7
Friday 7 May 2021 01:03

قدس کی آزادی اتنی قریب پہلے کب تھی!؟

قدس کی آزادی اتنی قریب پہلے کب تھی!؟
تحریر: محمد سلمان مہدی

کیا مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کی آزادی پہلے اتنی قریب تھی۔؟ اس سوال کا جواب دینا آج جتنا آسان ہے، پہلے کب تھا!؟ شکر للہ، الحمد اللہ رب العالمین۔ سال 2021ء ماہ رمضان کا آخری جمعہ سات مئی کو ہے۔ امام خامنہ ای کی اپیل پر عالمی یوم القدس منایا جا رہا ہے۔ ایک نظر ماضی پر دوڑائیں کہ جب امام خمینی ؒ نے عالمی یوم القدس منانے کی روایت کا آغاز کیا تھا، تب عالمی سیاسی منظر نامہ اتنا زیادہ واضح تھا!؟ چلیے پوچھیں کہ مقبوضہ یروشلم (القدس) کی آزادی پہلے اتنی قریب تھی!؟ جواب جاننے کے لیے مزید سوالات کے جواب دیتے جائیں اور جان لیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے کتنا فاصلہ کامیابی سے طے کیا جاچکا۔ پہلے کب منافق اور خائن اس طرح کھل کر سامنے آئے تھے!؟ پہلے کب اسرائیل کے نیوکلیئر ری ایکٹر کے قریب ایک میزائل یوں گرا تھا!؟ پہلے کب فلسطین کی مقدس سرزمین اور بیت المقدس پر قابض و غاصب اسرائیل کا آئرن ڈوم میزائل نظام یوں ناکام ہوا تھا۔ پہلے کب اس طرح مقاومت اسلامی کے راکٹ آئرن ڈوم کا بت پاش پاش کرکے سالم وجود کے ساتھ اہداف کی طرف بلا رکاوٹ برسے تھے!؟

مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کتنی قریب ہے!؟ امریکی زایونسٹ ڈیپ اسٹیٹ کی حقیقت جاننے والے کسی بھی باشعور شخص نے کبھی سوچا بھی تھا کہ کہ یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کا زایونسٹ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے یہودی داماد اور اسرائیل کے لیے بے مثال خدمات انجام دینے کے بعد بھی یوں ذلیل و رسوا ہوکر وائٹ ہاؤس خالی کرنے پر مجبور ہوگا!؟ ڈیپ اسٹیٹ اور نسل پرست یہودیوں کی بین الاقوامی لابی کے 1990ء کے عشرے سے لاڈلے نیتن یاہو کو اسرائیل کا وزیراعظم بنانے سے اس طرح گریز کیا جائے گا، کیا کسی نے سوچا بھی تھا!؟ متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان سے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کروانے جیسا کارنامہ انجام دینے والے ٹرمپ اور نیتن یاہو کو بھی اثاثہ کی بجائے بوجھ سمجھ کر جان چھڑالی جائے گی!؟ کیا یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کی کسی بھی حکومت سے متعلق یہ سوچا بھی جاسکتا تھا کہ وہ موساد جیسے ادارے کے سربراہ سے اپنے تعلق کو چھپانے کی کوشش کرنے پر مجبور ہوگی!؟ لیکن اسرائیلی موساد کے سربراہ یوسی کوہن کے دورہ امریکا کے دوران ایک اجلاس میں امریکی صدر جوزف بائیڈن کی شرکت کو دنیا کے سامنے یوں ظاہر کرنے کی امریکی حکومتی کوشش کہ وہ اتفاق سے اس جگہ سے گذر رہے تھے تو لاگ با عمر کی بھگڈر میں مرنے والے یہودیوں کی تعزیت کا اظہار کرنے کے لیے یوسی کوہن سے تھوڑی دیر کے لیے ملے! اس سے زیادہ تذلیل اور کیا ہوگی!؟ پھر اسرائیلی میڈیا کا ڈیمیج کنٹرول کرنا کہ اس ملاقات کو ایک گھنٹے کی باقاعدہ ملاقات بیان کرنا، یہ سب کیا ظاہر کرتا ہے!؟

یہ سوال دہرائیں کہ مقبوضہ القدس کی آزادی اب کتنی قریب ہے!؟ پھر یہ سوچیں کہ بحرین جیسا چھوٹا سا جزیرہ نما ملک کہ جہاں آل خلیفہ کی چنی منی بادشاہت کی بقاء کا دارومدار سعودی عرب کی مدد اور حمایت پر ہے، وہ جب اسرائیل کو تسلیم کرچکے تو سعودی بادشاہت کیوں تسلیم کرنے سے ڈرر ہی ہے!؟ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ جب ایم بی زیڈ کا متحدہ عرب امارات اسرائیل کو تسلیم کرچکا تو اس کے جگری دوست ایم بی ایس کا سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے سے اب کیوں خوفزدہ ہے! اسلامی اور عرب مفادات پر شام اور یمن میں حملہ آور، جارح سعودی عرب اور اس کے اتحادی اب ایران، عراق اور شام سے انٹیلی جنس سطح قیادت کی اعلیٰ سطحی ملاقاتوں اور اجلاسوں کے انعقاد پر کیوں مجبور ہوئے ہیں!؟ سال 2018ء میں دی اٹلانٹک جریدے کو انٹرویو میں فلسطین پر نسل پرست یہودیوں کے ناجائز قبضے کو یہودیوں کو حق قرار دینے والا سعودی ولی عہد سلطنت ایم بی ایس آج کیوں پریشان ہے۔ کیا صرف مآرب میں شکست کی وجہ سے!؟ یا پھر پورے خطے میں اور پوری دنیا میں امریکی زایونسٹ عربی غربی بلاک کی ذلت و رسوائی کی وجہ سے!؟ بات چل نکلی ہے تو بہت دور تک جائے گی!

مقبوضہ القدس کی آزادی دشمنوں کو، خائنوں کو، غداروں کو اور منافقین کو مجھ سے آپ سے زیادہ واضح دکھائی دے رہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک طرف مذاکرات کا ناٹک کرکے دوسری طرف تکفیری دہشت گردی کو از سرنو افغانستان تا یمن زندہ نہ کیا جا رہا ہوتا۔ یکایک القاعدہ کا نیا جنم نہ ہوتا اور جنم بھی ایسا کہ امریکی نشریاتی ادارے سی این این تک ان کی باآسانی رسائی بھی ہوگئی! نہ صرف اتنا بلکہ سی این این نے القاعدہ کا موقف بھی نشر کردیا! شام سے تکفیری دہشت گردوں کو یمن کی سمندری پٹی پر منتقل کرنا بتا رہا ہے کہ عالم اسلام و عرب کے خائنوں، غداروں اور منافقین کو اپنی شکست بہت سامنے نظر آرہی ہے۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات ہے۔ وہ اب بھی ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ وہ بھول رہے ہیں کہ ام المومنین جناب سیدہ بی بی خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کے روحانی بیٹوں نے قول شرف دیا تھا کہ اب نہ نکبہ ہوگا اور نہ ہی نکسہ ہوگا۔ مقبوضہ بیت المقدس کے شیخ الجراح کے مظلوم فلسطینی اس وقت یہودی نسل پرستوں کی جانب سے ان کی جبری بے دخلی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ کہاں ہے عالم اسلام و عرب کا خود ساختہ چوہدری سعودی عرب اور اس کا بادشاہ سلمان اور اس کا ولی عہد بیٹا ایم بی ایس!؟

اسرائیل کے عبرانی ٹی وی چینل 11 (کے اے این) نے خبر نشر کی ہے کہ موساد کا سربراہ یوسی کوہن بحرین کے دورے پر وہاں پہنچ چکا ہے! یقیناً یوسی کوہن کو اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب نے ایران اور شام سے کیا بات چیت کی ہے۔ شام کے علاقے اللاذقیہ و طرطوس اور قنیطرہ پر میزائل حملے کرنے کے بعد اسرائیلی حکام شاید یہ سوچ رہے ہوں کہ اس طرح ان کی بالادستی کا بھرم بحال ہوچکا ہوگا۔ لیکن یوسی کوہن کو چاہیئے تھا کہ ایشکول کی خبر بھی لے لیتے۔ اسرائیل کے حق میں متحدہ عرب امارات میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس دنیا پر کوئی مثبت اثر قائم کرنے میں ناکام رہی ہے، لیکن نسل پرستی کے خلاف ڈربن کانفرنس نے امریکا اور اسرائیل کو ابھی سے پریشان کر رکھا ہے۔ یوسی کوہن اپنی نوکری کے بچے کچھے شب و روز میں مزید ناکامیوں کو سمیٹنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہیں۔ بحرین میں خائن عرب حکام سے اپ ڈیٹ لینے کی بجائے موساد کے سربراہ کو اسرائیل کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق اپ ڈیٹ رہنے کی ضرورت تھی۔

اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ دی ہے کہ خاکستر کر دینے والے مواد سے بھرے فلسطینی غباروں کی وجہ سے ایشکول میں کم سے کم 6 مقامات پر آگ لگ چکی تھی۔ دوسری طرف مقبوضہ القدس کے شیخ الجراح محلہ کے مظلوم فلسطینی اپنی آبائی سرزمین پر اپنے رہنے کے حق کے دفاع میں اسرائیلی اہلکاروں اور انتہاء پسند نسل پرست یہودیوں کے سامنے دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ یہ انتفاضہ تحریک کا نیا مرحلہ ہے۔ اب دنیا بھر میں باضمیر انسانوں کی جانب سے نسل پرست یہودیت کے پیروکاروں کے جھوٹ، ظلم و تشدد کی مذمت بھی رپورٹ ہو رہی ہے۔ خطے کے حالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے عشروں سے جاری یہ تحریک اور یہ مقاومت اسلامی اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔ بین الاقوامی جرائم کی عدالت اسرائیل پر جنگی جرائم کے مقدمات چلائے نہ چلائے، لیکن فلسطینی اپنے مجرموں کو ہرگز معاف نہیں کریں گے۔ عالم اسلام و عالم عرب قبلہ اول القدس اور مسجد الاقصیٰ سمیت پورے بیت المقدس پر ناجائز قبضہ کرنے والے اسرائیل کی نابودی سے کم پر ہرگز آمادہ نہیں۔

سال 1967ء سے پورے بیت المقدس پر اسرائیل کا مکمل قبضہ ہے۔ اس سے قبل محض مغربی حصے پر قبضہ تھا۔ اس مکمل ناجائز قبضے کی یاد میں تب سے اسرائیل سرکاری طور پر یروشلم ڈے یعنی یوم یروشلم مناتا آرہا ہے۔ او آئی سی اپنی جگہ موجود تھی۔ عرب لیگ اپنی جگہ موجود تھی۔ حتیٰ کہ خلیج فارس کے کنارے واقع عرب جزائر نما ممالک کے حکمرانوں نے جی سی سی بھی بنالی۔ لیکن پوری دنیا میں واحد حکمران انقلابی اسلامی ایران کے امام خمینی ؒ تھے جنہوں نے اسرائیل کے یروشلم ڈے کے مقابلے پر عالمی یوم القدس منانے کی روایت قائم کی! یقیناً انقلابی اسلامی ایران کو اور شیعہ اسلام کے پیروکاروں کو ان کی فلسطین دوستی کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ لیکن تکفیری ناصبی فتووں اور خائنوں، غداروں اور منافقین کے کذب و افتراء کے باوجود بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے ان کے عزم و ارادے اور وفاداری میں کوئی تبدیلی وقوع پذیر نہ ہوسکی۔

دنیا بھر میں موجود ناصبی، تکفیری، یزیدی، خائن، غدار اور منافق نے انقلابی اسلامی ایران اور شیعہ اسلام کے پیروکار اثناء عشری شیعوں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا جاری رکھا۔ شیعہ نسل کشی بھی کرکے دیکھ لی۔ لیکن مسجد اقصیٰ القدس سمیت پورے فلسطین کی آزادی کے لیے جس ایک ملک کے ریاستی عسکری ادارے پاسداران انقلاب اسلامی کی شاخ قدس فورس نے مسلح مقاومت کی عملی مدد اور حمایت کی وہ فقط اور فقط ایران ہے اور ایران کے بعد شام اور اب عراق وہ ملک ہیں جنہوں نے یہ کارنامہ انجام دے کر بیت المقدس کی آزادی کو اتنا قریب کر دکھایا۔ امام خامنہ ای صاحب اور ان کے جاں نثاروں کو اللہ سلامت رکھے۔ فلسطین کے غیرت مند بیٹوں نے بلا تفریق اس حقیقت کا اعتراف کیا اور جب حاج قاسم سلیمانی کو امریکی افواج نے غیر قانونی حملے میں شہید کیا تو یہ فلسطینی تھے، جنہوں نے قدس فورس کے جنرل قاسم سلیمانی کو رسمی طور پر شہید القدس قرار دیا۔

عالم اسلام و عرب کے غیرت مند بیٹے سید جعفر ابو مھدی المھندس بھی کسی طور پیچھے نہ رہے بلکہ انہوں نے بھی القدس کی آزادی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ حتیٰ کہ قدس فورس کے حاج قاسم سلیمانی کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ آج اگر عراق تا فلسطین و لبنان اہل سنت سنی مفتی اور علمائے کرام عالمی یوم القدس کے موقع پر خصوصی بیانات جاری کر رہے ہیں تو وہ اس ضمن میں ایران اور قدس فورس کے ممنون بھی ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ اسرائیل کے ڈرون طیاروں کا مار گرایا جانا، غزہ کے راکٹ اور غباروں کا اسرائیل کے اندر گرنا اور ایک میزائل کا ڈیمونا میں گرنا، یہ سب اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل کی نابودی اب دور نہیں ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کی نابودی دور نہیں تو اس کا از خود مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب فلسطین اور خاص طور پر بیت المقدس کی آزادی کا وقت بھی بہت قریب آچکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 931202
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش