0
Tuesday 11 May 2021 08:13

کربلا میں ایرانی قونصلیٹ پر حملہ

کربلا میں ایرانی قونصلیٹ پر حملہ
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

عراق میں ایک سماجی رہنماء کے قتل کے بعد کربلا شہر میں مظاہرے ہوئے ہیں، مشتعل شرپسندوں نے اس مظاہرے سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے کربلا میں موجود ایران کے قونصلیٹ پر حملہ کرکے قونصلیٹ کی دیوار کو آگ لگا دی۔ عراق کے سماجی رہنماء ایھاب جواد الوزنی حکومت مخالف سیاسی رہنماء سمجھے جاتے ہیں اور اکثر اوقات حکومت مخالف مظاہرے انجام دیتے ہیں۔ ایھاب جواد الوزنی کو 9 مئی کے دن نامعلوم افراد نے قتل کر دیا ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی گروہ نے قبول نہیں کی ہے۔ ایران کے قونصلیٹ نے بھی اس قتل کی مذمت کی ہے اور اسے دہشت گردانہ اقدام قرار دیا ہے۔ جواد الوزنی کے قتل کے عوامل کے بارے میں کہا جا سکتا کہ عراق میں اکتوبر 2020ء سے حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور ان مظاہروں میں سینکڑوں عراقی شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ حکومت مخالف مظاہروں اور عام شہریوں کے نامعلوم افراد کے ہاتھوں ہلاکت کی ایک وجہ عراق کو سیاسی و سلامتی کے عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔

دوسری طرف عراق میں موجود ایران مخالف مسلسل گذشتہ دو سالوں سے کوشش کر رہے ہیں کہ ان مظاہروں اور بدامنی کا ایران سے تعلق جوڑ دیں اور اس بہانے ایران کے سفارتی مراکز کو نشانہ بنائیں اس ٹولے نے 2018ء میں بصرہ میں اور نومبر 2019ء میں نجف کے قونصلیٹ کو نشانہ بنایا اور اب یہی واقعہ کربلا میں دہرایا گیا، اس کے علاوہ بھی کربلا قونصلیٹ پر حملے کے کئی عوامل ہیں۔ ایک اور بڑی وجہ عراق میں موجود غیر ملکی عناصر نفرتوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر عراق میں تعینات برطانوی سفیر اسٹین ہیکی نے بے بنیاد الزام لگایا کہ جواد الوزنی کے قتل میں بعض ایران نواز گروہ شامل ہیں، حالانکہ عراق کے وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی نے الاہرہ ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ ایرانی حقیقت پسند ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ عراقی حکومت کی حمایت کریں، تاکہ عراق میں عسکری گروہوں کو پھلنے پھولنے سے روکا جائے۔

ایران کو مختلف طرح کے اختلافی مسائل میں ملوث کرکے ایران دشمن لابی تہران بغداد تعلقات پر اثرانداز ہونا چاہتی ہے، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان روز بروز تعلقات میں فروغ آرہا ہے۔ ایران اور عراق کے درمیان تجارتی تعلقات اس وقت انتہائی بلند سطح پر ہیں اور ان تعلقات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ علاقائی اور عالمی سطح پر بھی دونوں ممالک کے درمیان بہت سے مواقف میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ عراق نے تو حال ہی میں ریاض اور تہران کے سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے عملی کامیاب کوشش کی ہے۔ عراق کے وزیراعظم اور عراق کے صدر نے سعودی عرب اور ایران کے دورہ جات کرکے ٹریک ٹو جیسی پالیسی کو انجام دیا، جس کا نتیجہ سعودی ولی عہد بن سلمان کے لہحہ میں تبدیلی اور ایران کی طرف سے اس تبدیلی کو خوش آئند کہنے کی صورت میں برآمد ہوا۔

البتہ اس موضوع کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ داعش گروہ کی حامی بعض عرب ریاستں عراق میں داعش کو ایک پریشر گروپ کے طور پر ہر صورت میں زندہ رکھنا چاہتی ہیں اور اس میں سعودی عرب بھی پیش پیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو عراق کے سیاسی و سماجی عدم استحکام نیز سلامتی کے مسئلے میں سعودی سفارت خانے کا ذکر بھی ملے گا۔ عراق کا معاشرہ ایک پیچیدہ معاشرہ ہے، اس میں فرقہ وارانہ تقسیم کے ساتھ ساتھ صدام کی بعثت پارٹی کے عناصر بھی اچھا خاصا اثرونفوذ رکھتے ہیں اور اس میں شیعہ سنی دونوں شامل ہیں۔ عراقی کردستان کا مسئلہ بھی نظرانداز نہِیں کیا جا سکتا اور عراقی کردستان میں خود مختاری کی تحریک ایک زندہ حقیقت ہے۔ اس علاقے کے عوام بھی عراق کی مرکزی حکومت کی مشکلات میں آئے روز اضافے کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ عراق کردستان کے منحرف عناصر کے غاصب اسرائیل سے تعلقات بھی اب کوئی پوشیدہ امر نہیں ہے۔ غاصب اسرائیل، امریکہ اور اس کے بعض علاقائی حواری ایران عراق تعلقات میں فروغ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے عراق کو عدم استحکام میں مبتلا کرنے والے عناصر میں بیرونی عناصر کی سرگرمیوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ایک اور موضوع جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے، وہ عراق میں موجود منحرف شیعہ گروہ ہیں، جو مختلف ناموں من جملہ "الجرجی"، "یمانی" اور "جوکرنی" کے نام سے سرگرم عمل ہیں، ایران مخالف ماحول پیدا کرنے میں مشغول ہیں۔ یہ گروہ ایک طرف صدام کی بعث پارٹی سے منسلک ہیں، دوسری طرف بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ اس کی ایک مثال محمود المرضی کی ہے، جو صدام کی بعثی حکومت میں خفیہ اداروں سے مربوط تھا، آئے دن کربلا میں سینکڑوں لوگوں کو جمع کرکے ایران اور ایرانی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کرتا رہتا ہے۔ بہرحال کربلا معلیٰ میں گذشتہ روز پیش آنے والا واقعہ ایسے وقت میں انجام پایا ہے کہ فلسطین میں مظلوم فلسطینیوں کے خلاف غاصب صہیونیوں کے جرائم اور جبر و تشدد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ ایسے موقع پر اس طرح کے واقعات اسرائیل کے جرائم سے توجہ ہٹانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 931974
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش