QR CodeQR Code

شہید خرم ذکی

8 May 2021 04:45

اسلام ٹائمز: شہید خرم ذکی کی مظلومیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ شہید کے قتل کیس کی فائل محض تین ماہ بعد سرد خانے میں پھینک دی گئی۔ شکوہ غیروں سے نہیں اپنوں سے ہے، ہم نے شہید کے خون کا قصاص طلب کیوں نہ کیا؟ ہماری ذمہ داری تھی کہ شہید کے افکار و نظریات کو عام کرتے، ہم نے بروقت عملی اقدامات کیوں نہ کیے؟ اور آج بھی شہید کی تصویر کے ساتھ سلام بر خرم ذکی لکھ کر کیا واقعی اپنا حقیقی فریضہ انجام دے رہے ہیں؟ کیا شہید کا حق فقط اتنا ہے کہ اُنکی تصویر کیساتھ چند اشعار لکھ کر خود کو نظریاتی ثابت کرکے تہ دامن ہو جائیں۔؟


تحریر: سویرا بتول

شخصیت جس قدر بلند ہو، اُس پر قلم اٹھاتے ہوئے اُتنا ہی سوچنا پڑتا ہے۔ شہید خرم ذکی کو ہم سے بچھڑے آج پورے پانچ برس بیت گئے۔ شہید کے کارناموں کو ایک ہی تحریر میں قلمبند کرنا گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تاریخ صرف اُن افراد کی عظمت کو سلام کرتی ہے، جو اپنے کردار اور عمل کی عظمت سے تاریخ کو عظیم بناتے ہیں اور انسانی فکر صرف اُن ذہنوں کی چوکھٹ پر سجدہ تعظیمی کا فرض انجام دیتی ہے، جو فکر سے انسان کی ذہنیت کو معراج عطا کرتے ہیں۔ کسی انسان کی ذات جب کائنات پر محیط ہونے کا اٹل ارادہ کرتی ہے تو گردشِ لیل و نہار کی رگوں میں گونجتا گرجتا لہو برف بن جاتا ہے، وقت کی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں اور تاریخ کی سماعت کا گنبد اپنے آپ لرزنے لگتا ہے۔ شہید کا شمار بھی اُنہی لوگوں میں ہوتا تھا، جو پرواز کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ ہم جیسوں کی طرح خود کو نام نہاد مصلحتوں کے تابع نہیں کرتے بلکہ خاموشی سے اپنا فریضہ انجام دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرتے ہیں۔

شہید خرم ذکی کا شمار سول سوسائٹی کے رہنماؤں میں ہوتا تھا اور وہ عرصہ دراز تک صحافت کے پیشے سے بھی منسلک رہے، اس کے علاوہ لیٹ اَس بلڈ پاکستان (Let US Build Pakistan) کے سوشل میڈیا پیج کو بھی چلا رہے تھے۔ خرم ذکی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مطابق وہ ایک نجی ٹی وی چینل میں انفوٹینمنٹ اور مذہبی پروگرامات سے بھی منسلک رہے۔ شہید کی شہادت پر نوٹس پہ نوٹس لیے گئے۔ چند مذمتی بیانات کے بعد قتل کیس کی فائل تین ماہ بعد بند کر دی گئی۔ قاتل کون تھے، یہ سب پر عیاں تھا مگر سوال یہ ہے کہ بولے کون؟ جسے ٹارگٹ کیا گیا تھا، اُس کا جرم بہت سنگین تھا۔ اتنا سنگین کہ اُسے موت کے گھاٹ اتار ہی دینا چاہیئے تھا۔ کیا اہلِ بیت اطہار ؑ سے مودت کرنے سے بڑا جرم کوئی ہوسکتا ہے۔؟

وہ جو خود کو نامور سماجی کارکن اور صحافی سمجھتا تھا، Let Us Build Pakistan کے نام سے سوشل میڈیا کمیپئن چلا کر وطنِ عزیز کی ترقی میں کرادر ادا کرنا چاہتا تھا، شاید اسے اپنے جرم کا ادراک نہ تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ وہ ہر پلیٹ فارم پر مظلوم کی حمایت کرے گا اور یزیدِ وقت کو للکارے گا تو اسے شہر کراچی کی سُرخ زمین  بآسانی قبول کر لے گی۔ شہید کے قتل کا خون بہا طلب کرنا ہم پر واجب تھا، مگر افسوس ہم ہمیشہ کی طرح اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتے رہے۔ کاروانِ شہداء آیا اور تیزی سے گزر گیا اور ہم ہمیشہ کی طرح "یا لیتنا معکم" کا ورد کرتے رہ گئے۔ ہم اپنی تاریخ سے خود تعصب کرتے رہے، مگر تاریخ ہمارے تعصب یا بغض و حسد کی دسترس سے ہمیشہ بالا رہی ہے اور یہی تاریخ کی دیانتداری ہے۔ ہم اپنی تاریخ کے صفحے جلا تو سکتے ہیں مگر اس کے سینے میں چھپی سچائیوں کو بھلا نہیں سکتے۔

تاریخ کے سینے میں آج بھی درج ہے کہ سالوں سے ایک مکتب کو ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ پرامن احتجاج کرنے پر بلیک میلر کہا گیا۔ صدیوں سے آلِ رسول سے محبت کرنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ کرائے کے قاتلوں کی فوج کو ہر طرح کی پشت پناہی فراہم کی گئی۔ حسینیت کی سرزمین پر یزید زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ یوم علیؑ کے جلوسوں اور یوم القدس کی ریلیوں پر ایف آئی آرز کاٹی گئیں۔ ہم سے عظیم مفکر، دانشور، ڈاکٹر، ادیب اور سماجی کارکن چھینے گئے، کیونکہ اُن سب کا واحد جرم مودت اہلِ بیت ہے۔ جس طرح دشتِ نینوا میں بغض علیؑ سے تھا اور بدلے اولادِ علیؑ سے لیے گئے، بالکل اُسی طرح اپنے اسلاف کی سنت پر عمل کرتے ہوئے دشمنی آلِ رسول سے ہے اور بدلے محبانِ آلِ رسول سے لیے جا رہے ہیں۔ نجانے ابھی کتنے خرم ذکی اس تعصب اور مذہبی انتہاء پسندوں کی بھینٹ چڑھیں گے۔؟

شہید خرم ذکی کی شخصیت پر سب سے زیادہ جس شخصیت نے لکھا، وہ محمد عامر حسینی ہیں، جن کا تذکرہ نہ کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ آپ نے شہید سے محبت کو ہماری طرح چند لفظی رسمی جملوں تک محدود نہ کیا بلکہ شہید پر لگائے گئے تمام بے بنیاد اعتراضات کو اپنے قلم کے ذریعے رفع کیا۔ یوں کہوں کہ مجھ طفلِ مکتب کو شہید خرم ذکی کی شخصیت سے متعارف کروانے میں عامر حسینی کا ہاتھ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ شہید خرم ذکی کی مظلومیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ شہید کے قتل کیس کی فائل محض تین ماہ بعد سرد خانے میں پھینک دی گئی۔ شکوہ غیروں سے نہیں اپنوں سے ہے، ہم نے شہید کے خون کا قصاص طلب کیوں نہ کیا؟ ہماری ذمہ داری تھی کہ شہید کے افکار و نظریات کو عام کرتے، ہم نے بروقت عملی اقدامات کیوں نہ کیے؟ اور آج بھی شہید کی تصویر کے ساتھ سلام بر خرم ذکی لکھ کر کیا واقعی اپنا حقیقی فریضہ انجام دے رہے ہیں؟ کیا شہید کا حق فقط اتنا ہے کہ اُن کی تصویر کے ساتھ چند اشعار لکھ کر خود کو نظریاتی ثابت کرکے تہ دامن ہو جائیں۔؟
اپنے شہسواروں کو
قتل کرنے والوں سے
خوں بہا طلب کرنا
وارثوں پہ واجب تھا
قاتلوں پہ واجب تھا
خوں بہا ادا کرنا
واجبات کی تکمیل
منصفوں پہ واجب تھی


خبر کا کوڈ: 931416

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/931416/شہید-خرم-ذکی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org