری طاقتوں کے خلاف نبرد آزما ہیں۔
خبر کا کوڈ : 929478
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش