0
Thursday 29 Apr 2021 08:42

امریکہ ترکی کشیدگی

امریکہ ترکی کشیدگی
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

امریکہ اور ترکی کے درمیان آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کے موضوع پر سیاسی تنازعہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے حکام کی طرف سے اس موضوع پر تند و تیز بیانات جاری کیے جا رہے ہیں۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیدن پہلے صدر ہیں جنہوں نے سرکاری طور پر 1915ء میں عثمانیہ دور حکومت میں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیا ہے۔ یہ قتل عام سلطنت عثمانیہ کے دور حکمرانی کے آخری چند سالوں میں 1915ء میں ہوا تھا، لیکن ترکی میں یہ انتہائی حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے اور ترک حکومت اس قتل عام اور وہاں ہونے والے مظالم کو تو کسی حد تک تسلیم کرتی ہے، لیکن اس کے لیے نسل کشی کے لفظ کو استعمال کرنا غلط سمجھتی ہے۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے بائیڈن کے اس موقف کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر کے بیان کی نہ قانونی حیثیت ہے نہ تحقیقی اور نہ ہی اس کے شواہد ہیں۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اپنی کابینہ کے ساتھ تین گھنٹے پر مشتمل طویل میٹنگ کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں اور اس مسئلہ کو اٹھانے کے سیاسی مقاصد ہیں۔ رجب طیب اردوغان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اہل مغرب نے یہودیوں کو اور امریکہ نے سرخ فاموں کو اپنے ممالک سے نکالا ہے اور اب وہ کس منہ سے ترکی پر آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کا جھوٹا الزام لگا رہے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان نے واشنگٹن انقرہ تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے لیکن یہاں پر ایک بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ امریکہ نے اس وقت اس مسئلہ کو کیوں اٹھایا ہے۔ امریکہ آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کے موضوع کو اٹھا کر کیا مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔

امریکہ اس مسئلے کی آڑ میں ترکی سے کچھ مفادات لینا چاہتا ہے اور اسے اچھی طرح علم ہے کہ ترکی کے لیے یہ موضوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے، لہذا اس کے ذریعے سے ترکی کو بلیک میل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ ترکی سے کیا چاہ رہا ہے، بہت جلد منظر عام پر آجائے گا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ترکی ایک مشکل صورتحال میں گرفتار ہوچکا ہے، کیونکہ ترکی کے اکثر مغربی اور غیر مغربی اتحادی آرمینیا کی وجہ سے ترکی پر دبائو ڈال سکتے ہیں اور انقرہ کے لیے اس دبائو کو نظرانداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔ آرمینیا کے تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کا مقصد آرمینیا کی سرزمینوں پر قبضہ تھا اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ترکی قتل عام کا مرتکب ہوا ہے اور اس نے آرمینیائی باشندوں کی زمینوں پر قبضہ کیا تھا تو آرمینیا کی موجودہ حکومت اپنے مقبوضہ علاقوں کی واپسی کا مطالبہ کرسکتی ہے۔

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ امریکی صدر جو بائیڈن کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور اس سے صرف سفارتی کشیدگی ہی وجود میں آئی ہے لیکن اگر بین الاقوامی دبائو اس بات کا باعث بن جائے کہ ترکی آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو قبول کر لیتا ہے تو ترکی کی سفارتی ذمہ داریوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا اور اسے ان اقدامات کے ازالے کے لیے بہت سے اقدامات انجام دینے پڑیں گے۔ اگرچہ اس واقعہ کو طویل عرصہ گزر چکا ہے، لیکن یہ واقعہ کسی بھی وقت انقرہ کے لیے علاقائی اور عالمی مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کے عادی ہیں، وہ ایک طرف اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہیں تو دوسری طرف نہ صرف اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات کو قائم رکھے ہوئے ہیں بلکہ مختلف شعبہ جات میں ان کے تل ابیب سے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں ہِیں۔

ترکی عالم اسلام کی قیادت اور خلافت عثمانیہ کے احیاء جیسے خواب دیکھنے کے لیے امریکہ کے خلاف آئے وقت موقف اختیار کرتا رہتا ہے، لیکن ترکی میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو اپنی سفارتی کامیابی قرار دیتا ہے۔ ترک صدر ایس 300 لینے کے لیے روس سے بھی اپنی پینگیں بڑھاتے ہیں، لیکن امریکی اور یورپی اتحادیوں کو چھوڑنے پر بھی تیار نہیں ہوتے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے آذربائیجان نکارا گوا کے مسئلے میں ہیرو بننے کی کوشش کی اور علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے آپ کو ایک کامیاب کھلاڑی بنا کر پیش کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے حالیہ بحران کو حل کرنے میں انقرہ پیش پیش نظر آتا ہے۔ استنبول میں افغان بحران کے حل کے لیے ایک گرینڈ میٹنگ کا انعقاد متوقع تھا، جو طالبان کی ضد اور امریکہ کی وعدہ خلافیوں کی وجہ سے عارضی طور پر ملتوی کر دیا گیا ہے، تاکہ امریکہ ترکی سے افغانستان کے حوالے سے کوئی اہم کام لینا چاہتا ہے۔

رجب طیب اردوغان امت مسلمہ کی قیادت کے شوق میں افغانستان میں بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور امریکہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، ایک ایسے وقت جب امریکہ ترکی کو افغانستان میں اپنے فرنٹ مین کے طور پر سامنے لانا چاہتا ہے، عین اس دوران آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کا معاملہ سامنے آنا کسی نئی سازش کا شاخسانہ ہے۔ امریکہ اور ترکی کی حالیہ کشیدگی کے خطے بالخصوص افغان بحران پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کے لیے تھوڑا انتظار کرنا ہوگا، ممکن ہے امریکہ ترکی پر دبائو بڑھا کر انقرہ کو افغان بحران میں ترکی کی مرضی و منشا سے بڑھ کر استعمال کرنے کے لیے آرمینیا کے مسئلے کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا متمنی ہو۔
خبر کا کوڈ : 929806
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش