0
Tuesday 4 May 2021 04:49

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
تحریر: ارشاد حسین ناصر

قومیں جب اپنی تدبیر کو چھوڑ کر تقدیر اور مقدر کو اوڑھنا بچھونا بنا لیں اور حرکت کی بجائے حالات کے رحم و کرم پہ خود کو چھوڑ دیں تو ایسا ہی ہوتا ہے، کسی نے اسی بارے کہا کہ ضعیفی اور بے بسی جب تقدیر کا نام لیکر قوموں پر مسلط ہوتی ہے تو پھر ہر تدبیر ناکامی کو اپنا ہمنوا بنا لیتی ہے، ہماری ملت کا بھی یہی حال ہے، مجموعی صورتحال ایسی ہی ناگفتہ بہ ہے۔ ذرا دیکھیں کہ ہم نے اٹھائیس دن پرامن بلکہ مثالی پرامن دھرنا دیا، کسی ذمہ دار شخصیت کے کان پہ جوں تک نہ رینگی۔ ہماری مائیں بہنیں اس سخت گرمی میں سڑک پہ بیٹھی رہیں، دودھ پیتے بچوں کو لیکر، سادات و غیر سادات، مائیں، بہنیں، بیٹیاں، ضعیف و ناتواں باپ اور مخلص و دیندار، متحرک و فعال علمائے کرام، تنظیمی و غیر تنظیمی شخصیات اس ماہ مبارک میں اپنے قانونی و جائز مطالبات کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرتے رہے، مگر اس صدا کو درخور اعتناء نہیں سمجھا گیا۔

اس دھرنے کو ختم کرنے کیلئے سکیورٹی کے حوالے سے دھمکیاں سامنے آئیں، حالات کو اس نہج پہ محسوس کیا گیا تو وارثان و خانوادگان جبری گمشدگان کے مشورے سے یہ دھرنا ختم کرنا پڑا، کیا ہم کسی جنگل میں رہتے ہیں۔۔۔ انتہائی پرامن احتجاج کرنے والوں کے ساتھ اس ناتجربہ کار حکومت کے کسی وزیر کو بھی رابطہ کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ جو سب کیلئے باعث حیرت ہے، ابھی یہ صورتحال چل رہی تھی کہ آج ہی ایک اور خبر نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سابق مرکزی رہنماء امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، ایم ڈبلیو ایم ضلع چنیوٹ کے سیکرٹری سیاسیات برادر سید عاشق حسین بخاری کو انسدادِ دہشت گردی کورٹ فیصل آباد نے فورتھ شیڈول کے ایک مقدمے میں سزا سنائی دی ہے۔ عدالت نے فورتھ شیڈول کی مبینہ خلاف ورزی پر سید عاشق حسین بخاری کو ایک سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی۔ عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے پر پولیس نے عاشق حسین بخاری کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا۔

یاد رہے کہ چنیوٹ پولیس نے عاشق حسین بخاری کیخلاف 23 مارچ کو یوم پاکستان کی مناسبت سے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن چنیوٹ کی جانب سے نکالی گئی ریلی میں شرکت کرنے پر مقدمہ قائم کیا تھا۔ عاشق حسین بخاری پاکستانی پرچم تھامے اس ریلی میں شریک ہوئے تھے، پاکستان پرچم تھامنے کی اتنی بڑی سزا، اس ملک میں کیا ہو رہا ہے، ابھی تو ان پولیس اہلکاروں کا کفن میلا نہیں ہوا کہ جنہیں تحریک لبیک جسے کالعدم قرار دیا گیا، جس نے پولیس کی درگت بنائی، جس نے سرکاری و نجی املاک کو جلایا، جس نے کئی دن تک ملک کے کئی ایک شہروں میں بدترین ہنگامہ آرائی کرکے لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا، اس کے قائدین کو اسی فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا تھا کہ یکا یک ان کیلئے قانون کی تمام کتابوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا اور ہنگامہ آرائی کرنے والے سینکڑوں کارکنان کو بغیر ضمانت کے رہائی دے دی گئی۔

لگتا ہے کہ کالعدم قرار دینے کا فیصلہ بھی تھوک کے چاٹا جا سکتا ہے، کیا یہ دوہرا معیار نہیں، ایک کیلئے قانون ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے تو دوسرے کو قانون و انصاف کے نام پہ ظلم و زیادتی کا شکار کیا جائے، اس ملک میں اہل تشیع کیساتھ تعصب کا برتائو کوئی نئی بات نہیں، ہم اس تعصب کا ستر برس سے شکار چلے آرہے ہیں، کیا اس سے پہلے کسی کو بھی اس فورتھ شیڈول کی خلاف ورزی پر ایسی سزا سنائی گئی ہے؟ یہ سپیشل کورٹ برائے انسداد دہشت گردی کی اہلیت اور اس کو کنٹرول کرنے والے ہاتھوں کا کمال ہے کہ ایسا ممکن ہوا، بدقسمتی سے ضیاء الحق کے مارشل لائی نظام میں اہل تشیع کے خلاف قومی اداروں میں جو ریشہ دوانیاں ہوئیں اور شیعہ دشمنان اہلکار بھرتی ہوئے، اس نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات بھی ایسے ہی متعصب و تنگ نظر اہلکاروں کی بد اعمالیوں کا شاخصانہ ہیں، جو ان اداروں میں مقتدر قوتوں کے طور پہ موجود ہیں۔

آج ہی یوم علی (ع) کی مناسبت سے جلوس و مجالس کا انعقاد جاری ہے اور کئی ایک شہروں میں پرچے کاٹنے کی خبریں زینت بن رہی ہیں، کرونا کا بہانہ کرکے بانیان جلوس و مجالس اور انتظامی انجمنوں کے عہدیداران پر ایف آئی آرز کاٹی جا رہی ہیں، ایسی ایک ایف آئی آر اسلام آباد میں مجسٹریٹ کی مدعیت میں کاٹی گئی ہے، جس سے اس تعصب کی بو جھلک رہی ہے، جس کا رونا ہم کئی برسوں سے روتے آرہے ہیں۔ جس ملک میں تعصب، تنگ نظری، دوہرے معیار جیسی مہلک بیماریاں ستر برس سے موجود ہوں، وہاں کرونا جیسی وبا کیا بگاڑ سکتی ہے۔ تعصب جیسی مہلک اور خطرناک بیماری ہمارے ملک کی بنیادوں کو برس ہا برس سے کھوکھلا کرچکی ہے، اسے دیمک کی طرح چاٹ گئی ہے، اب تو یہ کھوکھلے ڈھانچے کی شکل میں دکھتا ہے۔ امیر المومنین علی (ع) کی شہادت کے سلسلے میں منعقد ہونے والی مجالس و جلوسوں پر پابندی لگانے کا اعلان کرنا اسی متعصب و متعفن سوچ کی عکاسی کہی جا سکتی ہے، ورنہ وزیر موصوف نے ہی لوگوں کو ہانکتے ہوئے بازاروں میں شاپنگ کرنے کیلئے بھیجا، جس کے بعد بازاروں میں شاپنگ کرتے لوگوں نے کرونا کو روند ڈالا، مگر ان پر کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔

جب مقتدر قوتیں کسی حکمران سے جان چھڑوانا چاہتی ہوں تو ان سے مسلسل غلط فیصلے کرواتے ہیں اور ایسے اقدامات کرواتے ہیں کہ فائل ذرا بھاری بن جائے، لہذا کچھ عرصہ سے پی ٹی آئی کی حکومت بھی ایسے ہی اقدامات اور فیصلوں میں پیش پیش دکھائی دے رہی ہے، جو اس بات کی طرف سگنل سمجھے جا رہے ہیں کہ ان کو لانے والے شائد ان سے تنگ پڑ گئے ہیں، ضمنی الیکشنز میں مسلسل حکمران جماعت کی شکستوں سے بھی یہی سمجھا جا رہا تھا، جہانگیر ترین گروپ کی لٹکتی تلوار بھی حکومت کی کشتی میں ہوئے سوراخ کی علامت سمجھے جا رہے ہیں، ایسے میں ہم حکمرانوں سے یہی کہیں گے کہ ہوش کے ناخن لیں اور ملت تشیع کو ان ایف آئی آرز اور پرچوں میں الجھا کر خود کسی بڑی مصیبت میں نہ پھنسے اس لئے کہ ہم تو یہ سہہ لیں گے، ہم تو ستر برس سے سہتے آرہے ہیں، حکومت شائد کوئی بڑا دھچکا برداشت نہ کرسکے، آپ کو پھر عوام کے پاس جانا ہوگا۔

ملت کے قائدین اور ذمہ داران بھی اب اس حکومت سے زیادہ توقعات نہ رکھیں اور ملت کی شیرازہ بندی کیلئے عملی اقدامات کریں، آگے بڑھیں، اتحاد و وحدت اور ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے مجموعی اور قومی سطح کے اہم امور اور مسائل کے حل کیلئے سامنے آئیں اور اپنے اپنے حصے کا کام کریں، اگر آپ متحد و یکجان ہونگے تو پھر کسی کو ہم پہ جنگل کا قانون مسلط کرنے کی جرات نہیں ہوگی، دس پندرہ منٹ جلوس کی تاخیر پر ایف آئی آر کاٹنے کی ہمت نہیں ہوگی، ہماری ملت کے کسی فرد کو فورتھ شیڈول کے بہانے سے پاکستان ڈے پریڈ میں پاکستان کا پرچم  لہرانے کے جرم پرچے کاٹنے اور عدلیہ کو اس جرم پہ سزا دینے کی ہمت نہیں ہوگی، اس ملک کی بنیادوں میں ہمارا خون شامل ہے، کسی کی مجال نہیں ہونی چاہیئے کہ وہ ہماری قیام پاکستان و استحکام پاکستان کیلئے قربانیوں کو پس پشت ڈال کر ہمیں ملک دشمن بنانے کی سازش پر عمل پیرا ہوسکے۔ ورنہ اقبال نے تو کہا تھا کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
خبر کا کوڈ : 930608
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش