QR CodeQR Code

جوانوں کو امام علیؑ کی وصیتیں

3 May 2021 21:05

اسلام ٹائمز: کلامِ امام المتقین کا مشہور جملہ کہ میں تمہیں تقویٰ اختیار کرنے اور اپنے امور کو منظم کرنے کی وصیت کرتا ہوں، ہر انسان کیلئے ہے۔ یہ ایامِ ضربت مولائے کائناتؑ ہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم کلامِ امام المتقین ؑمیں غور و فکر کریں۔ کلامِ امام کو اپنی شب و روز کی گفگتو کا حصہ بنائیں۔ دنیا کو علیؑ جیسے جری کے حکیمانہ کلام سے متعارف کروائیں، ورنہ فقط زبانی ولا کے دعوے کہیں ہمیں بارگاہ بو تراب میں شرمندہ نہ کر دیں۔


تحریر و تحقیق: سویرا بتول

اس مقالے کی سند نہج البلاغہ کا خط 31 ہے۔ سید رضی کے بقول صفین سے واپسی پر "حاضرین" کے مقام پر امام المتقین ؑنے یہ خط اپنے فرزند امام حسن علیہ سلام کے نام تحریر فرمایا۔ حضرتؑ کے اِس حکیمانہ کلام کے مخاطب امام حسن علیہ السلام کے توسط سے حقیقت کا متلاشی ہر جوان ہے۔ مولائے کائناتؑ کی مظلومیت اِس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ علیؑ اپنے چاہنے والوں کے درمیان آج بھی تنہا ہیں اور وہ کلام جو تحت کلامِ خالق و فوق کلام مخلوق کا مصداق ہے، جسے دلوں کی زینت بننا چاہیئے تھا، وہ آج تک طاق کی زینت ہے۔ یہاں اختصار کے ساتھ امامؑ کے کلام سے جوانوں کو کی جانے والی چند وصیتیں قلم بند کی جا رہی ہیں، اس دعا کے ساتھ کہ پرودگار عالم ہمیں صاحبِ سلونی کے کلام کو پڑھنے اور عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

خود سازی:
خود سازی کا بہترین زمانہ جوانی کا دور ہے۔ امامؑ اپنے فرزند امام حسنؑ سے فرماتے ہیں: "انما قلب الحدث کالارض الخالیة ما القی فیھا من شئ قبلة فبادرتک بالادب قبل ان یقسو اقلبک و یشتغل لبک" نوجوان کا دل خالی زمین کی مانند ہے، جو اس میں بویا جائے قبول کرتی ہے، پس قبل اس کے کہ قسی القلب ہو جائے اور فکر کہیں مشغول ہو جائے، میں نے تمہاری تعلیم و تربیت میں جلدی کی۔" ناپسندیدہ عادات، جوانی میں چونکہ ان کی جڑیں مضبوط ہوتیں ہیں، اس لیے ان سے نبرد آزمائی آسان ہوتی ہے۔ امام خمینی فرماتے ہیں "جہاد اکبر ایک ایسا جہاد ہے، جو انسان اپنے سرکش نفس کے ساتھ انجام دیتا ہے۔ آپ جوانوں کو ابھی سے جہاد کو شروع کرنا چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جوانی کے قوی ایام تم لوگ ضائع کر بیٹھو۔"
ایک اور مقام پر امام علیؑ فرماتے ہیں: "اس سے قبل کہ نفسانی خواہشات، جرائت و تندرستی کی خو اپنا لیں، ان سے مقابلہ کرو، کیونکہ اگر تمایلات و خواہشات خود سر اور متجاوز ہو جائیں تو تم پر حکمرانی کریں گی، پھر جہاں چاہیں تمہیں لے جائیں گی، یہاں تک کہ تم میں مقابلے کی صلاحیت ختم ہو جائے گی۔"

تقویٰ و پاکدامنی:
امامؑ فرماتے ہیں: واعلم یا بنی ان اجب ما انت آخذبہ الی امن وصیتی تقوی اللہ "بیٹا جان لو کہ میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ترین چیز اس وصیت نامے میں تقویٰ الہیٰ ہے، جس سے تم وابستہ ہو۔" جوانوں کے لیے تقویٰ کی اہمیت اس وقت اجاگر ہوتی ہے، جب زمانہ جوانی کے تمایلات، احساسات اور ترغیبات کو مدنظر رکھا جائے۔ وہ جوان جو غرائز، خواہشات نفسانی، تخیلات اور تند و تیز احساسات کے طوفان سے دوچار ہوتا ہے، ایسے جوان کے لیے تقویٰ ایک نہایت مضبوط و مستحکم قلعے کی مانند ہے، جو اسے دشمنوں کی تاخت و تاراج سے محفوظ رکھتا ہے۔ امیر کائناتؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ: "اے اللہ کے بندوں جان لو کہ تقوی ناقابلِ شکست قلعہ ہے…"

جوان ہمیشہ دو راہے پر ہوتا ہے، دو متضاد قوتیں اسے کھینچتی ہیں، ایک طرف تو اس کا اخلاقی و الہیٰ وجدان ہے، جو اسے نیکیوں کی طرف ترغیب دیتا ہے اور دوسری طرف نفسانی غریزے۔ نفس امارہ اور شیطانی وسوسے اسے خواہشات نفسانی کی تکمیل کی دعوت دیتے ہیں۔ عقل و شہوت، نیکی و فساد، پاکی و آلودگی کی اس جنگ اور کشمکش میں وہی جوان کامیاب ہوسکتا ہے، جو ایمان اور تقویٰ کے اسلحہ سے لیس ہو۔ یہی تقویٰ تھا جس کی بدولت حضرت یوسف علیہ السلام عزم صمیم سے الہیٰ امتحان میں سر بلند ہوئے اور پھر انہوں نے عزت و عظمت کی بلندیوں کو چھوا۔

ارادہ کی تقویت:
بہت سے جوان ارادے کی کمزوری اور فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت کی شکایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم نے بری عادات کو ترک کرنے کا بارہا فیصلہ کیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ امام علی ؑعلیہ السلام کی نظر میں تقویٰ ارادے کی تقویت، نفس پر تسلط، بری عادات اور گناہوں کے ترک کرنے کا بنیادی عامل ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں "آگاہ رہو کہ: غلطیاں اور گناہ اس سرکش گھوڑے کی مانند ہیں، جس کی لگام ڈھیلی ہو اور گناہ گار اس پر سوار ہوں۔ یہ انہیں جہنم کی گہرائیوں میں سرنگوں کرے گا اور تقویٰ اُس آرام دہ سواری کی مانند ہے، جس کا مالک اس پر سوار ہے۔ اِس کی لگام اس کے ہاتھ میں ہے اور یہ سواری اسے بہشت کی طرف لے جائے گی۔" متوجہ رہنا چاہیئے کہ جو لوگ اس وادی میں قدم رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عنایات اور الطاف ان کے شامل حال ہو جاتے ہیں، جیسے کہ فرمان الہی ہے: والذین جاھدو افینا لنھدینھم سبلنا (سورة عنکبوت٦٩) "اور وہ لوگ جو ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم بالیقین و بالضرور ان کو اپنے راستوں کی طرف ہدایت کریں گے۔"

جوانی کی فرصت اور غنیمت:
بلاشبہ کامیابی کے اہم ترین عوامل میں سے ایک فرصت اور فراغت کے اوقات سے صحیح اور اصولی استفادہ ہے۔ جوانی کا زمانہ اس فرصت کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جسمانی اور معنوی قوتیں وہ عظیم گوہرِ نایاب ہیں، جو پرودگار عالم نے انسان کو عنایت کی ہیں۔ اس کے بارے میں امام علیؑ فرماتے ہیں:
بادرالفرصة قبل ان تکون غصة "قبل اس کے کہ فرصت تم سے ضائع ہو اور غم و اندوہ کا باعث بنے اس کو غنیمت جانو۔" اس آیت مبارکہ *لاتنس نصیبک من الدنیا*  (قصص ٧٧ )(دنیا سے اپنا حصہ فراموش نہ کرنا) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: لاتنس صحتک و قوتک و فراغک و شبابک نشاطک ان تطلب بھاالاخرة "اپنی صحت، قوت، فراغت، جوانی اور نشاط کو فراموش نہ کرو اور ان سے اپنی آخرت کے لیے استفادہ کرو۔" جو لوگ اپنی جوانی سے صحیح استفادہ نہیں کرتے، امامؑ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: "انہوں نے بدن کی سلامتی کے دنوں میں کوئی سرمایہ جمع نہ کیا، اپنی زندگی کی ابتدائی فرصتوں میں درس عبرت نہ لیا۔ جو جوان ہے، اسے بڑھاپے کے علاوہ کسی اور چیز کا انتظار ہے۔"

بزرگ منشی:
اپنے خط میں امیر المومنین علیہ سلام جوانوں کو ایک اور وصیت فرماتے ہیں؛
*اکرم نفسک عن کل دنیہ و ان ساقتک الی الرغائب فانک لن تعتاض بماتبذل من نفسک عوضا ولا تکن عبد غیرک وقد جعلک اللہ* "ہر پستی سے اپنے آپ کو بالاتر رکھ، اگرچہ یہ پستیاں تجھے تیرے مقصد تک پہنچا دیں، پس اگر تو نے اس راہ میں اپنی عزت و آبرو کھو دی تو اس کا عوض تجھے نہ مل پائے گا اور غیر کا غلام نہ بن کیونکہ خدا نے تجھے آزاد خلق کیا ہے۔"

ذلت آمیز گفتار و کردار سے پرہیز:
اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس کا وقار اور عزت نفس محفوظ رہے تو اسے چاہیئے کہ ایسی گفگتو اور عمل جو انسان کی توقیر میں کمی کا باعث بنے، اس سے اجتناب کرے۔ اسی لیے اسلام نے چاپلوسی، زمانے سے شکایت، اپنی مشکلات لوگوں سے بیان کرنے اور بےجا بلند و بانگ دعوے کرنے، یہاں تک کے بے موقع تواضع و انکساری کے اظہار سے منع فرمایا ہے۔ مولائے کائنات اس حوالے سے فرماتے ہیں:*کثرة الثناملق یحدث الزھوویدنی من العزة* "تعریف و تحسین میں زیادہ روی چاپلوسی ہے، اس سے تو ایک طرف مخاطب میں غرور تکبر پیدا ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف عزت نفس سے دور ہو جاتا ہے۔"

جوانی کے بارے میں سوال:
جوانی اور نشاط خالقِ کائنات کی عظیم نعمت ہیں، جن کے بارے میں قیامت کے روز پوچھا جائے گا۔ رسولِ خداﷺ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں: "قیامت کے دن کوئی شخص ایک قدم نہیں اٹھائے گا مگر یہ کہ اُس سے چار سوال پوچھے جائیں گے: 
١۔ اس کی عمر کے بارے میں کہ کیسے صرف کی اور کہاں اسے فنا کیا۔؟
٢۔ جوانی کے بارے میں کہ اس کا کیا انجام کیا۔؟
٣۔ مال و دولت کے بارے میں کہ کہاں سے حاصل کی اور کہاں کہاں خرچ کیا۔؟
٤۔ اہلِ بیتؑ کی محبت و دوستی کے بارے میں سوال ہوگا۔
" یہ جو آنحضرت نے عمر کے علاوہ جوانی کا بطور خاص ذکر فرمایا ہے، اس سے جوانی کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ امامؑ علیؑ فرماتے ہیں: *شیئان لا یعرف فضلھما الامن فقدھما الشباب و العافیة* "انسان دو چیزوں کی قدر و قیمت نہیں جانتا مگر یہ کہ ان کو کھو دے، ایک جوانی اور دوسرا تندرستی ہے۔"

اخلاقی وجدان:
امام اپنے فرزند سے فرماتے ہیں: *یا بنی اجعل نفسک میزانا فیمابینک و بین غیرک* "اے بیٹے خود کو اپنے اور دوسروں کے درمیان فیصلے کا معیار قرار دو۔" اگر معاشرے میں سب لوگ اخلاقی وجدان کے ساتھ ایک دوسرے سے روابط رکھیں، ایک دوسرے کے حقوق، مفادات اور حیثیت کا احترام کریں تو معاشرتی روابط میں استحکام، سکون اور امن پیدا ہوگا۔ المختصر کلامِ امام المتقین کا مشہور جملہ کہ میں تمہیں تقویٰ اختیار کرنے اور اپنے امور کو منظم کرنے کی وصیت کرتا ہوں، ہر انسان کے لیے ہے۔ یہ ایامِ ضربت مولائے کائناتؑ ہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم کلامِ امام المتقین ؑمیں غور و فکر کریں۔ کلامِ امام کو اپنی شب و روز کی گفگتو کا حصہ بنائیں۔ دنیا کو علیؑ جیسے جری کے حکیمانہ کلام سے متعارف کروائیں، ورنہ فقط زبانی ولا کے دعوے کہیں ہمیں بارگاہ بو تراب میں شرمندہ نہ کر دیں۔


خبر کا کوڈ: 930576

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/930576/جوانوں-کو-امام-علی-کی-وصیتیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org