0
Friday 7 May 2021 19:07

عمران خان کا سعودی عرب کا دورہ

عمران خان کا سعودی عرب کا دورہ
تحریر: تنویر حیدر سید

حدیثِ رسول ہے کہ "انسان کا انجام اس کے دوستوں کے ساتھ ہوتا ہے۔" بین الاقوامی تعلقات میں بھی کوئی ملک جس ملک سے اپنے مفادات وابستہ کرتا ہے اور اپنی دوستی بڑھاتا ہے، عالمی سیاست کے بحرِ اعظم میں اس ملک کی کشتی کا ہی سوار مانا جاتا ہے۔ آج کی طوفانی سیاست میں کوئی ملک ایک وقت میں دو مختلف اطراف میں بہنے والی کشتیوں کا سوار نہیں بن سکتا۔ دو مختلف سیاسی نظریات اور مفادات رکھنے والے ممالک سے تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے آپ اس وقت غیر جانبدار کہلوا سکتے ہیں، جب آپ ان کے ساتھ اپنے تعلقات ماپنے کا ایک سا پیمانہ استعمال کرتے ہیں اور ان کی سمت برابر کا جھکاؤ رکھتے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے حوالے سے ہم اپنی غیر جانبداری کا دعویٰ اس وقت کرسکتے ہیں، جب ان دونوں ممالک سے ہمارے تعلقات کی نوعیت بالکل ایک جیسی ہو۔

ہمارے حکمران اپنے باہمی تعلقات کے ضمن میں ایران کو اپنا ہمسایہ اور سعودی عرب کو اپنا دوست ملک کہتے ہیں (عمران خان صاحب نے اپنے تازہ بیان میں بھی یہی جملہ کہا ہے)۔ گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری جغرافیائی سرحدیں تو ایران سے ملتی ہیں لیکن ہمارے دل سعودی عرب سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں جب ہم ان دونوں ممالک سے برابر کی سطح کے تعلقات رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو گویا ہم ناپ تول میں ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اس طرح ہم کسی کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔ آج ہمارے آرمی چیف اور وزیراعظم ایسے وقت میں سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں، جب اسرائیل، انڈیا اور سعودی عرب میدانِ عمل میں شانے سے شانہ ملا کر کھڑے ہیں۔ زمینی حقائق کے مطابق آج جو سعودی عرب کے جس قدر قریب ہوگا، وہ بلاواسطہ طور پر اسرائیل کا اتحادی ہوگا، اس کے ہاتھ اہلِ یمن کی طرح کے مظلوموں کے خون سے رنگے ہوں گے اور بالآخر اس کا انجام رسول اللہ کے فرمان کے مطابق اپنے اسی دیرینہ دوست کے ساتھ ہی ہوگا۔

ہمیں یہ خبر ہونی چاہیئے کہ آلِ سعود کے درمیان اس وقت اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ یمن کی جنگ میں سعودی عرب کی پے در پے ناکامیوں نے بن سلمان کے اقتدا کو مزید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اگر محلاتی سازشوں کے نتیجے میں سعودی عرب میں کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچے گا۔ محمد بن سلمان کے مقابل جو بھی تخت نشین ہوگا، وہ پاکستانی پردھان منتریوں کے خلاف بھی کوئی اچھے جذبات نہیں رکھتا ہوگا۔ خدا نہ کرے کہ ایسے پیش آمدہ حالات میں بن سلمان کے اقتدار کی حفاظت پر مامور ہر دم تیار پاسبانوں کا انجام بھی جمال خشوگچی کے انجام کی طرح ہو۔ البتہ اگر پاکستان سعودی عرب کو اسرائیل کے چنگل سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے اور اس میں کامیاب ہوتا ہے تو یہ آج کے حالات میں اسلام کی سب سے بڑی خدمت ہوگی اور اس کارنامے پر تمام عالمِ اسلام جنرل باجوہ اور عمران خان کے ہاتھ چومے گا۔ کشتیاں دو ہیں۔ ہمیں اب تعین کرنا ہے کہ ہمیں کس ساحل پر اترنا ہے اور کس کشتی میں سوار ہونا ہے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین۔                     
خبر کا کوڈ : 931333
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش