0
Sunday 2 May 2021 03:13

ایران، سعودیہ تعلقات میں بہتری ممکن؟

ایران، سعودیہ تعلقات میں بہتری ممکن؟
رپورٹ: سید عدیل زیدی

امت مسلمہ میں اختلاف ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے، اس مسئلہ کی بنیاد اگر تعلیمات محمد (ص) و آل محمد (ع) سے دوری کو قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا، جب امت نے ان دو طاہر پہلووں سے دوری اختیار کی تو اختلافات اور فرقہ واریت کی دلدل میں دھسنتی گئی۔ موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو اسوقت امت مختلف جہتوں میں تقسیم ہے، کہیں جغرافیائی مسائل، کہیں فرقہ وارانہ معاملات، کہیں ملکی مفادات کی جنگ تو کہیں استعماری غلامی۔ یہاں ہم عالم اسلام کے دو اہم ممالک ایران اور سعودی عرب کے تعلقات پر بات کریں گے۔ برادر اسلامی ملک ایران کو اہل تشیع مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کی ایک غالب اکثریت اور انقلاب اسلامی کیوجہ سے دنیا بھر میں بسنے والی شیعہ آبادی میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ امام خمینی (رہ) کے انقلاب برپا کرنے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو یہ خطرہ کھائے جاتا تھا کہ اب یہ انقلاب کہیں ایران کی سرحدوں کو توڑتا ہوا اسلام کے ایک عالم گیر انقلاب کی شکل اختیار نہ کرلے، جس کیوجہ سے ایک خاص مصنوعی مکتب فکر کو پنپنے کا موقع دیا گیا اور انقلاب اسلامی کے نتیجے میں متعارف ہونیوالے اسلام کے حقیقی چہرے کو بگاڑنے اور اس کے مقابلہ کیلئے وہابی ازم کو فروغ دیا گیا، (جسکا برملا اعتراف سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کرچکی ہیں)۔

اسلامی دنیا کو ’’پرو ایران اور پرو سعودی‘‘ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، استعماری قوتیں فرقہ وارانہ تقسیم کی اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب بھی رہیں، کیونکہ اس سازش کا ایندھن خود بعض مسلم ممالک بنے۔ کئی سال تک اہلسنت مکتب فکر کو انقلاب اسلامی سے دور رکھنے کی خاطر سعودی عرب کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے تقدس کی آڑ میں ایک روحانی مرتبہ دلانے کی کوشش کی گئی، تاہم گزرتے وقت کیساتھ ساتھ سعودی حکمرانوں کے مذہبی حوالے سے حقائق سامنے آنے کے بعد معتدل اہلسنت طبقہ اس فکر سے دور ہوتا گیا، تاہم آج بھی امت مسلمہ کے کئی طبقات میں سعودی عرب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، جبکہ دوسری جانب جمہوری اسلامی ایران آج بھی اپنے اسلامی انقلاب کے اثرات کو بڑھاتے ہوئے استعمار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر امت مسلمہ کے دفاع میں کھڑا نظر آتا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کیخلاف مختلف محاذوں پر صف آراء نظر بھی آتے ہیں، گو کہ یہ تصادم امت مسلمہ میں کسی بڑی تفریق سے بچنے کے احساس کی خاطر شائد آمنے سامنے جنگ کی صورت میں تو نہیں، تاہم اس کی موجودگی حقیقت ضرور ہے۔

خاص طور پر یمن جنگ کے معاملہ پر کئی سالوں سے دونوں مسلم ممالک کے تعلقات خراب چلتے آرہے ہیں، گذشتہ دنوں ایک برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ایران اور سعودی عرب کے سینیئر عہدیداروں کے مابین دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں کے سلسلے میں براہ راست بات چیت ہوئی ہے، اخبار کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ ماہ بغداد میں ہونے والے ان مذاکرات کو دونوں ممالک کے درمیان سنہ 2016ء کے بعد سے پہلے بڑے سیاسی مذاکرات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ فنانشل ٹائمز نے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ نو اپریل کو بغداد میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور میں حوثیوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں سے متعلق بات چیت ہوئی، جو مثبت رہی۔ اس عہدیدار نے نام ظاہر کیے بغیر کہا ہے کہ سعودی وفد کی سربراہی خالد بن علی الحمیدان کر رہے ہیں، جو ملک کی انٹیلیجنس سروس کے سربراہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آئندہ ہفتے ان مذاکرات کا دوسرا دور طے ہونا ہے، یہ بات چیت کروانے میں عراقی وزیراعظم مصطفیٰ کاظمی نے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ عراقی وزیراعظم نے گذشتہ ماہ ریاض میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی تھی۔

برطانوی اخبار کے اس دعوے کے حوالے سے ایران اور سعودی عرب، دونوں ممالک کے حکام کیجانب سے براہ راست کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا، تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ دونوں ممالک کے مابین پس پردہ مذاکرات ضرور ہوئے ہیں، واضح رہے کہ عراقی وزیراعظم مصطفیٰ کاظمی کا نام اس سے پہلے بھی سامنے آیا ہے۔ برطانوی اخبار کی رپورٹ کے بعد تین روز قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا ایک انٹرویو منظر عام پر آیا، جس میں انہوں نے پہلی مرتبہ ایران کے حوالے سے خیر سگالی کا اظہار کیا، العربیہ ٹیلی ویژن کو دیئے گئے انٹرویو میں ولی عہد محمد بن سلمان نے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہونے کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتے بلکہ ہماری خواہش ہے کہ ایران ترقی کرے۔ ہمارے مفادات ایران سے اور ایران کے سعودی عرب سے وابستہ ہیں، دو طرفہ بہتر تعلقات کو فروغ دیکر ہم خطے کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔

برطانوی اخبار کے انکشاف اور پھر محمد بن سلمان کا حالیہ بیان اس جانب واضح اشارہ ہے کہ پردہ کے پیچھے کچھ نہ کچھ اچھا چل رہا ہے اور یہ معاملات اسی طرح مزید آگے بڑھتے ہیں تو یہ نہ صرف مشرق وسطیٰ میں امن و امان کی بہتری اور بلکہ طویل المدتی سطح پر امت مسلمہ کیلئے نیک شگون ہے۔ حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یمن جنگ کیوجہ سے سعودی عرب ’’بیک فٹ‘‘ پر جا چکا ہے اور اب اس جنگ سے باعزت طریقہ سے جان چھڑانے کے علاوہ اس کے پاس اب کوئی اور راستہ نہیں۔ یہ مذاکرات سعودی عرب کو اس جنگ سے نکالنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں، جبکہ دوسری جانب ایران کیلئے بھی بہتر ہے کہ وہ ایک مسلم ملک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بناتے ہوئے امت مسلمہ کو اخوت و اتحاد کا اچھا پیغام دے۔ گو کہ خطہ کی موجودہ صورتحال میں ایران ایک مضبوط پوزیشن میں ہے، تاہم اگر معاملات محاذ آرائی کی بجائے مذاکرات سے حل ہو جائیں تو یہ دونوں ممالک کیساتھ ساتھ خطہ اور امت مسلمہ کے لئے انتہائی نیک شگون ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 930256
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش