0
Wednesday 28 Apr 2021 11:34

کریم اہلبیت امام حسن مجتبیٰ (ع) کی سیرت کے چند پہلو

کریم اہلبیت امام حسن مجتبیٰ (ع) کی سیرت کے چند پہلو
تحریر: محمد حسن غدیری

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت باسعادت 15 رمضان المبارک سنہ 3 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ والد گرامی امام امیر المؤمنین علی علیہ السلام اور والدہ گرامی جناب خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزھراء (س) ہیں اور آپ کی کنیت ابو محمد اور  مشہور القابات سید، تقی، زکی، سبط اور طیب ہیں۔
کریم اہلبیت علیہم السلام
امام حسن علیہ السلام نے اپنی زندگی میں دو دفعہ پوری جائیداد اور تین مرتبہ نصف جائیداد خدا کی راہ میں عطا کی، جس کی وجہ سے آپ کو کریم  اہلبیت کا لقب ملا اور آپ کے در سے کبھی کوئی سائل خالی ہاتھ واپس نہیں گیا۔ امام حسن علیہ السلام کی زندگی دین اسلام کی راہ میں بھرپور جدوجہد سے عبارت ہے، مگر اسلام کی بقا کے لیے صلح کا جو کارنامہ انجام دیا، وہ آپکی زندگی کا روشن باب ہے۔ تمام ائمہ معصومین کی کوشش اسلامی معاشرہ کا قیام اور اسلام کا فروغ ہے۔ اسی لیے امام حسن نے اپنے زمانے کے حالات اور تقاضوں کے مطابق صلح کے ذریعے دین کو بچایا اور اسی صلح نے قیام امام حسین کا موقع فراہم کیا۔ ائمہ کا بنیادی ہدف یہ ہوتا تھا کہ اسلامی حکومت قائم ہو جائے، چاہے یہ کام  مستقبل قریب میں ہو یا مستقبل بعید میں۔

امام حسن مجتبیٰ کی زندگی مشکلات و سختیوں سے بھرپور تھی، جہاں ایک طرف زیرک و چالاک دشمن، نادان دوست اور اندرونی خلفشار نے امام حسن کے لیے زندگی مشکل کر دی۔ اس لیے آپ صلح پر مجبور ہوئے۔ صلح امام حسن علیہ السلام تاریخ اسلام میں رسول اللہ کی اسلامی تحریک کا تسلسل تھا، جس کا آغاز مکہ سے ہوا تھا۔ آپ نے مکہ میں کفار مکہ کے ساتھ اس کے بعد صلح حدیبیہ کے ذریعے اسلامی تحریک کو طاقت بخشی۔ مولائے کائنات علی ابن ابی طالب نے پیغمبر اکرم  کی رحلت کے بعد 25 سال تک اسلامی نظام کو بچانے کے لیے بھرپور کوشش کی اور حکمرانوں کو مشیر کی حیثیت سے مشورہ دیتے رہے اور مسلح جدوجہد پر  مفاہمت آمیز پالیسی کو اسلام کی حفاظت کے لئے ترجیح دی۔
 
امام حسن مجتبی علیہ سلام کو 6 مہینے ظاہری حکومت ملی، جس میں بنو امیہ نے امام کے لیے مزاحمت ایجاد کی اور امام کے پاس دو راستے ہی بچے تھے کہ شہادت کا راستہ اختیار کر لیں یا پھر صلح کرکے اسلام کو بچا لیں۔ لہٰذا امام حسن علیہ السلام نے اس مشکل وقت میں ایک بہترین حکمت عملی اپناتے ہوئے صلح کا راستہ اختیار کیا اور وہ شرائط  قبول کیں، جو صلح کے وقت پیش کی گئی تھیں۔ اگر ان حالات میں امام حسن مجتبیٰ کی جگہ باقی ائمہ میں سے کوئی بھی ہوتا تو وہ بھی ایسا ہی کرکے صلح کی راہ اختیار کرتے۔ امام حسن کے زمان امامت میں امام حسین نے اس صلح کو قبول کیا۔ آپ کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کیا، یعنی آپ امام حسن کے پیرو تھے، کیونکہ تمام ائمہ معصومین کا مقصد ایک ہی تھا۔

امام حسن نےصلح کیوں قبول کیا؟
امام مجتبیٰ علیہ السلام نے نہ چاہتے ہوئے بھی مجبور ہو کر صلح قبول کی، کیونکہ یہ ایک حکمت عملی تھی۔ ایک طویل منصوبہ بندی کے تحت اسلام کا تحفظ آپ کے  منظور نظر تھا، اس طرح اسلامی نظام کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا۔ آپ کی نظر میں  اگر حکومت ظاہری مل جائے تو ٹھیک اور اگر حکومت ظاہری نہ بھی ملے تو اسلامی ثقافت و دستورات ایک تحریک کی شکل میں تسلسل کے ساتھ زندہ رہیں۔ کیونکہ اصل ہدف اقتدار نہیں اسلام کی حفاظت تھا اور اس کی تمام شرائط کو آپ نے صلح میں پیش کیا اور یہ واضح کر دیا کہ اصل ہدف اسلام ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیة الله خامنہ ای فرماتے ہیں کہ صلح امام حسن (ع) سے اسلام کو جو فائدہ و دوام ملا، وہ کہیں اور سے نہیں ملا۔ یہ امام کی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے اسلام کو حاصل ہوا ہے۔ اگر امام حسن، معاویہ کے ساتھ جنگ کرتے تو امام کی شہادت کے بعد بنو امیہ کی چالاک و مکر اور فریب پر مبنی حکومت اس کو کسی طریقے سے چھپا دیتی۔ دشمن یا بعض ناداں دوست، دشمن کی سازش میں آکر کہتے ہیں کہ امام حسن نے جنگ سے ڈر کر صلح کی یا کثرت ازدواج کی وجہ سے امور حکومت میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔!!! یہ بات بالکل غلط اور دشمن کی طرف سے امام کی منزلت کو کم کرنے کی سازش ہے۔

حقیقت میں امام حسن مجتبیٰ شجاعت و بہادری میں بے مثال تھے اور آپ نے اپنے والد گرامی کے ساتھ جنگ جمل و صفین میں اپنی بہادری و شجاعت کے جوہر دکھائے تھے اور آپ کا مقصد بھی نظام اسلامی کا قیام اور الٰہی دین کا نفاذ تھا، مگر اس کا طریقہ اور حالات امام حسین (ع) کے دور سے مختلف تھا، جس کی بناء پر امام حسن (ع) نے معاویہ کے ساتھ صلح کی اور اسی صلح کے ذریعے ہی اسلام کے اصول، اقدار و روح اسلام کو بچایا اور بنی امیہ کے مذموم عزائم اور سازشوں کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا۔
خبر کا کوڈ : 929696
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش