0
Sunday 9 May 2021 00:34

واشنگٹن کی ہٹ دھرمی اور قانون شکنی

واشنگٹن کی ہٹ دھرمی اور قانون شکنی
اداریہ
ایران کے ایٹمی مذاکرات کار سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ امریکیوں کی طرف سے آنے والی خبروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جوہری معاہدے میں واپسی کے بارے میں بھی سنجیدہ ہیں اور پابندیوں کا ایک بڑا حصہ اٹھانے کے لئے بھی تیار ہیں، البتہ ہماری نظر میں یہ کافی نہیں اور جب تک ہم اس سلسلے میں اپنے پیش نظر تمام اور مطلوبہ نتیجے تک نہيں پہنچ جاتے، مذاکرات جاری رہیں گے۔ ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے اعتراف کیا ہے کہ ایران ایٹمی معاہدے کی بحالی کی غرض سے ویانا میں جاری مذاکرات میں پوری طرح سنجیدہ ہے۔ جو بائیڈن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ویانا مذاکرات میں ایران کی سنجیدگی کا اعتراف کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ الگ بات کہ ایران کن اقدامات کی انجام دہی کے لیے تیار ہے۔ در این اثناء امریکی ویب سائٹ ایکسیوس نے لکھا ہے کہ واشنگٹن نے ہر قسم کی پابندیوں کے خاتمے کو ایران کی جانب سے نصب کی جانے والی جدید ترین سینیٹری فیوج مشینوں کے استعمال کو روکنے سے مشروط کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ نے تین سال قبل ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور تمامتر عالمی مخالفت کے باجود سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کے خلاف تمام پابندیاں یک طرفہ طور پر عائد کر دی تھیں۔ اس وقت امریکی صدر جو بائیڈن بھی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اپنائی جانے والی زیادہ سے دباؤ کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں، جبکہ ایران بارہا اعلان کرچکا ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی مکمل واپسی اور تمام پابندیوں کے عملی طور پر ختم ہو جانے کی صورت میں ہی ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدآمد شروع کرے گا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایران بارہا اعلان کرچکا ہے کہ وہ قومی مفادت کے تحفظ کے لیے پوری طرح سنجیدہ ہے۔ دوسری جانب سے یورپی یونین کے نمائندے کا کہنا ہے کہ ویانا مذاکرات کو فوری طور پر نتیجہ خیز بنائے جانے کا احساس دکھائی دے رہا ہے اور انہیں خوشی ہے کہ ایران اور امریکہ بھی اسے محسوس کر رہے ہیں۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں واپسی کا فیصلہ امریکہ کو کرنا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ لکھا ہے کہ میں این بی سی ٹیلی ویژن سے گفتگو میں بھی واضح کرچکا ہوں کہ ایٹمی معاہدے میں واپسی کا فیصلہ سو فی صد امریکہ پر منحصر ہے۔ سعید خطیب زادہ کا کہنا تھا کہ ایٹمی معاہدہ دوبارہ بحال ہوگا، مگر اس صورت میں جب امریکہ اس بارے میں لازمی سیاسی فیصلہ کر لے گا اور اس بات کو سمجھ لے گا کہ جولائی دو ہزار پندرہ والی بارگیننگ کا دور گزر چکا ہے، جب امریکہ نے ایٹمی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ ویانا میں ایران اور چار جمع ایک گروپ کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، جس میں ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جا رہا ہے، تاہم واشنگٹن کی ہٹ دھرمی اور قانون شکنی کی وجہ سے تاحال کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 931579
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش