8
Sunday 16 May 2021 03:30

معرکہ سیف القدس نے اسرائیل کا تکبر خاک میں ملا دیا

معرکہ سیف القدس نے اسرائیل کا تکبر خاک میں ملا دیا
تحریر: محمد سلمان مہدی

اسرائیلی، امریکی اور یورپی ذرائع ابلاغ مقبوضہ بیت المقدس سمیت فلسطین میں جاری حالیہ لڑائی سے متعلق جو خبریں جاری کر رہے ہیں، ان میں وہ دانستہ طور پر دس مئی 2021ء بروز پیر سے اعداد و شمار کا آغاز کر رہے ہیں۔ حالانکہ حالیہ تناؤ 10 مئی 2021ء سے شروع نہیں ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور سے فلسطینیوں کے مکمل خاتمے پر مبنی ڈیل آف دی سینچری کا سازشی منصوبہ سامنے آیا۔ امریکی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا۔ چار پانچ مسلمان ممالک سے اسرائیل نامی جعلی وجود کو ایک ملک تسلیم کروا لیا تھا۔ اس تناظر میں فلسطینیوں کا غم و غصہ اپنی انتہائی حد تک جا پہنچا تھا۔ صدر جوزف بائیڈن کی امریکی حکومت نے بھی ٹرمپ حکومت کی پالیسی کو تبدیل نہیں کیا۔ مقبوضہ بیت المقدس کے محلہ شیخ الجراح میں فلسطینی عربوں کو ان کے قدیمی گھروں سے بے دخل کیا جا رہا تھا۔ ان کی جگہ انتہاء پسند نسل پرست یہودی جعلی دستاویزات جمع کروا کر اسرائیلی عدالت اور اسرائیلی بلدیہ کی مدد سے شیخ الجراح محلے کو یہودی آبادی میں تبدیل کرنے کی سازش پر عمل پیرا تھے۔

یہ اس صورتحال کا ایک رخ تھا۔ دوسرا رخ یہ تھا کہ بیت المقدس کے باب العامود (دمشق گیٹ) پر فلسطینیوں کو ماہ رمضان کے آغاز میں سالانہ اجتماع کرنے نہیں دیا جا رہا تھا۔ فلسطینی رمضان المبارک میں پورے مہینے وہاں اجتماع کیا کرتے ہیں۔ ان دونوں قضیوں میں انتہاء پسند نسل پرست یہودی اور اسرائیلی پولیس کے اہلکار فلسطینیوں پر حملہ آور رہے۔ کسی مقام پر فلسطینی جوانوں نے انتہاء پسند نسل پرست فسادی یہودیوں کی پٹائی کرکے ٹک ٹاک بنا کر ریلیز کر دی تھی اور اسرائیلی میڈیا اور اسرائیل کے حامی اس ٹک ٹاک کو مقبوضہ بیت المقدس میں تناؤ کا نقطہ آغاز ظاہر کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس کے محلہ شیخ الجراح اور باب العامود کے حوالے سے اسرائیل کی جانب سے پہل کی جاچکی تھی۔ سات مئی جمعۃ الوداع کو بھی اسرئیلی انتہاء پسند یہودیوں اور اسرائیلی پولیس نے فلسطینیوں کی عبادت اور یوم القدس میں خلل ڈالا اور ماہ رمضان کی مقدس راتوں میں مسجد اقصیٰ اور القدس کے احاطے میں نمازیوں کی عبادت میں بھی خلل ڈالا،  بلکہ مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کیا۔ بلا اجازت جوتوں اور اسلحے سمیت گھسے، ربڑ کی گولیاں فائر کیں اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔

یاد رہے کہ انٹرنیشنل لاء کے مطابق یروشلم کا کوئی بھی حصہ اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ یعنی وہ غیر قانونی طور پر یروشلم کے مشرقی و مغربی حصے پر قابض ہے۔ لہٰذا اس کی یہ ساری کارروائی ناجائز ہے، کیونکہ اس کی پوری کی پوری حیثیت غیر قانونی ہے اور یہاں اسرائیل کا طویل المدت غیر قانونی قبضہ اقوام متحدہ کی بے بسی اور بے حسی کی وجہ سے ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو اسرائیل اور انتہاء پسند نسل پرست یہودیوں نے پہل کی۔ بیت المقدس پر اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کی یاد میں اسرائیلی نسل پرست غاصب یہودی یروشلم ڈے مناتے ہیں۔ اس ضمن میں نو مئی بعد از مغرب مراسم کا آغاز ہوتا ہے، جو دس مئی کو قبل از مغرب تک جاری رہتا ہے۔ البتہ اس برس یہ ہوا کہ غزہ سے حماس قیادت نے اسرائیل کو تنبیہ کی تھی کہ دس مئی کی شام 6 بجے تک (وہاں کے مقامی وقت کے مطابق) شیخ الجراح سمیت بیت المقدس کا علاقہ خالی کر دیں، ورنہ 6 بجے کے بعد ان پر راکٹ برسائے جائیں گے۔ یعنی یہ کہ غزہ سے حماس قیادت نے ردعمل کا آغاز دس مئی 2021ء سے کیا تھا۔

اسرائیل نے شیخ الجراح سمیت بیت المقدس میں فلسطینیوں کا جینا ویسے ہی اجیرن کر رکھا ہے۔ اس دن بھی فلسطینیوں پر حملے ہوئے، انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ انتہاء پسند نسل پرست یہودیوں نے فلسطینیوں کی تذلیل و توہین پر مبنی وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل کیں۔ ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی حکومت نے غزہ پر میزائل برسانے شروع کر دیئے۔ غزہ کی کثیر المنزلہ عمارات کو میزائل حملوں میں زمیں بوس کر دیا گیا۔ کم و بیش ڈیڑھ سو فلسطینی اسرائیلی میزائل حملوں میں غزہ کے علاقے میں شہید ہوچکے۔ ان میں سے 44 بچے ہیں۔ خواتین کی بھی ایک قابل ذکر تعداد ان شہداء میں شامل ہے۔  پندرہ مئی کو ایک ہی خاندان کے دس افراد جن میں زیادہ تر بچے شامل تھے، اسرائیل کے میزائل حملے میں شہید ہوئے اور تو اور اسرائیل کے میزائل حملوں میں ایک ایسی کثیر المنزلہ عمارت تباہ ہوئی، جس میں الجزیرہ اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے دفاتر تھے۔ حیرت انگیز نکتہ یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اور حتیٰ کہ امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اسرائیل کے اس حملے کی مذمت تک نہیں کی۔

غزہ سے فلسطینی مزاحمتی تحریکوں نے بھی اسرائیلی میزائل حملوں کے جواب میں راکٹ پروجیکٹائل برسائے۔ ان راکٹ اور چھوٹے میزائلوں کے حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ غزہ میں موجود فلسطینی مزاحمتی تحریکوں نے اسرائیل سمیت پورے امریکی زایونسٹ عربی غربی بلاک پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ اس صلاحیت کے حامل ہیں کہ خلیج عقبہ میں اردن اور مصر کے نزدیک اسرائیلی ایلات بندرگاہ تک ان کے راکٹوں کی زد پر ہیں، حالانکہ یہ علاقہ کافی دور ہے۔ دوسری طرف تل ابیب، عسقلان، اسدود، سدیروت، نقیب، بئر سبع سمیت متعدد اہم اسرائیلی علاقے بھی ان کے راکٹوں کی رینج میں ہیں۔ اس صلاحیت کا کامیاب عملی مظاہرہ کرکے بھی دکھا دیا۔ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے راکٹ پروجیکٹائل دفاعی حملوں میں اسرائیل کا جانی نقصان تو کم ہوا ہے، لیکن ان دفاعی حملوں نے دنیا سے اسرائیل کا فضائی اور بحری رابطہ معطل ضرور کر دیا ہے۔ جعلی ریاست اسرائیل کے اندر ریلوے کا نظام بھی شدید متاثر ہے۔ انفراسٹرکچر کا نقصان الگ ہے۔ تیل و کیمیکل تنصیبات تک راکٹوں نے تباہی پھیلائی ہے۔ یعنی اس مرتبہ اسرائیل کا سارا غرور و تکبر فلسطینی مزاحمت نے خاک میں ملا دیا ہے۔

دس مئی 2021ء سے جعلی ریاست اسرائیل کے حکمران مسلسل دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے راکٹ فائرنگ کرنے والے حماس اور اسلامی جہاد کے کمانڈرز کو میزائل حملوں میں مار دیا ہے۔ کبھی کہا کہ حماس کی زیر زمین سرنگیں تباہ کر دی ہیں۔ کبھی کہا کہ حماس کا انٹیلی جنس ونگ، میڈیا ونگ تباہ کر دیا ہے۔ یقیناً اسرائیلی میزائل حملوں میں فلسطینیوں کا جانی و مالی نقصان زیادہ ہوا ہے۔ لیکن اسرائیلی حملے فلسطینیوں کو جوابی حملے کرنے سے روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ 16 مئی2021ء تک اسرائیل میں بتا بتا کر فلسطینی مزاحمتی تحریکوں نے راکٹ برسائے ہیں۔ جعلی ریاست اسرائیل کی ستر فیصد آبادی اپنا بیشتر وقت شیلٹرز میں چھپ کر گذار رہی ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ نہ صرف مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کے علاقوں میں فلسطینی عرب سڑکوں پر جمع ہو کر اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں بلکہ جعلی ریاست اسرائیل کے متعدد علاقوں میں بھی عرب فلسطینی بیداری کی لہر پوری دنیا میں رپورٹ ہو رہی ہے۔ ایسے علاقوں میں انتہاء پسند نسل پرست یہودی اور اسرائیلی فورسز اہلکار اب تک دس عرب فلسطینیوں کو شہید کرچکے ہیں۔ تاحال ان کے حوصلے جوان ہیں۔

یاد رہے کہ صدر جوزف بائیڈن کی نئی امریکی حکومت نے اہم عہدوں پر یہودیوں یا پھر زایونسٹ کرسچن کو رکھا ہے۔ جعلی ریاست اسرائیل کے اعلیٰ حکام امریکا کے دورے کرچکے ہیں۔ امریکی فوجی جرنیل بھی جعلی ریاست اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔ ایک ٹیم مشترکہ فوجی مشقوں کے لیے وہاں آئی ہوئی تھی، لیکن جونہی راکٹ برسنے لگے تو وہ سی 17 طیارے میں بیٹھ کر جرمنی فرار ہوگئے۔ امریکی حکومت بظاہر خود کو لاتعلق ظاہر کرنا چاہتی ہے، لیکن اس نے مقبوضہ بیت المقدس، شیخ الجراح اور غزہ پر اسرائیلی حملوں کی رسمی طور پر مذمت نہیں کی ہے۔ چینی حکومت کے مطابق امریکا نے اس ایشو پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل کے بیان کو جاری ہونے سے بھی رکوا دیا۔ حتیٰ کہ امریکی حکومت نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل کا اس ایشو پر اجلاس بھی نہیں ہونے دیا۔ اسرائیلی حکومت، افواج اور اس کے دیگر ادارے جو کچھ کر رہے ہیں یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت کر رہے ہیں۔ امریکی حکومت ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ روسی خبر رساں ادارے کی ایک خبر کے مطابق ایک طیارے میں امریکا نے اسرائیل کو اسلحہ بھی بھیجا ہے۔ حالانکہ بن گوریان اور رامون ایئر پورٹ بھی بند کر دیئے گئے ہیں۔

دوسری طرف سوشل میڈیا میں حماس کے اسماعیل ھنیہ کے خطاب کا ایک وڈیو کلپ وائرل ہوا ہے، جس میں انہیں 15 اور 16 مئی2021ء کی درمیانی شب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں خطاب کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ ناقدین پوچھ رہے ہیں کہ غزہ کو جب ان کی ضرورت ہے تو ایسے وقت وہ دوحہ میں کیا کر رہے ہیں!؟ یقیناً اس وقت حماس قیادت کو دشمنوں سے زیادہ حامیوں کی جانب سے اخلاقی نوعیت کے دباؤ کا سامنا ہے۔ خاص طور پر قطر اور ترکی کے امریکا سے تعلقات اور ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے حماس کے ساتھ تعلقات ایک عرصے سے فلسطین کے حامی حلقوں میں زیر بحث بھی رہے ہیں۔ حماس کے علاوہ غزہ میں اہم مزاحمتی تحریک فلسطین کی حرکت جہاد اسلامی ہے۔ دوسری طرف پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل اسماعیل قاآنی نے فلسطینی جہاد اسلامی تحریک کے رہنماء زیاد نخالہ سے فون پر بات چیت کی ہے۔ انہوں مے غزہ کی مقاومت و استقامت کو بے مثال و بے نظیر قرار دیتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا ہے۔

اس تحریر کے لکھے جانے تک تل ابیب کی عمارت موشے آویو غزہ کے راکٹوں کی زد پر تھی۔ دوسری جانب اسرائیل نے غزہ کے ایک اسپتال پر میزائل حملہ کرکے اسے تباہ کر دیا۔ مغربی کنارے کے علاقے طولکرم میں بھی اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں پر حملے کیے ہیں۔ فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کی جانب سے اسے معرکہ سیف القدس کا نام دیا گیا ہے۔ سبھی اہل علم و دانش آگاہ ہیں کہ اسرائیل کی پشت پر یہودی سرمایہ دار اور سرمایہ کار بھی ہیں تو پورا نیٹو بلاک بھی اسرائیل کا پشت پناہ ہے۔ اسرائیل کو امریکی زایونسٹ نیٹو غربی عربی بلاک نے ہر طرح سے مسلح کر رکھا ہے۔ فائٹر جیٹ، آبدوزیں، بحری فوجی طاقت، زمینی و فضائی فوجی طاقت۔ کسی بھی حوالے سے مزاحمتی فلسطینی تحریکوں اور جعلی ریاست اسرائیل کے مابین کوئی برابری نہیں ہے۔

باوجود این، فلسطینیوں کی مزاحمت و استقامت یقیناً قابل ستائش ہے۔ فلسطینی مظلوم ضرور ہیں، لیکن کم ترین اسلحے سے بھی جعلی ریاست اسرائیل کا مقابلہ جم کر کر رہے ہیں۔ اس زاویئے سے دیکھیں تو معرکہ سیف القدس کے واقعی فاتح تو فلسطینی ہی ہیں۔ دوسرا خوش کن پہلو یہ ہے کہ اردن  اور لبنان سے بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیل کی مذمت کے لیے لوگ سرحدوں پر جمع ہوئے۔ ایران اور عراق میں بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ امریکی ایوانوں میں فلسطین کی مظلومیت پر آواز احتجاج بلند ہوئی۔ امریکا و برطانیہ و دیگر یورپی ممالک میں بھی عوام اسرائیل کی مذمت کرنے نکلے۔ یہ الگ بات ہے کہ نیٹو اور یورپی یونین کے رکن ممالک کی حکومتیں اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں، لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد اسرائیل کی نسل پرستی اور ظلم و ستم کے شدید مخالف بھی ہیں۔ یعنی اس مرتبہ اسرائیل کو فلسطین اور فلسطین کے حامیوں نے بیک وقت اتنے سرپرائز دیئے ہیں کہ اسرائیل کی ہیکڑی نکال کر رکھ دی ہے۔
خبر کا کوڈ : 932748
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش