0
Friday 7 May 2021 10:22

عالمی نہضت آزادی قدس اور مدافعین حرم کا کردار

عالمی نہضت آزادی قدس اور مدافعین حرم کا کردار
تحریر: سویرا بتول 

جمعۃ الوداع کی اہمیت سب جانتے ہیں اور اس کا پہلا محرک یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلامﷺ اِس جمعہ کو بہت اہتمام کیا کرتے تھے اور اس کی تاکید بھی فرماتے تھے۔ دوسری جو اہم مناسبت ہے، وہ یہ ہے کہ امام خمینی نے ماہِ صیام کے اس آخری جمعہ کو "یوم القدس یعنی آزادی قدس" کے عنوان سے موسوم کیا ہے اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اس دن کو قدس کے نام سے برپا کریں۔ یوم القدس صرف فلسطین سے مخصوص نہیں ہے، یہ اسلام کا دن ہے۔ بہت سارے اسلامی ممالک ایسے ہیں، جن میں لوگوں کو خبر بھی نہیں ہے کہ یہ کونسا دن ہے اور اِس کو کیوں برگزار کیا جاتا ہے؟ بلکہ اس کے بارے میں شبہات بھی رکھتے ہیں، مثلاً عام مسلمان سوچتے ہیں کہ ہم کیوں جمعۃ الوداع کو روزِ قدس، روزِ آزادی فلسطین، روزِ آزادی قبلہ اول کے طور پر برپا کریں۔؟ اس موضوع کی تفسیر و تبیین یعنی اس کی نظریاتی بنیادوں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کس پسِ منظر کے تحت امام خمینی نے روزِ قدس کو بعنوانِ یوم اللہ قرار دیا؟ تمام مسلمانوں سے توقع بھی نہیں ہے کہ وہ اتنی بصیرت کے ساتھ ایسے امور کو درک کر پائیں، جو کہ ایک طبعی بات ہے۔

جہانِ اسلام میں بصیرت بہت ہی کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طویل عرصہ سے مسلمانوں کو سیاسی دین سے دور کرکے خانقاہی اور صوفیانہ دین کی طرف مائل کیا گیا، یعنی دین کو ایسا بنا کر پیش کیا گیا، جس کا سیاسی امور میں کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ سیاسی امور کو ایک طرح کی بے دینی تصور کیا گیا۔ آج بھی ایسی شخصیات دیکھنے کو ملتی ہیں، جو سیاسی امور میں مداخلت کرنا خلاف ِ تقویٰ سمجھتی ہیں۔ کیا ستم ہے کہ مسجد کا محراب جسے حرب کی جگہ قرار دیا گیا، اُسی اسلام کے نام لیوا خود کو سیاسی امور میں مداخلت سے دور رکھیں۔ اس فکر نے یعنی دین کو سیاست سے جدا کرنے نے اسلام کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، اتنا دشمنانِ اسلام نے بھی نہیں پہنچایا۔ اسی وجہ سے سیاسی دین کی بصیرت عوام، علماء اور خواص میں پیدا ہی نہیں ہوئی، جس کے نتائج جہانِ اسلام کے لیے تباہ کن نکلے اور اُس کی ایک عملی تصویر سالوں سے جاری فلسطین کی آزادی کی کوششوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔

راہ خدا میں قیام کا نام دین ہے۔ قیام کرنے اور کروانے کو نہضت کہتے ہیں۔ خداوند تعالیٰ نے امام خمینی کو جو صلاحیت دی تھی کہ جو قوم جمود کی حالت میں تھی، اُس کے اندر تحرک پیدا کیا اور اسی کام کو نہضت کہتے ہیں۔ نہض اٹھانے کو کہتے ہیں اور نہضت یعنی اٹھانا۔ کسی قوم کو مقصد کے حصول کے لیے قیام کرانے کو نہضت کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ایسی بہت ساری آیات ہیں، جن میں طاغوتوں، ظالموں اور غاصبوں کے خلاف قیام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے امام خمینی فرمایا کرتے تھے کہ اسلام مذہبِ قیام ہے۔ قیام سے مراد کسی مقصد کے لیے نکلنا، اٹھنا اور تحرک اور حرکت کرنا ہے۔ جو شخص مسلمین کے امور سے لاتعلق رہتا ہے، وہ مسلمان ہی نہیں بلکہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ رسولِ خداﷺ کی معروف حدیث ہے کہ:*من اصبح لایتھم بامور المسلمین فلیس بمسلم* "اگر کوئی مسلمان ایک دن گزارے اور اس دن مسلمانوں کے امور سے متعلق کوئی اہتمام نہ کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے۔"ایک اورحدیث میں فرمایا: من سمع عیال المسلمین۔۔۔۔۔ "اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مدد کے لیے فریاد سنے اور اس کی آواز پر لبیک نہ کہے تو وہ اسلام سے باہر ہے۔"

مسئلہ قدس کے اندر اتنی صلاحیت موجود ہے، لہذا اسے جہان اسلام کے لیے ایک عالمی نہضت قرار دیا گیا، کیونکہ قدس امتِ مسلمہ کے لیے ایک دینی اور خالصتاً اسلامی موضوع ہے اور یوم القدس کا تعلق فقط آزدی فلسطین کے ساتھ نہیں بلکہ یہ مسئلہ اہداف کے لحاظ سے پوری دنیائے اسلام کی حد تک وسیع ہے۔ یعنی شروع میں فلسطین، قدس اور مسجد اقصیٰ محرک ہیں، لیکن اس کا غایت و ہدف بہت وسیع ہے، یعنی یہ نہضت صرف فلسطین کو اسرائیل کے ناپاک وجود سے آزاد کروانے تک محدود نہیں بلکہ تمام اسلامی ممالک کو ہر اُس طاقت سے آزاد کرانے کے لیے ہے، جو اس پر غالب اور مسلط ہے۔ آج ہر اسلامی سرزمین بلآخر کسی نہ کسی طرح کسی بیرونی یا اندرونی شیطانی طاقت کے چنگل میں گرفتار ہے۔ اسی طرح عرب سرزمینیں جتنی بھی ہیں، یہ مغربی مہروں کے اختیار میں  ہیں اور ان سرزمینوں کو بھی آزاد کروانا ہے۔

کیسے ممکن ہے کہ قدس کا تذکرہ ہو شہید قدس اور مدافعین حرم کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ آج جو ہم باآسانی "قدس قریب است" کے نعرے بلند ہوتے سن رہے ہیں، یہ شہید حاج قاسم سلیمانی اور مدافعین حرم کے مرہون منت ہیں۔ جنرل سلیمانی نے فلسطین اور تحریک مزاحمت کو عروج تک پہنچایا، اس کو مقتدر اور طاقتور بنایا اور اپنے آپ کو فلسطین اور فلسطینی عوام کی خاطر قربان کر دیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے شہید کے جنازے پہ حاضر ہو کر کہا: *شہید سلیمانی شہید قدس ہیں؛ شہید قدس ہیں، شہید قدس ہیں* آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ قدس کی ریلی میں جانے سے کیا ہوگا۔؟ کیا ہمارے جانے سے  فلسطین آزاد ہو جائے گا؟ ایسے تمام لوگوں کے لیے مدافعانِ حرم شہید ساجد کی داستان قابل مطالعہ ہے، جو زینبیون کے سب سے کم عمر شہید تھے۔

شہید ساجد فرسٹ ائیر کے طالب علم تھے، جب اُنہیں معلوم ہوا کہ نواسی رسول کو ایک بار پھر اسیر کر لیا گیا ہے، آپ اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہوئے سیدہ زینب سلام علہیا کے حرم کی حفاظت پر گئے۔ آپ نے فقط حرمِ سیدہؑ کی حفاظت تک خود کو محدود نہ کیا بلکہ واپس آکر قدس کی ریلیوں میں شرکت کے لیے انتظامی امور میں بھی پیش پیش رہے۔ جب شہید کی والدہ نے شکوہ کرنا چاہا کہ آپ ابھی سوریا سے لوٹے ہیں، ریلی میں نہ جائیں تو بی بی زینبؑ کے اس حقیقی سپاہی نے کیا خوبصورت جملہ کہا کہ *فقط دفاع سوریا میں نہیں ہے، بلکہ جہاں جہاں مظلومین ہیں، چاہے وہ شام میں ہوں، فلسطین میں ہوں، یمن میں ہوں یا پاکستان میں، اُن سب کی حمایت اور اُن کا دفاع واجب ہے۔* مدافعین حرم کے اس کم عمر شہید کا جملہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے، جو بلاوجہ کی عذر خواہی کرتے ہیں۔ مدافعین حرم اور شہید قدس نے اپنا فریضہ ادا کیا اور آج وہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ کاش ہم اپنی ذمہ داریوں سے نہ بھاگے ہوتے۔ اپنے ذاتی اختلافات کو مکتب پر قربان کر دیتے تو شاید بیت اول کی آزادی میں جاری سالوں کی یہ کوششیں جلد رنگ لے آتیں۔
خبر کا کوڈ : 931335
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش