QR CodeQR Code

یوم القدس ایک دینی تحریک

9 May 2021 20:32

اسلام ٹائمز: اکتوبر 1937ء میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اب میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، جسکا مسلمانانِ ہند پر گہرا اثر پڑا ہے۔ برطانیہ کی پالیسی شروع سے آخر تک عربوں کو دھوکہ دینے کی رہی ہے۔ برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم کے دوران عربوں سے کیے گئے اُس وعدے کو پورا نہیں کیا، جس میں عربوں کو مکمل آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ عربوں کیساتھ جھوٹے وعدے کرکے برطانیہ نے بدنام زمانہ اعلانِ بالفور کے ذریعے اپنے آپکو عربوں پر مسلط کر دیا اور یہودیوں کیلئے ایک قومی وطن بنانے کی پالیسی کے بعد اب برطانیہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ اگر اسکو نافذ کر دیا گیا تو عربوں کے اپنے وطن میں انکی آرزوؤں اور تمناؤں کا خون ہو جائیگا۔


تحریر: سيد حسين موسوی

علم، تہذیب و تمدن کی ترقی پر ایک نظر:
انسانی تہذیب کا آغاز عراق کی سرزمین نجف سے ہوا اور آخری انسانی تہذیب، جسے مہدویت کہا جاتا ہے، کا مرکز بھی وہی ہوگا۔
1۔ اسی سرزمین بابل سے علوم، تہذیب و تمدن کی ترقی کا آغاز ہوتا ہے۔
2۔ جب بابل کی سرزمیں پر علمی ترقی کا زوال آیا تو پھر مصر کی تہذیب وجود میں آئی، جو فراعنہ کے دور میں علمی ترقی کا مرکز بنی۔ مصر نے بابلی علوم لیے، پھر ان پر اپنی جدید تحقیقات کو آگے بڑھایا اور اضافہ کیا۔
3۔ جب مصر پر زوال آیا تو یونان علوم کا مرکز بنا۔ یونان نے مصری علوم لیے اور اس پر اپنی جدید تحقیقات کا اضافہ کیا۔
4۔ جب یونان میں علوم کا زوال آیا تو مسلمان علمی ترقی کا مرکز بنے۔ مسلمانوں نے یونانی علوم لیے اور ان پر اپنی جدید تحقیقات کا اضافہ کیا۔
5۔ جب مسلمانوں میں علم کا زوال آیا تو قرون وسطیٰ کے اختتام پر یورپ علم کا مرکز بنا۔ یورپ نے مسلمانوں سے علوم لیے اور پھر اس پر اپنی جدید تحقیقات کا اضافہ کیا۔

یورپ اور نسل پرستی
قرون وسطیٰ کے بعد پندرہویں صدی عیسوی میں یورپ میں بیداری کی لہر شروع ہوئی۔ علوم میں تحقیق اور ترقی نے ان کے اندر یہ غلط فہمی پیدا کی کہ سفید نسل باقی انسانوں سے اعلیٰ نسل ہے۔ اس نسل پرستی نے یورپی اقوام میں پوری دنیا پر قبضہ کرنے اور حکومت کرنے کا بھوت سوار کر دیا اور انہوں نے دنیا پر ایک یلغار شروع کی۔ کئی بڑے بڑے ممالک میں انہوں نے اپنی کالونیاں بنائیں اور آہستہ آہستہ وہاں کی مقامی آبادی کو غلام بنانا اور ان پر حاوی ہونا شروع کر دیا۔ جس کے نتائج کچھ اس طرح ہیں:

کینیڈا
کینیڈا رقبے کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ براعظم شمالی امریکا کے بڑے حصے پر محیط ہے۔ بحر اوقیانوس سے لے کر بحر منجمد شمالی تک پھیلا ہوا ہے۔ کینیڈا کی زمینی سرحدیں امریکا کے ساتھ جنوب اور شمال مغرب کی طرف سے ملتی ہیں۔ برطانوی اور فرانسیسی کالونی بننے سے قبل کینیڈا میں قدیم مقامی لوگ رہتے تھے۔ آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کے مطابق شمالی علاقے یوکون میں انسانی موجودگی 26,000 سال پہلے تھی اور جنوبی علاقے اونٹاریو میں 9,500 سال پہلے انسانی آبادی کے آثار ملے ہیں۔ برطانیہ کی طرف سے جان کابوت 1497ء میں اور مارٹن فروبشر 1576ء میں آئے۔ فرانس کی طرف سے جیکوئس کارٹیئر 1534ء میں اور ڈی چیمپلیئن 1603ء میں آئے۔ پہلی باقاعدہ یورپی آبادکاری کا آغاز فرانسیسیوں نے پورٹ رائل میں 1605ء میں اور کیوبیک سٹی میں 1608ء میں کیا۔ برطانوی آبادکاری کا آغاز نیو فاؤنڈ لینڈ میں 1610ء میں ہوا۔ مقامی آبادی پر قابو پانے کے بعد برطانیہ نے اس پر اڑھائی سو سال تک حکومت کی۔

کینیڈا میں بسنے والے یورپین قابضین نے محسوس کیا کہ برطانیہ ان کو بھی غلام تصور کرتا ہے۔ اس لیے قابض یورپین نے برطانیہ کے خلاف جدوجہد کی اور بتدریج آزادی حاصل کی۔ یہ عمل 1867ء سے شروع ہوا اور 1982ء میں مکمل ہوا۔ اس وقت کینیڈا کے اپنے مقامی باشندے اقلیتی نسل یعنی 39.4 فیصد ہیں۔ اس وقت کینیڈا وفاقی آئینی بادشاہی اور پارلیمانی جمہوریت کا مجموعہ ہے اور دس صوبہ جات اور تین ریاستوں پر مشتمل ہے۔ اس وقت کینیڈا میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کی آئینی بادشاہت کا نظام قائم ہے، جو کینیڈا کے سربراہ مملکت کا کام سرانجام دیتی ہیں اور وفاقی طرز کی پارلیمانی جمہوریت کا نظام بھی ہے اور اس کی سیاسی روایات بہت مضبوط ہیں۔

امریکا
12 اکتوبر 1492ء کو کرسٹوفر کولمبس امریکا کے مشرقی ساحل کے قریب بہاماز پہنچا۔ 1607ء میں کیپٹن جان سمتھ تین جہازوں میں 105 سپاہی لے کر ورجینیا کے ساحل پر اترا اور جیمز ٹائون کے نام سے پہلی برطانوی نوآبادی قائم کی اور برطانیہ اس پر قابض ہوگیا۔
• یکم دسمبر 1660ء کو برطانوی پارلیمان نے جہازرانی کا قانون (Navigation Act) پاس کیا، جس میں نوآبادیات کے ساتھ تجارت کو اپنے مفادات کے مطابق ضابطوں کا پابند بنایا گیا۔ 8 ستمبر 1664ء کو برطانوی فوجی دستوں نے نیو نیدرلینڈز پر قبضہ کر لیا۔ 1676ء میں نیتھانیل بیکن (Nathaneil Bacon) نے برطانوی آمریت کے خلاف کسانوں کی بغاوت کی قیادت کی۔ بیکن کا انتقال ہوگیا اور بغاوت ناکام ہوگئی۔ بیکن کے 23 ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
• 6 اپریل 1712ء کو نیویارک میں غلاموں نے بغاوت کر دی۔ باغیوں میں سے 21 قتل کر دیئے گئے، 6 نے خودکشی کر لی، 71 کو ملک بدر کر دیا گیا۔
• 1764ء میں برطانوی حکومت نے شوگر ایکٹ (Sugar Act) نافذ کرکے نوآبادیات میں مختلف خوردنی اشیاءپر ٹیکس لگا دیا۔

• 1765ء میں برطانوی پارلیمینٹ نے اپنی افواج کے اخراجات پورے کرنے کے لیے سٹمپ ایکٹ (Stamp Act) پاس کیا۔ اسی سال 7 اکتوبر کو نوآبادیوں نے نیویارک میں ایک کانگریس بلا کر عوامی حقوق کا اعلامیہ (Declaration of rights) جاری کیا۔
• 1767ء میں چائے اور دیگر کئی اشیاء پر ٹیکس لگا دیا گیا۔
• 1770ء میں برطانوی دستوں نے بوسٹن میں مظاہرہ کرنے والے ایک ہجوم پر گولی چلا دی، پانچ آدمی ہلاک ہوئے۔ جن میں مظاہرین کا لیڈر بھی شامل تھا۔ یہ واقعہ بوسٹن کا قتل عام (Boston massacre) کہلایا۔
• مئی 1773ء میں بوسٹن، نیویارک اور فلاڈلفیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے چائے کے جہاز واپس کر دیئے گئے۔ چائے پر لگائے جانے والے ٹیکس کے خلاف 4 اکتوبر کو چائے کے ایک جہاز کو آگ لگا دی گئی اور 16 دسمبر کو بوسٹن میں چائے کا سٹاک جہازوں سے سمندر میں پھینک دیا گیا۔ یہ واقعہ بوسٹن ٹی پارٹی (Boston tea party) کہلایا۔
• 5 ستمبر 1774ء کو فلاڈلفیا میں پہلی براعظمی کانگریس (First continental congress) منعقد ہوئی، جس میں برطانوی حکومت کے خلاف (Civil disobedience) شہری عدم تعاون کی قرارداد منظور ہوئی۔

• 23 مارچ 1775ء کو ورجینیا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پیٹرک ہنری (Patrick Henry) نے یہ تاریخی الفاظ کہے۔ Give me Liberty or give me Death ”آزادی دو یا موت“
• 1776ء میں 7 جون کو براعظمی کانگریس میں رچرڈ ہنری لی نے قرارداد پیش کی کہ ”ان متحدہ نوآبادیات کو آزاد اور خود مختار رہنے کا حق حاصل ہے۔“
• 2 جولائی کو یہ قرارداد منظور ہوئی اور 4 جولائی کو اعلان خود مختاری (Declaration of Independence) پر دستخط ہوگئے۔
• مارچ 1782ء میں برطانوی کابینہ نے امریکا کی خود مختاری کو تسلیم کر لیا۔
• 1789ء میں جارج واشنگٹن امریکا کے صدر منتخب ہوگئے اور 1796ء میں وہ اس عہدے سے ریٹائر ہوگئے۔
• دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے پوری دنیا پر بلا شرکت غیرے اپنا اقتدار قائم کرنے کی کوشش کی۔
• 1 جنوری 1989ء امام خمینی نے گوربہ چوف کو اسلام کی دعوت دینے کے مقصد سے خط لکھا۔
• اور روس کے ٹوٹنے، 26 دسمبر 1991ء کے بعد امریکا کا خواب یعنی دنیا کی واحد سپر پاور ہونا بھی شرمندہ تعبیر ہوا۔

آسٹریلیا
ابتدائی انسانی آبادکاری کا اندازہ 42000 سے 48000 سال قبل کا لگایا گیا ہے۔ یہ لوگ موجودہ دور کے قدیمی آسٹریلیائی باشندوں ابوریجینکے اجداد تھے، جو جنوب مشرقی ایشیاء سے زمینی راستے سے ادھر پہنچے تھے۔ ان کی اکثریت شکاری اور گلہ بانوں کی تھی۔ آسٹریلیا کا مشاہدہ کرنے والا پہلا غیر متنازع یورپی ہالینڈ کا جہاز راں ولیم جانسزون تھا، جس نے کیپ یارک کے جزیرہ نما کے ساحل کا منظر 1606ء میں دیکھا۔ 17ویں صدی کے دوران ہالینڈ کے باشندوں نے مکمل مغربی اور شمالی ساحلی علاقوں کے نقشے بنائے اور اسے نیو ہالینڈ کا نام دیا، لیکن آبادکاری کی کوئی کوشش نہیں کی۔ 1770ء میں جیمز کُک ادھر پہنچا اور مشرقی ساحل کا نقشہ بنایا اور اسے نیو ساؤتھ ویلز کا نام دیا اور اسے برطانیہ کے نام کیا۔ آسٹریلیا کی مقامی آبادی جس کا اندازہ یورپی لوگوں کی آمد کے وقت 3،50،000 کے قریب لگایا جاتا ہے، 150 سال کے بعد ڈرامائی حد تک کم ہوگئی۔ اس کی وجوہات میں بیماریاں، یورپی لوگوں کی زبردستی آمد اور ثقافتی تفریق تھیں۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں سے ان کے بچے چھیننا بھی ان کی نسل کشی کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان قدیمی باشندوں کی تاریخ میں سیاسی اور نظریاتی مقاصد کے لیے تحاریف بھی کی گئی تھیں۔ آسٹریلوی اسے تاریخی جنگ کا نام دیتے ہیں۔

آسٹریلیا کے قدیم باشندوں (ابوریجین) کو استعماری نظام کے آغاز نے تباہ کر دیا۔ ان کے تاریخ میں کئی قتلِ عام ملتے ہیں۔ آسٹریلیا میں برطانوی استعمار کا آغاز 1788ء میں ہوا۔ اس کا اثر:
1۔ پہلا اثر تو یہ تھا کہ انگریز اپنے ساتھ ایسی بیماریاں لے گئے، جن کے خلاف آسٹریلیا کے قدیم باشندوں میں مدافعت نہیں تھی۔ نتیجتاً ان قدیم باشندوں کی نصف کے قریب آبادی خسرہ اور دیگر بیماریوں کی نذر ہوگئی۔ مگر تاریخ دان اس کو اس قتال کی پردہ پوشی قرار دیتے ہیں، جو برطانوی استعمار نے آسٹریلیا میں اختیار کی۔
2۔ دوسرا بڑا کام جو برطانوی استعمار نے کیا، وہ پانی کے وسائل اور زرخیز زمین پر قبضہ تھا، جس کی وجہ سے آسٹریلیا کے قدیم باشندے ننگ اور بھوک کا شکار ہوگئے۔
3۔ تیسرا طریقہ جو اختیار کیا گیا، وہ یہ تھا کہ انگریز کہتے تھے کہ ہم کنگرو کی جگہ انسانی شکار کرتے ہیں، یعنی قدیم باشندوں کو جانوروں کی طرح شکار کیا گیا، جس میں مرد، عورتیں اور بچے شامل تھے۔
ان کے علاوہ قدیم باشندوں کا اس قدر قتلِ عام کیا گیا کہ بیسویں صدی کے آغاز تک ان کی کل تعداد دو لاکھ سے کم رہ گئی۔

1967ء کے ریفرنڈم کے بعد حکومت نے مقامی لوگوں کو ان کے حقوق دینے شروع کیے، جن میں زمین کا حق ملکیت، آبائی اعزازات وغیرہ کو 1992ء میں جا کر تسلیم کیا گیا۔ اب بھی جو اراضی مقامی لوگوں کے پاس ہے، اسے آسٹریلیا کی حکومت ہتھیانے کی کوشش میں رہتی ہے۔ آسٹریلیا ان سات ممالک میں شامل ہے، جو بیس سال سے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کی مخالفت کرتے رہے ہیں، جس میں اصلی مقامی آبادیوں کے حقوق کا اعلان کیا گیا ہے۔ سونے کی تلاش کے لیے آسٹریلیا میں 1850ء کے اوائل میں دوڑ شروع ہوئی۔ اس کے نتیجے میں چھوٹے پیمانے پر بغاوتیں بھی ہوئیں۔ ویسٹ منسٹر کے 1931ء کے قانون نے آسٹریلیا اور برطانیہ کے آئینی تعلقات کو زیادہ تر ختم کر دیا، جب آسٹریلیا نے اس کو 1942ء میں قبول کیا۔ 1942ء میں ایشیاء میں برطانیہ کی شکست اور پھر جاپان کے حملے کے اندیشے کے باعث آسٹریلیا نے امریکا کو اپنا نیا سرپرست حامی و مددگار بنایا۔ 1951ء سے اب تک آسٹریلیا امریکا کا باقاعدہ فوجی حلیف شمار ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد آسٹریلیا نے یورپ سے تارکین وطن کی حوصلہ افزائی کی۔ 1970ء میں سفید آسٹریلیا کی پالیسی کے اختتام پر ایشیاء اور دیگر غیر یورپی علاقوں سے افراد نے آسٹریلیا کی طرف جانا شروع کر دیا۔ اس سے آسٹریلیا کی اپنی آبادی، ثقافت اور تشخص پر بہت گہرا اثر پڑا۔

نیوزی لینڈ
مقامی قبائل ماروئی
یہاں 1280ء سے آبادی شروع ہوئی ہے۔
1642ء ڈچ یعنی ہالینڈ سے اقوام آئیں۔
1840ء میں برطانیہ کی حکومت قائم ہوگئی۔
1947ء میں نیوزی لینڈ نے برطانوی حکومت سے آزادی لی، لیکن ہیڈ آف اسٹیٹ اب بھی ملکہ برطانیہ ہے، گونر جنرل اس کا نمائندہ ہوتا ہے۔ مقامی قبائل ماروئی اب مٹنے کے قریب ہیں۔

برصغیر:
برصغیر جو اب پاکستان اور ہندستان کے نام سے پہچانا جاتا ہے، یہ بھی انہی نسل پرست انگریزوں کا غلام بن گیا تھا۔ اس علاقہ کو 1947ء میں آزادی ملی۔
اس کے علاوہ افریقا کے ممالک بھی غلام رہے ہیں۔ جنوبی افریقا میں سفید نسل پرست حکومت کا خاتمہ مقامی آبادی کے نیلسن منڈیلا کی قیادت میں 1994ء میں ہوا ہے۔ اس وقت بھی مندرجہ ذیل ممالک کی آئینی سربراہ برطانوی ملکہ ہیں:
Antigua and Barbuda,
Australia,
Bahamas,
Barbados,
Belize,
Canada,
Grenada,
Jamaica,
New Zealand,
Papua New Guinea,
St. Kitts and Nevis,
St. Lucia, St. Vincent and the Grenadines,
Solomon Islands,
and Tuvalu.
یہ وہ نسل پرست یورپین ہیں، جو بر اعظم امریکا اور آسٹریلیا پر ابھی تک قابض ہیں، ابھی تک مقامی آبادی کے حقوق پائمال کر رہے ہیں، لیکن نہایت بے شرمی سے دنیا کو حقوق انسانی کا درس دیتے ہیں!!!

بنی اسرائیل کی مختصر تاریخ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام بابل کے بادشاہ نمروذ کے ظلم اور بت پرستی سے تنگ آکر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں کنعان (موجودہ فلسطین) کی طرف ہجرت کا حکم دیا، فرمایا: وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ(الأنبياء/71) "ہم نے اسے اور لوط کو ایسی سرزمین کی طرف نجات دی جسے ہم نے عالمین کے لیے بابرکت بنایا تھا۔" حضرت ابراہیم کو پہلا بیٹا حضرت ہاجرہ سے حضرت اسماعیل علیہ السلام ہوا، جسے آپ اپنی والدہ سمیت اس جگہ رہنے کے لیے لائے، جس جگہ اس وقت شہر مکہ آباد ہے۔ تاکہ وہاں موجود اللہ کا گھر عبادت کا مرکز بنے۔ فرمایا: رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُواْ الصَّلاَةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (إبراهيم:37) "ہمارے رب! میں نے اپنی ذریت کو بنجر زمین میں تیرے گھر کے پاس اسلیے ساکن کیا ہےو تاکہ وہ لوگ تیری نماز قائم کریں، اب لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور ان کو میوہ جات کا رزق عطا کرو تاکہ یہ تیرا شکر ادا کریں."

حضرت ابراہیم کو دوسرا بیٹا حضرت سارہ سے حضرت اسحاق علیہ السلام ہوا۔ جو کنعان میں ہی رہا۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک بیٹا دیا، جس کا نام یعقوب رکھا۔ فرمایا: وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِينَ (الأنبياء/72) "ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب اضافی طور پر عطا کیے اور سب کو صالح بنایا۔" انہی حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل ہے، جس کا معنیٰ "عبد اللہ" ہے۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔
• قرآن مجید کی سوره یوسف میں اولاد یعقوب کا مصر کی طرف ہجرت کرنا وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ جب تک حضرت یوسف زندہ تھے، بنی اسرائیل مصر میں سکون سے رہے، لیکن ان کی وفات کے بعد مقامی آبادی جو قبطی تھی، اس سے دوسری نسل ہونے کی وجہ سے دشمنیاں شروع ہوئیں اور جلد ہی بنی اسرائیل فراعنہ مصر کے غلام بن گئے۔
• تقریباً تین صدیوں کی غلامی کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات دہندہ بنا کر بھیجا۔

• حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصر سے واپس کنعان (فلسطین) کی طرف لے کر چلے۔ لیکن راستے میں بنی اسرائیل نے شرارتیں کیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے 40 سال تک ان کو صحرا میں رکھا۔ اسی دوران توریت نازل ہوئی اور انہیں شریعت دی گئی۔ اس کے بعد پہلے حضرت ہارون علیہ السلام اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوا۔
• حضرت موسیٰ کے جانشین حضرت یوشع بن نون بن افراہیم بن یوسف علیہ السلام کی قیادت میں بنی اسرائیل نے (1400 قبل مسیح میں) لڑ کر کنعان واپس لیا اور وہاں پر بارہ قبیلوں میں بٹ کر رہنے لگے۔
• تقریباً چار صدیاں بنی اسرائیل وہاں فلسطین میں بغیر کسی حکومت کے رہے، ان کے درمیان قاضی ہوا کرتے تھے، جو فیصلے کرتے تھے، جن کی تعداد بارہ بتائی گئی ہے۔
• تقریباً 1000 قبل مسیح میں حضرت اشموئیل علیہ السلام نبی کے دور میں حضرت طالوت کے ذریعے بنی اسرائیل میں حکومت قائم ہوئی، جو کہ بعد میں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان کے دور تک قائم رہی۔ یہ عرصہ 120 سال کا ہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی، شمال کی جانب دس قبائل نے "سامریہ" نام سے جبکہ جنوب میں باقی دو قبائل نے "یہودا" کے نام سے سلطنت قائم کرلی۔

• اسرائیل کو 721 قبل مسیح میں شام کے بادشاہ نے فتح کرکے اپنے ملک میں شامل کرلیا۔ جبکہ "یہودا" جس کا دارالسلطنت بیت المقدس تھا، کو بابلی بادشاہ "نبوکدنظر" جسے عرب بُخت نصر کہتے ہیں، نے 586 قبل مسیح میں تباہ کر دیا اور حضرت سلیمان کی بنائی ہوئی عبادگاہ ہیکل سلیمانی کو مکمل طور پر جلا دیا۔ تمام بنی اسرائیل کو قید کرکے بابل لے آیا۔
• ستر (70) سال کی غلامی کے بعد ایران کے بادشاہ کوروش اعظم (جسے عرب خسرو کہتے ہیں) اور قرآن مجید نے اسے ذوالقرنین کہا ہے، نے مشرق و مغرب فتح کیا، بابل کے بادشاہت کا خاتمہ کر دیا اور 539 قبل مسیح میں یہودیوں یعنی بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دی اور انہیں وہاں پر دوبارہ ہیکل تعمیر کرنے مین مدد بھی دی۔ لیکن اب فلسطین فارس کی سلطنت کا ایک صوبہ رہا۔ یہ عرصہ 331 قبل مسیح سے 167 قبل مسیح تک تقریباً دو صدیاں قائم رہا۔
• یونان کے سکندر اعظم نے فارس کی بادشاہت کو شکت دے کر یونانی بادشاہت قائم کی اور اگلی دو صدیاں فلسطیں یونان کا صوبہ رہا۔

• رومی بادشاہ نے یونانی بادشاہت کو شکست دے کر اپنی بادشاہت قائم کی اور فلسطین رومی سلطنت کا صوبہ بن گیا۔ اسی دوران حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور یہودیوں نے ان سے دشمنی کی اور اپنی دانست میں انہیں سولی پر چڑھا دیا گیا۔ اسی دور میں اس علاقہ کا نام کنعان سے فلسطین پڑگیا تھا۔
• سن 70ء میں روم کے بادشاہ "اسپيانوس"‏ کے خلاف یہودیوں نے بغاوت کی، جس کے نتیجے میں بادشاہ نے اپنے وزیر "طرطوز" کو مامور کیا، جس نے بیت المقدس پر حملہ کرکے اسے برباد کر دیا، ہیکل سلیمانی کو جو دوسری مرتبہ تعمیر کیا گیا تھا، اسے توڑ دیا۔ جو ابھی تک مسمار پڑا ہوا ہے۔ اس نے نبی اسرائیل کو فلسطین سے نکال دیا۔
• سن 15 ہجری بمطابق 635ء میں جب فلسطین کو مسلمانوں نے رومی بادشاہت سے فتح کیا تو اس وقت فلسطین اور خاص طور پر بیت المقدس میں تھوڑے سے یہودی رہتے تھے اور وہ بھی عیسائیوں کے استبداد کے تحت تھے۔ مسلمانوں نے فلسطین میں یہودیوں کو آزادی دی اور یہودیون نے انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھا۔
اس مختصر تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ 600 سال قبل مسیح سے 1948ء تک اسرائیل کبھی بھی آزاد ریاست نپہیں رہا ہے۔ یہ صورتحال بیسویں صدی تک قائم رہی۔

اسرائیل کے وجود میں آنے کی مختصر تاریخ:
یہودیت جو کی ایک خدائی دین تھا، بنی اسرائیل نے اسے ایک نسلی دین بنا لیا۔ یہ اسرائیلی بنی اسرائیل کے علاوہ کسی دوسری نسل کو یہودی نہیں مانتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل اپنے آپ کو باقی انسانوں سے برتر نسل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، جبکہ باقی انسانوں کو وہ اپنا خدمتگار سمجھتے ہیں۔
• جب رومی بادشاہ نے یہودیوں کو فلسطین سے نکالا تو اس کے بعد وہ آہستہ آہستہ پوری دنیا میں پھیل گئے اور یورپ تک پہنچ گئے۔
• دنیا میں پھیلنے کے بعد یہودی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ ان میں سے بڑا گروہ وہ تھا، جس نے اپنی دینی شناخت تو قائم رکھی لیکن قومی لحاظ سے جس قوم کے ساتھ رہتے تھے، وہی قومیت اپنا لی۔ جو یہودی ایران میں رہتے تھے، انہوں نے ایرانی قومیت اختیار کر لی اور جو شام میں رہتے تھے، انہوں نے شامی قومیت اختیار کرلی۔ لیکن ایک گروہ نے اپنی دینی شناخت کے ساتھ ساتھ اپنی قومی شناخت کو بھی قائم رکھنے کا فیصلہ کیا اور دنیا میں ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا خواب دیکھتے رہے۔

• یورپ نے اٹھارویں صدی عیسوی تک تقریباً تمام دنیا پر اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ ان کی سلطنت سے باہر کچھ اہم سلطنتیں ترکوں کی عثمانی خلافت جو تمام عرب علاقوں پر مشتمل تھی اور ایران کی قاچاری بادشاہت تھی، جن پر ان کی للچائی نظریں تھیں۔
• انیسویں صدی عیسوی میں مشرقی یورپ کے ان یہودیوں نے جو اپنی قومی شناخت بھی قائم رکھنا چاہتے تھے، اپنی ایک قومی ریاست وجود میں لانے کی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کو صیہونیت کا نام دیا گیا۔ صہیون اصل میں یروشلم میں ایک پہاڑی کا نام ہے۔
• جب ہٹلر نے جرمنی میں یہودیوں کے خلاف تحریک شروع کی تو یہودی جرمنی سے بھاگ کر برطانیہ جانے لگے۔ اس صورتحال نے صیہونیت کی تحریک کو مزید مضبوط کیا۔ ابتدا میں یہودی ریاست کے لیے دنیا کی کسی بھی جگہ کو قبول کیا گیا تھا۔ پھر ممکنہ مقامات میں ارجنٹینا، ماوریوگینڈا بھی زیر غور آئے۔ لیکن صیہونیوں کی زیادہ توجہ فلسطین پر تھی جبکہ یہودی ربیوں کی شوریٰ نے فلسطین واپسی کا نظریہ رد کر دیا تھا۔

• برطانیہ نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی نیت سے 1917ء میں فلسطین پر قبضہ کر لیا، اسی سال بلفور معاہدہ کے تحت برطانوی حکومت نے صیہونیوں کو فلسطین میں آباد ہونے اور اپنی حکومت قائم کرنے سے اتفاق کیا اور ہر طرح سے مدد فراہم کی۔ اس وقت فلسطیں میں یہودی صرف آٹھ فیصد تھے اور ان کی ملکیت میں صرف دو (2) فیصد زمین تھی۔ لیکن سنہ 1943ء میں ان کی تعداد تیس فیصد تک بڑھ گئی۔
• برطانیہ اور یورپ نے یہودیوں کو فلسطین ہجرت کرنے میں مدد فراہم کی، کیونکہ یورپی اقوام یہودیوں سے تنگ تھے۔
• برطانیہ کے مقاصد یہ تھے:
ایک: مشرق وسطیٰ میں اپنے پاؤں رکھنا اور پھر یہاں سے پورے مشرق وسطیٰ میں یورپی اقوام کو بسانا۔ جس طرح وہ امریکا، کینڈا اور آسٹریلیا وغیرہ میں کرچکے تھے۔
ب: جرمنی سے یہودیوں کی برطانیہ کی طرف ہجرت کو روکنا۔
ت: یورپ سے یہودیوں کی بڑی تعداد کو فلسطین منتقل کرنا، تاکہ یورپ یہودیوں کی شرارت میں محفوظ ہوسکے۔
• اس لیے 1948ء میں اسرائیل ملک وجود میں لایا گیا۔

تاریخ نے نیا موڑ اس وقت لیا، جب یورپی قومیں آپس میں لڑ پڑیں، جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ اس قابل نہیں رہا کہ دنیا پر قبضہ جمانے کا اپنا خواب پورا کرسکے۔ اس لیے جن علاقوں میں یورپین اقوام اکثریت میں آگئے تھے، جیسے امریکا، کینڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ وہاں تو انہوں نے اپنا قبضہ جاری رکھا، جہاں وہ اقلیت میں تھے، وہاں سے ان کی واپسی شروع ہوئی، جیسے برصغیر سے انگریز واپس چلے گئے، کیونکہ وہ قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے تھے۔ لیکن اس دوران مشرق وسطیٰ میں تیل دریافت ہوچکا تھا، یورپ سمیت امریکا اور مغرب کا مفاد تیل سے وابسطہ ہوگیا۔ تیل کو مناسب قیمت پر مسلسل حاصل کرنے کے لیے مغرب کو جس کی سربراہی اب امریکا کر رہا تھا، مشرق وسطیٰ پر قبضہ درکار تھا۔ یہ کام اسرائیل سے زیادہ اور کون کرسکتا تھا۔

اسی دوران سعودی خاندان سے امریکہ نے معاہدہ کیا، جس میں تیل کی فراہمی جاری رکھنا لازمی تھا اور امریکا کی طرف سے سعودی خاندان کی حکومت کو تحفظ دینا تھا۔ اس طرح مشرق وسطیٰ میں امریکی اور مغربی مفادات کے خلاف اگر کوئی اٹھے تو پہلے سعودی ریال کے ذریعہ اسے خریدنا تھا، اگر نہ بک سکے تو اسرائیل کے ذریعہ اسے تباہ کرنا تھا۔ اس وقت تیل دنیا میں بہت جگہوں پر دریافت ہوچکا ہے، دوسری طرف تیل کے استعمال کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے کثرت سے موسمی تبدیلیوں کے سبب دنیا تیل سے دوسرے ذرائع پر منتقل ہو رہی ہے، جس کے نتیجہ میں تیل کی اہمیت کم ہو رہی ہے، یعنی مغربی دنیا کے لیے اب سعودی عرب اور اسرائیل ماضی کی طرح لازمی نہیں رہا۔

ایران میں اسلامی انقلاب نے اس پورے علاقے سے امریکی سامراجی مفادات کے مدمقابل ایک مزاحمتی تحریک شروع کی، جو اب اپنے کمال کو چھونے لگی ہے۔ اس لیے مغرب اب مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کو زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکتا۔
کیا یوم القدس صرف ایک سیاسی مسئلہ ہے؟
کچھ لوگ جو دینی معارف سے آشنا نہیں ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطین ایک خالص سیاسی مسئلہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک خالص دینی مسئلہ ہے، کیونکہ:
1۔ امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف نے مکہ مکرمہ سے قیام فرمانا ہے، اگر مکہ مکرمہ میں اسرائیل، سعودی اور امریکی تکون قابض ہوگی تو امام علیہ السلام کے وجود کی حفاطت کی ضمانت نہیں ہوسکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تکون کو حجاز سے ہٹانا ہوگا اور یہ ہٹانا امام مہدی کے ظہور کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہے۔
2۔ امام مہدی علیہ السلام کی حمایت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول لازمی ہے۔ حضرت عیسیٰ کا نزول بیت المقدس میں ہوگا۔ اگر یہ اسرائیلی ریاست قائم ہے تو یہودی حضرت عیسیٰ کے دشمن ہیں۔ اس لیے حضرت عیسیٰ کے وجود کے حفاظت کی ضمانت نہیں ہے، جب تک یہ ریاست قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کی ریاست کو ختم کرنا ہوگا اور یہ خاتمہ امام مہدی کے ظہور کی راہ ہموار کرنا ہے۔

3۔ ایک عزادار بیتُ المَقْدَس کی آزادی کو سیاست کیسے کہہ سکتا ہے، جبکہ اسے معلوم ہے کہ کربلا اور بیتُ المَقْدَس کا باطن ایک ہے۔ اس لیے شیعہ و سنی نے زہری سے روایت کیا ہے کہ: لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ (ع) لَمْ يَبْقَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ حَصَاةٌ إِلَّا وُجِدَ تَحْتَهَا دَمٌ عَبِيطٌ (كامل الزيارات؛ ص269) "جب امام حسین علیہ السلام قتل ہوئے تو بیت المقدس سے جو پتھر بھی اٹھایا جاتا، اس کے نیچے سے تازہ خون نکلتا تھا" خون گرتا کربلا میں ہے اور نکلتا بیت المقدس سے ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کا باطن ایک ہے۔ اسی کو امام جعفر صادق علیہ السلام نے بیان کیا ہے، فرمایا: الْغَاضِرِيَّةُ تُرْبَةٌ مِنْ بَيْتِ‏ الْمَقْدِسِ (كامل الزيارات؛ ص269) "کربلا، بیت المقدس کی مٹی سے ہے۔" اس لیے ایک عزادار کے لیے بیت المقدس کا صیہونیوں کے قبضہ میں ہونا ایسا ہی ہے جیسے کربلا صیہونیوں کے قبضہ میں ہو اور ایک عزادار اسے کیسے برداشت کر سکتا ہے۔؟

4۔ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج پر جانے کے لیے پہلے مکہ مکرمہ سے بیت المقدس آئے، پھر بیت المقدس سے آسمانی دنیاؤں کی سیر کی ہے۔ فرمایا: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ (الإسراء:1) "پاک ہے وہ جس نے سیر کرائی رات میں اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔۔۔۔" یہ تو زمینی سفر ہے، معراج نہیں ہے۔ معراج مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس سے شروع ہوتا ہے اور قاب قوسین او ادنیٰ پر ختم ہوتا ہے، فرمایا: وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى (النجم:1) مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى (النجم:2) وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى (النجم:3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم:4) عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى (النجم:5) ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى (النجم:6) وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى (النجم:7) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى (النجم:8) فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى (النجم:9) فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى (النجم:10)۔ اس سے معلوم ہوا کہ مکہ مکرمہ نزول کا مقام ہے جبکہ بیت المقدس صعود کا مقام ہے۔ اس لیے نبی اکرم کا معراج بھی یہیں سے ہے اور امام حسین علیہ السلام کا خون جب صعود کرتا ہے تو بھی اسی مقام سے کرتا ہے۔

اسرائیل کا وجود برصغیر کی شخصیات کی نظر میں
مہاتما گاندھی:
1938ء میں گاندھی نے صہیونیت کو مسترد کیا، ہندو اور مسلم ریاستوں کے درمیان تقسیم ہند اور فلسطین میں یہودی قومی وطن کے قیام کا موازنہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ’’ یہ ایک مذہی امر ہے، لہذا اسے طاقت کے بل بوتے پر نافذ نہیں ہونا چاہیئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ فلسطین عربوں کا ہے، بالکل جیسے انگلستان انگریزوں کا ہے یا فرانس فرانسیسیوں کا ہے۔ عربوں پر یہود کو مسلط کرنا غیر انسانی اور پر خطا ہے۔۔۔۔۔ یقیناً خوددار عربوں میں تخفیف کرکے فلسطین کو یہود کے لیے جزوی یا مکمل طور پر یہودی قومی وطن قرار دینا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہود فلسطین میں صرف عربوں کی عنایت سے ہی آباد ہوسکتے ہیں، انہیں عربوں کے دل اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔‘‘ اس سب کے باوجود گاندھی کا صہیونیت کی مخالفت سے تائید کی جانب تبدیل ہوتا میلان اس قول سے واضح ہوتا ہے، جو انہوں نے امریکی صحافی لوئس فسشر کو 1946ء میں دیا ’’یہود کا فلسطین پر اچھا خاصا دعویٰ ہے، اگر عرب فلسطین پر دعویٰ رکھتے ہیں تو  یہود کا دعوی ان سے پیشتر زمانے کا ہے۔‘‘

علامہ اقبالؒ:
جس کا جواب اقبالؒ نے ہسپانیہ پر مسلمانوں کا دعوی ٰ کرکے دیا:
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا

علامہ اقبالؒ نے اپنی زندگی کے آخری سال اپنے خدشات و جذبات کے اظہار کے لیے ایک طویل تاریخی بیان دیا، جو 26 جولائی 1937ء کو لاہور کے موچی دروازہ کے مسلم لیگ کے تاریخی جلسہ عام میں پڑھا گیا اور مشہور اخبار ’’نیو ٹائمز‘‘ میں شایع ہوا۔ علامہ اقبالؒ نے کہا ’’میں آپ لوگوں کو اس امر کا یقین دلاتا ہوں کہ عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے، میں اس کو اسی شدت سے محسوس کرتا ہوں، جس شدت سے ہر وہ شخص اسے محسوس کرتا ہے، جسے مشرق قریب کے حالات کا تھوڑا بہت علم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرنے پایا اور انگریز قوم کو بیدار کرکے اس بات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرے، جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں کے ساتھ کیے تھے۔ بہرحال یہ امر کسی حد تک موجب اطمینان ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اس موضوع پر حال ہی میں جو بحث ہوئی ہے، اس میں تقسیم فلسطین کے مسئلے کا کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا گیا۔ لہٰذا اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر مسلمانانِ عالم کو چاہیئے کہ پوری بلند آہنگی کے ساتھ اعلان کریں کہ برطانیہ کے مدبر جس عقدے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کا تعلق صرف فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پورے عالم اسلام کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔

اگر تاریخی پس منظر کو سامنے رکھ کر اس کا مطالعہ کیا جائے، تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ معاملہ خالصتاً اور کلیتاً مسلمانوں کا معاملہ ہے، تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب حضرت عمرؓ بیت المقدس تشریف لے گئے تھے اور اس واقعے پر بھی آج تیرہ سو برس کا عرصہ گزر چکا ہے تو ان کی تشریف آوری سے مدتوں پہلے یہودیوں کا فلسطین کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رہا تھا۔ یہودیوں کو فلسطین سے زبردستی نہیں نکالا گیا تھا بلکہ جیسا کہ پروفیسر ہاکنگز کی رائے ہے، وہ اپنی خوشی سے دوسرے ممالک میں چلے گئے تھے اور ان کے مصحف مقدس کا بیشتر حصہ بھی فلسطین سے باہر ہی قلم بند کیا گیا تھا۔ مشرق قریب کے مسلمانوں کے بارے میں برطانوی شہنشاہیت کے مذموم ارادوں کو جس بری طرح رائل کمیشن نے اس رپورٹ میں بے نقاب کیا ہے، اس کی مثال پہلے کبھی نظر نہیں آئی۔ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی تجویز تو محض ایک بہانہ ہے، اصلیت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس مقدس اور مذہبی سرزمین پر اپنا مستقل انتداب قائم رکھ کر برطانوی شہنشاہیت خود اپنے لیے ایک نیا ٹھکانہ پیدا کر رہی ہے، یہ اقدام ایک خطرناک تجربہ ہے اور برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے بھی اس کو خطرناک تجربے ہی سے تعبیر کیا ہے۔

عربوں کو جس جس طریقے سے تنگ کرکے اپنی ارض مقدس جس پر مسجد عمرؓ قائم ہے، فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے، اس میں ایک طرف تو مارشل لا جاری کر دینے کی سخت دھمکیاں ہیں اور دوسری طرف عربوں کی قومی فیاضی اور ان کی روایتی مہمان نوازی کے جذبات لطیف کو برانگیختہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ یہ طرز عمل گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ برطانوی تدبر کا اب دیوالیہ نکل چکا ہے۔ یہودیوں کو زرخیز اراضی کی پیش کش کرکے اور عربوں کو پتھریلی بنجر زمین کے ساتھ کچھ نقد رقم دے کر راضی کرنے کی کوشش قطعاً کسی سیاسی ہوش مندی کا ثبوت نہیں، یہ تو ایک ادنیٰ درجے کی حقیر سودے بازی ہے، جو یقیناً اس عظیم الشان قوم کے لیے موجب ننگ اور باعث شرم ہے، جس کے نام پر عربوں سے آزادی کا وعدہ کیا گیا تھا اور یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ ان کے درمیان ایک مشترکہ و متحدہ وفاق قائم کر دیا جائے گا۔

دوسرے یہ کہ عربوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے وقت عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں، کیونکہ بحالات موجودہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہرگز اس قابل نہیں کہ وہ محض اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں۔ تیسرے یہ کہ آج مسئلہ فلسطین کے بارے میں ایشیاء کے تمام آزاد اسلامی ممالک کی حمیت و غیرت کا امتحان ہے، خواہ وہ ممالک عرب ہیں یا غیر عرب۔ منصب خلافت کی تنسیخ کے بعد عالم اسلام کے لیے یہ پہلا بین الاقوامی مسئلہ ہے، جس کی نوعیت بیک وقت مذہبی اور سیاسی ہے اور جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے زمانے کی طاقتیں اور تاریخ کے تقاضے آزاد اسلامی ممالک کو پکار رہے ہیں۔
SPEECHES, WRITINGS AND STATEMENTS OF IQBAL (PDF)
صفحہ293
S H E RWAN I، LATIF AHMAD
(ایڈیشن 6thEdition 2015).
BPH Printers, Lahore: IQBAL ACADEMY PAKISTAN.

قائد اعظم محمد علی جناحؒ:
اکتوبر 1937ء میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اب میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، جس کا مسلمانانِ ہند پر گہرا اثر پڑا ہے۔ برطانیہ کی پالیسی شروع سے آخر تک عربوں کو دھوکہ دینے کی رہی ہے۔ برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم کے دوران عربوں سے کیے گئے اُس وعدے کو پورا نہیں کیا، جس میں عربوں کو مکمل آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ عربوں کے ساتھ جھوٹے وعدے کرکے بر طانیہ نے بدنام زمانہ اعلانِ بالفور کے ذریعے اپنے آپ کو عربوں پر مسلط کر دیا اور یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن بنانے کی پالیسی کے بعد اب برطانیہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ اگر اس کو نافذ کر دیا گیا تو عربوں کے اپنے وطن میں ان کی آرزوؤں اور تمناؤں کا خون ہو جائے گا۔

میں صرف مسلمانانِ ہند کی ہی نہیں بلکہ مسلمانانِ عالم کی ترجمانی کر رہا ہوں اور تمام انصاف پسند اور فکر و نظر رکھنے والے لوگ میری تائید کریں گے، جب میں یہ کہتا ہوں کہ اگر برطانیہ نے عربوں سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا نہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ برطانیہ اسلامی دنیا میں اپنی قبر خود کھود رہا ہے۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ برطانوی حکومت فلسطینی عربوں کے خلاف تشدد پر اُتر آئی ہے۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے میں اُن کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانانِ ہند اس منصفانہ اور جرأت مندانہ جدوجہد میں فلسطینیوں کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ قائد اعظمؒ نے فلسطین میں اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی اور امریکی و برطانوی حکومت کو مجرم قرار دیتے ہوئے تقریر میں یہ بھی کہا:"۔۔۔۔۔ امریکی اور برطانوی حکومتیں کان کھول کر سن لیں، پاکستان کا بچہ بچہ اور تمام اسلامی دنیا اپنی جانیں دے کر ان سے ٹکرا جائیں گے اور فرعونی دماغ کو پاش پاش کر دیں گے۔۔۔۔۔‘‘ 8 نومبر 1945ء کو قیصر باغ بمبئی

لیاقت علی خانؒ:
مئی، جون 1950ء میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکا کے دوران امریکی صنعت و تجارت کے قائدین نے ان سے ملاقات کی اور پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کر لینے کی صورت میں ہر قسم کی عسکری اور معاشی امداد کی یقین دہانی کروائی، امریکی صنعتکاروں نے اس پیشکش کی نئی ریاست پاکستان کیلئے اہمیت بھی واضح کی۔ تاہم لیاقت علی خان نے اپنے دھیمے انداز میں جواب دیا: ’’حضرات! ہمارا ایمان برائے فروخت نہیں‘‘
ہمارا مطالبہ کیا ہے؟
ہم یہ چاہتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں جو بیرون ممالک سے آئے ہوئے لوگ ہیں، خاص طور پر جو 1948ء کے بعد آئے ہیں، ان کو چھوڑ کر باقی مقامی آبادی جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں پر مشتمل ہے، ان سے ریفرنڈم کے ذریعے ان کا مؤقف معلوم کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔


خبر کا کوڈ: 931717

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/931717/یوم-القدس-ایک-دینی-تحریک

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org