2
1
Wednesday 12 May 2021 23:02

عمران خان کا سعودی عرب کا دورہ اور مشترکہ اعلامیہ، کیا یہ گورنمنٹ بک گئی ہے؟

عمران خان کا سعودی عرب کا دورہ اور مشترکہ اعلامیہ، کیا یہ گورنمنٹ بک گئی ہے؟
رپورٹ: ایم عابدی

وزیرِاعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کو دنیا بھر کے میڈیا میں غیر معمولی اہمیت دی گئی اور اس دورے کو تعلقات میں بحالی یا بہتری کی کوشش سے تعبیر کیا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت بھی اس دورے کو ملکی سیاسی مقاصد کے لئے غیر ضروری طور پر اچھال رہی ہے، حالانکہ یہ دورہ کن حالات میں ہوا، یہ سب کے علم میں ہے اور اس دورے سے وابستہ امیدیں کس حد تک پوری ہوئیں، وہ بھی حکمران جماعت سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ دورہ ایسے حالات میں ہوا ہے کہ جب تیل پر انحصار کرنے والا سعودی عرب اپنی معیشت کو متنوع بنانے کے لئے جنوبی ایشیاء کی دیگر قوموں کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے اور پاکستان اپنے پرانے دوست کی ناراضگی دُور کرنے کی تگ و دو کر رہا ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان کے ریاض پہنچنے سے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ان کے دورے کے لئے حالات سازگار بنانے میں لگے ہوئے تھے۔ تعلقات میں بگاڑ اس قدر تھا کہ کچھ غیر ملکی صحافیوں نے اسے تعلقات کے نئے آغاز سے بھی تعبیر کیا۔ پاک سعودی تعلقات میں بگاڑ کی ابتدا 6 سال پہلے سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے دور میں ہوئی تھی، جب یمن جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان سے فوجی مدد طلب کی تھی، لیکن پاکستان نے اپنی جغرافیائی مجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس جنگ میں کودنے سے انکار کیا۔

سعودی عرب جس کے ساتھ تعلقات کی بنیاد ہی سکیورٹی تعاون پر تھی، وہ اس انکار پر برافروختہ ہوا اور تعلقات کو شدید دھچکا لگا۔ اسی دوران سعودی عرب نے جنوبی ایشیاء کی دیگر اقوام کے ساتھ تعلقات بڑھانے شروع کئے، جن میں پاکستان کا روایتی حریف بھارت بھی شامل ہے۔ اپریل 2016ء میں بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے ریاض کے دورے کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے نئے دور کی بنیاد رکھی۔ نئی دہلی اور ریاض کی قربتوں نے اسلام آباد کو پریشان کیا اور پاکستان نے ریاض کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لئے سکیورٹی سے ہٹ کر نئی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر سعودی سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے کے لئے پُرکشش پیشکش تیار کی گئی۔ تعلقات کی بنیاد چونکہ سکیورٹی تعاون ہی تھا اور بگاڑ بھی اسی وجہ سے آیا تھا، اس بنا پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے آخری چند ماہ میں اہم اقدامات کئے۔ یمن جنگ میں شرکت تو ممکن نہ تھی، لیکن پاکستان نے سعودی اتحاد کی میز پر اپنا جھنڈا رکھ دیا اور سعودی افواج کی تربیت کے بہانے دستے بھجوا دیئے۔

تعلقات کو سکیورٹی تعاون تک محدود رکھنے کے بجائے متنوع بنانے کی خاطر سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے وسیع تعاون کی بنیاد ڈالی۔ سعودی عرب کے ساتھ اقتصادی اور ثقافتی پیکج پر مذاکرات کئے اور دونوں ملکوں کے درمیان سماجی اور ثقافتی تبادلوں کو بڑھانے کا معاہدہ کیا۔ پاکستانی مزدوروں کے لئے سعودی عرب کی ورک فورس میں کوٹہ بھی بڑھایا گیا اور سعودی عرب کے ساتھ آئل ریفائنری لگانے اور ایل این جی پلانٹس کی تنصیب کے معاہدے ہوئے۔ تعلقات میں بہتری اور توسیع کے لئے ماحول مکمل سازگار تھا، لیکن پھر پاکستان میں انتخابات کے نتیجے میں حکومت بدل گئی۔ عمران خان وزیرِاعظم بنے اور پہلا غیر ملکی دورہ بھی سعودی عرب کا کیا، لیکن اس دورے نے پاکستان کی کوئی مدد نہ کی۔ معاشی مشکلات سے پریشان وزیرِاعظم عمران خان نے ترکی، ایران اور ملائیشیاء کی جانب دیکھنا شروع کیا اور کوالالمپور سربراہ کانفرنس کو اسلامی کانفرنس کے متبادل پلیٹ فارم کے طور پر پراجیکٹ کیا گیا۔ دسمبر 2019ء میں ہونے والی یہ 5 ملکی سربراہ کانفرنس پاک سعودی تعلقات میں نیا موڑ لائی۔ پاکستان کو سعودی دباؤ کی وجہ سے پیچھے ہٹنا پڑا اور سعودی عرب سے تعلقات پھر کشیدہ ہوگئے۔

ایک بار پھر سعودی عرب کو پاکستان کی ضرورت آن پڑی کیونکہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد امریکا اور یورپی ممالک سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ناراض تھے اور انہوں نے ڈیووس کی طرز پر بلائی گئی سرمایہ کاری کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ محمد بن سلمان نے ان حالات میں پرانے اتحادی پاکستان کی طرف دیکھا اور یہی موقع تھا، جس کی اسلام آباد کو تلاش تھی۔ ریاض نے اسلام آباد کو 6 ارب 20 کروڑ ڈالر کا امدادی پیکج دے دیا۔ فروری 2019ء میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اسلام آباد پہنچے اور اس دورے کے دوران شاہد خاقان عباسی حکومت کے ساتھ طے پانے والے اقتصادی اور ثقافتی پیکج پر دستخط کئے۔ اگست 2020ء میں ایک بار پھر تعلقات دباؤ کا شکار ہوئے اور اس بار دباؤ کی وجہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ کا جذباتی بیان بنا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ او آئی سی بیچ بچاؤ اور آنکھ مچولی کی پالیسی نہ کھیلے، کشمیر پر اسلامی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے اور اگر یہ اجلاس نہیں بلایا جاتا تو وزیرِاعظم پاکستان سے کہوں گا کہ پاکستان ایسے ممالک کا اجلاس خود بلائے جو کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے ساتھ ہیں۔

وزیر خارجہ نے یہیں بس نہ کی اور سعودی عرب کو بھی لپیٹ میں لیا اور کہا کہ میں آج اسی دوست کو کہہ رہا ہوں، جس کی سالمیت اور خود مختاری کی خاطر ہر پاکستانی لڑ مرنے کے لئے تیار ہے، لیکن ساتھ وہ آپ سے یہ تقاضا بھی کر رہے ہیں کہ آپ بھی وہ قائدانہ صلاحیت اور کردار ادا کریں، جس کی امت مسلمہ کو آپ سے توقع ہے۔ یہی وہ موقع تھا جب ریاض نے شدید غصے کے عالم میں پاکستان کو دیئے گئے 3 ارب ڈالر واپس مانگ لئے اور ادھار تیل کا معاہدہ جو مئی 2020ء میں ختم ہوچکا تھا، اس کی تجدید نہ کی۔ عمران خان کے سعودی عرب کے حالیہ دورے کو تحریک انصاف اس طرح پیش کر رہی ہے جیسے کوئی بہت بڑی سفارتی کامیابی مل گئی ہو، لیکن کامیابی کا جائزہ لینے کے لئے اس دورے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ کو غور سے پڑھنا ہوگا اور سعودی سفارتی حلقوں کی رائے کو بھی پرکھنا ہوگا۔ اسلام آباد میں طویل عرصہ سفارتی ذمہ داریاں نبھانے والے ڈاکٹر علی عواض العسیری نے عرب نیوز میں شائع کالم میں سابق سفیر نے جتلایا کہ سعودی عرب مسلم دنیا کے لئے اسلام کا دل ہے اور کوئی دوسرا ملک اس ٹائٹل پر حق نہیں جتا سکتا، او آئی سی 57 اسلامی ملکوں کی واحد نمائندہ تنظیم ہے اور اس کے متبادل بلاک بنانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی، یہ بیانیہ بالکل غلط ہے کہ او آئی سی نے مسئلہ کشمیر پر کچھ نہیں کیا۔

عمران خان کے دورہ کے مشترکہ اعلامیہ کا جائزہ لیں تو سب سے پہلا نکتہ سعودی پاکستان سپریم کوآرڈینیشن کونسل کے قیام کا ہے، اس کے پاکستان پر اثرات ہونگے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مشترکہ اعلامیہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی گئی، جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔ پہلی بات تو یہ کہ عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو سعودی بلاک کے ممالک اسرائیل کو قبول کر رہے ہیں اور سعودی عرب کا جھکاؤ بھی اسرائیل ہی کی جانب ہے، دوسری جانب دو ریاستی حل مسلم ممالک اور خود فلسطینی عوام کیلئے ناقابل قبول ہے، فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے، جو ایک دو ہوکر رہے گا۔ اعلامیہ میں شام اور لیبیا میں سیاسی حل کی حمایت کی گئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج شام کی تباہی میں ایک بڑا کردار خود سعودی عرب ہی کا ہے۔ یمن کے مسئلے کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد اور گلف انیشیٹو کی تائید کی گئی ہے۔ یمن مسئلے سے سعودی عرب خود جان چھڑانا چاہتا ہے، جس کے لئے سعودی عرب اور ایران کے درمیان عراق کی میزبانی میں مذاکرات جاری ہیں، جس کی تصدیق اب خود سعودی وزارتِ خارجہ نے بھی کردی ہے۔

مشترکہ اعلامیہ کا سب سے اہم حصہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ولی عہد نے دونوں ملکوں (پاکستان اور بھارت) کی فوجوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے سمجھوتے، جو 2003ء کے سمجھوتے پر مبنی ہے، کو سراہا، دونوں طرف سے پاک بھارت مذاکرات پر زور دیا گیا، تاکہ دونوں کے درمیان تنازعات بشمول جموں و کشمیر کو پُرامن طور پر حل کیا جاسکے۔ اعلامیہ کا یہ حصہ سب سے اہم اس لئے ہے کہ دونوں ملکوں کی طرف سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل کا پرانا مؤقف ترک کر دیا گیا ہے اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ دونوں ملک باہمی مذاکرات سے مسائل حل کریں۔ اعلامیہ میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کا ذکر ہوا نہ ہی کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشتگردی کا کوئی ذکر کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دونوں ممالک کی جانب سے پاک بھارت مذاکرات پر زور دیا گیا ہے۔ اس مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان نے سعودی عرب کے قائدانہ کردار کو بھی تسلیم کر لیا ہے، یوں پاکستان کے لیڈران اور ان کے ترجمان دانشوروں کی طرف سے نئے اسلامی بلاک میں پاکستان کے کردار کی کہانیاں بظاہر دم توڑ گئیں۔ اعلامیہ میں کشمیر پر جو کچھ کہا گیا، اس سے پاکستان کشمیر پر 7 دہائیوں پرانا مؤقف بھی چھوڑ کر آگیا۔ سعودی عرب کے جتنے تنازعات تھے، سب میں اس کے مؤقف کی حمایت کرکے خود کو نئے تنازعات میں پھنسانے کی بھی بنیاد رکھ لی گئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 932104
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
یہ گورمنٹ پہلے سے ہی بکاؤ تھی
Pakistan
یہ بکاؤ مال ہے۔
ہماری پیشکش