QR CodeQR Code

امریکی اور عالمی سفارتکاری

9 May 2021 08:53

اسلام ٹائمز: امریکہ کا تین سال قبل معاہدے سے نکلنا ایک ایسی عالمی سفارتی غلطی تھی، جسے سفارتی دنیا میں انتہائی برے الفاظ میں یاد رکھا جائیگا۔ عالمی سفارتی محاذ پر امریکہ نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ عالمی ادارے، سفارتی کوششیں اور مذاکراتی سلسلہ صرف امریکہ مفادات کیلئے قابل قبول ہے، اگر سفارتی کوششوں سے امریکہ مخالف کسی طاقت یا ملک کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہو تو امریکہ اور اسکے حواری یورپی ممالک اسے درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔ اس عالمی معاہدے میں پیش آنیوالے مختلف نشیب و فراز نے سامراجی طاقتوں کی حقیقی ماہیت کو ایک بار پھر آشکار کر دیا ہے۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

عالمی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کو نکلے تین برس مکمل ہوگئے ہیں آٹھ مئی 2018ء کا دن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران اور پانچ جمع ایک کے درمیان ہونے والے عالمی ایٹمی معاہدے سے نکلنے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا اور اس پر تنقید کرتے ہوئے اسے بدترین معاہدے سے تعبیر کیا تھا۔ ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد امریکہ نے تمام تر عالمی مخالفت کے باوجود سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 پس پشت ڈالتے ہوئے ایران کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کرنے کا آغاز کر دیا۔ امریکہ نے اس اقدام سے عالمی معاہدے کے عملی ہونے کے تمام راستے بند کر دیئے۔ ڈونالڈ ٹرامپ کا کہ موقف تھا کہ عالمی معاہدے سے علیحدگی اور زیادہ سے زیادہ دبائو کی پالیسی کی وجہ سے وہ ایران کو اپنے سامنے گھٹںے تیکنے پر مجبور کر دے گا۔ ایسی تناظر میں سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیئو کی طرف سے ایران کے سامنے بارہ شرائط رکھی گئیں کہ جب تک ایران ان شرائط پر عمل درآمد نہیں کرے گا، ایٹمی معاہدے کے لیے نئے سرے سے مذاکرات شروع نہیں کیے جائیں گے۔

امریکی وزیر خارجہ کی ان مضحکہ خیز شرائط میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو بند کرے، میزائل ٹیکنالوجی کو ختم کرنے اور علاقے میں اثرونفوذ ختم کرنے جیسے مطالبات شامل تھے۔ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ زیادہ سے زیادہ پریشر کی پالیسی کے ذریعے ایران کو سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے، لیکن وہ یہ ناکام امید لیکر 20 جنوری 2021ء کے دن وائٹ ہائوس سے بے آبرو ہو کر امریکی اقتدار سے الگ کر دیئے گے۔ ڈونالڈ ٹرامپ کی اس ناکامی کا ان کے دوستوں اور مخالفین سب نے کھلے عام اعتراف کیا۔ ایران کی طرف سے امریکہ کی زیادہ سے زیادہ دبائو کی پالیسی کا استقامت سے مقابلہ کرنا ڈونالڈ ٹرامپ کی ناکامی کا بنیادی سبب بنا۔ عالمی سطح پر بھی امریکی اقدامات کو شکست خوردہ قرار دیا گیا۔ اقوام متحدہ میں روس کے سفیر نے امریکہ کے اس اقدام کو مضحکہ خیز اور بدترین شکست سے تعبیر کیا اور کہا اس اقدام سے عالمی ایٹمی معاہدے کو نقصا پنہچا ہے۔

ڈونالڈ ٹرامپ اور اس کی حکومت کو اس معاہدے سے نکلنے کے بعد داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سخت تنقید کا نشانہ بننا پڑا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ امریکہ کے ڈیموکریٹ سینیٹر کرس معرفی نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ یاد رکھیں امریکہ کو ٹرامپ کی عائد کردہ پابندیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ایران کے خلاف ان پابندیوں کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوا۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اپنی انتخابی مہم مین ڈونالڈ ٹرامپ کی عالمی معاہدے سے علیحدگی کو ایک بڑی غلطی سے تعبیر کیا تھا اور اسے امریکہ کے قومی مفاد کے منافی قرار دیا تھا، جو بائیڈن کے بقول اس اقدام سے امریکہ عالمی سیاست میں تنہا ہوگیا ہے۔ البتہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس اعتراف کے باوجود ابھی تک ڈونالڈ ٹرامپ کی روش کو جاری رکھا ہوا ہے اور زیادہ سے زیادہ دبائو والی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے عالمی معاہدے میں واپس آنے مین لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔

امریکہ کے معروف تجزیہ نگار سیرین سیون (Cirincione) کے بقول جو بائیڈن ابھی تک ڈونالڈ ٹرامپ کی ناکام پالیسی زیادہ سے زیادہ دبائو کی پالیسی پر گامزن ہے اور اگر اس نے یہ سلسلہ جاری رکھا تو یہ اہم عالمی معاہدہ ختم ہوسکتا ہے۔ بہرحال جوبائیڈن کے حالیہ غیر منطقی رویئے کے جواب میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اعلان کیا ہے کہ ایران اس وقت ایٹمی معاہدے کی شقوں پر عمل کرے گا، جب امریکہ تمام تر پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کرے، نیز یہ پابندیاں صرف کاغذ پر ختم نہ ہوں بلکہ عملی میدان میں بھی ختم ہوں اور ایران ان کی جانچ پڑتال اور ان کو پرکھ کر اس کی تصدیق بھی کر دے۔ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کو تین برس مکمل ہونے کے بعد اگر ماضی کے ان تین برسوں کا سرسری جائزہ بھِی لیا جائے تو معمولی عقل و فہم رکھنے والا شخص بھی اس نیتجے پر پہنچے گا کہ امریکہ اور یورپ بلکہ پوری مغربی دنیا نے عالمی سطح پر انجام پانے والے ایک عالمی معاہدے کو اس لیے اہمیت دینے پر تیار نہ ہوئے، کیونکہ اس میں بظاہر ایران کے کچھ مفادات پورے ہو رہے تھے۔

عالمی ایٹمی معاہدے کے رکن ملکوں من جملہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ذرا برابر کوشش نہ کی کہ وہ امریکہ کو اس عالمی معاہدے میں واپس لانے پر راضی کریں۔ تینوں پورپی ممالک ڈونالڈ ٹرامپ کی ڈکٹیشن پر عمل کرتے رہے، یہی وجہ ہے کہ ایران نے سب سے مایوس ہو کر عالمی معاہدے کی شقوں کے اندر رہ کر بعض ایسے اقدامات انجام دیئے، جنہوں نے مغرب کو ایک بار پھر تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ امریکہ کا تین سال قبل معاہدے سے نکلنا ایک ایسی عالمی سفارتی غلطی تھی، جسے سفارتی دنیا میں انتہائی برے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ عالمی سفارتی محاذ پر امریکہ نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ عالمی ادارے، سفارتی کوششیں اور مذاکراتی سلسلہ صرف امریکہ مفادات کے لیے قابل قبول ہے، اگر سفارتی کوششوں سے امریکہ مخالف کسی طاقت یا ملک کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہو تو امریکہ اور اس کے حواری یورپی ممالک اسے درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔

اس عالمی معاہدے میں پیش آنے والے مختلف نشیب و فراز نے سامراجی طاقتوں کی حقیقی ماہیت کو ایک بار پھر آشکار کر دیا ہے۔ سامراجی طاقتیں سفارتی محاذ کو بھی صرف اور صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کو اہمیت دیتی ہیں۔ اگر سفارتی محاذ پر ہونے والی کوششیں سامراجی محاذ اور سامراجی اہداف کے لیے فائدہ مند نہ ہوں تو یہ جنگل کے کے قانون پر آجاتے ہیں اور سفارتی راستے کو اپنانے کی بجائے دھونس، دھمکی اور دھاندلی کے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آج تین برس کے بعد ایران اپنے موقف پر قائم ہے اور اس نے دنیا پر ثابت کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کا آئین و نظریہ منطق، گفتگو اور مذاکرات کا قائل ہے، لیکن وہ ممالک جو بظاہر جمہوریت، ڈائیلاگ اور سفارتکاری کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، حقیقت میں وہ آج بھی ماضی کے کائو بوائے ذہنیت کے مالک ہیں۔


خبر کا کوڈ: 931648

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/931648/امریکی-اور-عالمی-سفارتکاری

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org