0
Tuesday 11 May 2021 22:12

اسرائیل کا سیاسی تعطل اور حالیہ کشیدگی

اسرائیل کا سیاسی تعطل اور حالیہ کشیدگی
تحریر: سید اسد عباس

فلسطینی مظلوم بھی ہیں، بہادر بھی اور اپنے حق کے لیے ڈٹ جانے والے بھی۔ تاہم سوچتا ہوں کتنے خوش نصیب ہیں فلسطینی مسلمان، جو گذشتہ تہتر برسوں سے اسرائیلی جارحیت کے مقابل مقاومت دکھا رہے ہیں اور پوری امت مسلمہ ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف زبانی ہی سہی ان کے ہمراہ کھڑی ہے۔ فلسطینیوں کی یہ بھی خوش نصیبی ہے کہ ان کے خلاف ہونے والے مظالم کو چھپایا نہیں جاتا بلکہ مین سٹریم میڈیا پر فلسطین میں ہونے والے واقعات کی خبریں تفصیل سے آٓتی ہیں۔ تاہم دنیا میں ایسے مسلمان بھی موجود ہیں، جن پر مظالم کا سلسلہ گذشتہ کئی برسوں سے جاری ہے، مسلمان عوام ان مظالم کے حوالے سے تقسیم کا شکار ہے اور مین سٹریم میڈیا پر ان مظالم کی کوئی خبر دیکھنے کو نہیں ملتی۔ یمنی عوام گذشتہ چھے برسوں سے محاصرے، خانہ جنگی، بھوک، افلاس، بیماریوں اور فضائی حملوں کا شکار ہے، تاہم اس کی نہ تو کوئی خبر آتی ہے اور نہ ہی مسلم امہ میں ان یمنیوں سے اظہار محبت یا ہمدردی کا ایک جملہ صادر ہوتا ہے۔ یہی حال بحرین اور نائجیریا کے مسلمانوں کا ہے، جن کی پرامن عوامی تحریک کو ظلم و جبر سے کچلا گیا، تاہم نہ تو میڈیا پر اس حوالے سے کوئی اطلاعات آئیں، نہ انسانی حقوق کے اداروں کو کوئی پریشانی ہوئی اور نہ ہی امت مسلمہ میں کوئی ہل چل ہوئی۔

فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین تازہ جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا، جب اسرائیل نے رمضان المبارک کے آغاز میں ہی بیت المقدس کے دمشق گیٹ کے باہر سکیورٹی رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور فلسطینی عوام ان کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ اسی علاقے کے قریب انتہاء پسند قوم پرست یہودیوں کے مارچ سے غصے میں مزید اضافہ ہوا۔ یہ مظاہرہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو کے نتیجے میں ہوا تھا، جس میں فلسطینیوں نے شہر میں قدامت پسند یہودیوں پر حملے کیے اور پھر یہودیوں نے فلسطینیوں پر حملے کیے۔ اسرائیلی سیکورٹی اداروں نے فلسطینی نمازیوں پر مسجد اقصیٰ میں حملہ کیا اور ان حملوں کے نتیجے میں کئی ایک فلسطینی شدید زخمی ہوئے۔ حماس نے ان حملوں کے جواب میں اسرائیل پر متعدد راکٹ حملے کیے اور جواباً اسرائیلی فضائیہ نے غزہ پر فضائی حملوں کا آغاز کر دیا۔ اسرائیلی فضائی حملوں میں اب تک جہاد اسلامی کے دو کمانڈروں سمیت چوبیس فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں نو بچے بھی شامل ہیں۔ عالمی قائدین دونوں گروہوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہ رہے ہیں، جبکہ بعض قائدین نے اسرائیلی اقدام کی مذمت کی ہے۔

اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین یہ آنکھ مچولی کوئی نہیں بات نہیں ہے، جس کا آغاز اکثر اسرائیلی سکیورٹی اداروں کی جانب سے ہی کیا جاتا ہے۔ اسرائیل اس طرح کے واقعات کو ایک تزویراتی حربے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس وقت اسرائیل اندرونی سیاسی خلفشار کا شکار ہے۔ بنیامن نتن یاہو کی لیکود پارٹی کی حکومت سازی میں ناکامی سے ملک میں اندرونی سیاسی تعطل طول پکڑ گیا ہے اور اب دو برسوں میں پانچویں عام انتخابات کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اسرائیل میں سیاسی تجزیہ کار بیت المقدس کے علاقے میں حالیہ کشیدگی کو اسرائیل کے اندر موجود سیاسی تعطل سے جوڑ رہے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی  کے مطابق بیت المقدس میں موجود صحافی ہریندرا مشرا کے بقول سیاسی تجزیہ کاروں کی نظر میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کشیدگی کی بڑی وجہ حکام کی جانب سے مسلمانوں کے لیے غیر لچکدار رویئے کا استعمال ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اسرائیلی پولیس کا یہ غیر لچکدار رویہ مسجدِ اقصیٰ میں رمضان کے آخری عشرے میں مسلمانوں کی عبادت کے موقع پر بھی نظر آیا۔ ان کے مطابق اسرائیلی پولیس نے اس سال مسجدِ اقصیٰ کو جانے والے راستوں کو ناکے لگا کر بند کر دیا، جس کے بعد عبادت گاہ کے احاطے میں مسلمانوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان تصادم ہوا۔ اسی دوران اسرائیلی آباد کاروں نے مسلمانوں کے قدیمی محلے شیخ جراح سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کی۔ یہ علاقہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ذاتی معالج کے نام سے منسوب ہے، جو اُس دور میں بیت المقدس میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ ہریندر مشرا کے مطابق بیت المقدس میں نتن یاہو کے غیر لچکدار رویئے کی وجہ سے صرف شہر ہی میں نہیں بلکہ اسرائیل میں بسنے والے 20 فیصد عرب فلسطینیوں کے تمام علاقوں، غرب اردن اور غزہ میں بھی شدید بے چینی اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں نتن یاہو کی حکومت مسلمانوں پر سختیاں کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے، تاکہ ملک میں گذشتہ دو برس میں پانچویں مرتبہ عام انتخاب ہونے کی صورت میں انھیں اکثریت حاصل ہوسکے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ دو برسوں میں اسرائیل میں چار عام انتخابات کروائے جا چکے ہیں اور ان انتخابات میں کوئی بھی اسرائیلی جماعت نہ صرف پارلیمان میں واضح اکثریت لینے میں ناکام رہی ہے بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں پر مشمل کوئی پائیدار اتحاد بھی نہ بن سکا، جو حکومت چلا سکے۔ گذشتہ عام انتخابات کے بعد اسرائیل کے صدر نے اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم اور 30 نشستیں حاصل کرنے والی لیکود پارٹی کے سربراہ نتن یاہو کو حکومت سازی کے لیے اسرائیلی آئین کے تحت 28 دن کی مہلت دی، جس دوران وہ مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ نتن یاہو کو 28 دن کی مہلت گذشتہ ہفتے بدھ کے روز ختم ہونے کے بعد حزب اختلاف کی جماعت کے سربراہ آئر لپد کو 28 دن کا وقت دیا گیا ہے، تاکہ وہ اپنی کوشش کرکے دیکھ لیں۔ ان کی ناکامی کی صورت میں آئین کے مطابق پارلیمان کو 21 دن کا وقت ملے گا کہ اس کا کوئی رکن 61 ارکان کی حمایت ثابت کر دے، بصورت دیگر ملک میں ایک مرتبہ پھر 90 دن میں انتخابات منعقد کروانے پڑیں گے۔

اس سارے سیاسی منظر نامے میں عرب فلسطینیوں کے دو سیاسی دھڑوں یونائٹڈ عرب لسٹ اور جوائنٹ عرب لسٹ کا کردار بھی کافی اہم ہوگیا ہے۔ ان دونوں دھڑوں نے گذشتہ انتخابات میں مجموعی طور پر دس نشستیں حاصل کی تھیں۔ یونائٹڈ عرب لسٹ یا رام کھلائے جانے والے دھڑے کے راہنماء منصور عباس نے کہا ہے کہ وہ ہر اس جماعت کے ساتھ حکومت سازی کے عمل میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، جو ان کی شرائط تسلیم کر لے، لیکن قدامت پسند یہودی جماعتیں ان شرائط کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور کسی ایسے اتحاد کی تشکیل ممکن نہیں ہے، جو ان کی حمایت کے بغیر مطلوبہ تعداد پوری کرسکے۔

پس درج بالا تجزیات سے ظاہر ہے کہ اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف تازہ مہم جوئی سیاسی مفادات کے لیے ہے اور اسرائیل اکثر اس طرح کے واقعات کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یقیناً فلسطینی قیادت بھی اس صورتحال سے آگاہ ہوگی اور اسی تناظر میں مناسب اقدامات کرے گی۔ اس طرح کے واقعات اور ان کے خلاف فلسطینیوں کا آگاہانہ ردعمل دنیا کے سامنے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے حوالے سے تو اہم ہے، تاہم اس سے مسئلے کے دیرپا حل کی توقعات کم ہیں۔ اسرائیل کبھی نہیں چاہے گا کہ ایک چھوٹے سے واقعے کے سبب اسے اسرائیلی ریاست سے ہاتھ دھونا پڑے، واللہ اعلم۔
خبر کا کوڈ : 932124
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش