0
Monday 17 May 2021 02:40

حماس کی مخالفت کے بنیادی محرکات

حماس کی مخالفت کے بنیادی محرکات
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

ان دنوں حماس حملوں کی زد میں ہے۔ ہر طرح کے حملے ہو رہے ہیں۔ اسرائیل اپنے محاذ سے گولہ باری کر رہا ہے اور بعض مسلمان اپنے اپنے فرقہ وارانہ اور گروہی انداز میں حماس کی مخالفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت ہمارا مقصد حماس کا دفاع یا مخالفت نہیں بلکہ منصفانہ طریقے سے حماس کی مخالفت کے پسِ پردہ افکار اور محرکات کا جائزہ لینا ہے۔ ہم آپ سے یہ بھی درخواست نہیں کریں گے کہ آپ ہمارے اس کالم کو زیادہ سے زیادہ فاروڈ کریں بلکہ ہماری دست بستہ یہ گزارش ہے کہ اگر آپ ہمارے بیان کردہ حقائق سے اتفاق نہیں کرتے تو اس کالم کا بھرپور اور تحقیقی رد لکھیں، تاکہ ہماری اور ہمارے جیسوں کی بھی اصلاح ہو جائے۔

شیخ احمد یاسین نے 1987ء میں حماس کی بنیاد رکھی تھی۔ دراصل اس سے پہلے 1973ء میں شیخ نے غزہ میں اخوان المسلمین کا ایک شعبہ جماعت اسلامی کے نام سے کھولا تھا۔ اس زمانے میں یہ تنظیم فقط رفاہِ عامہ نیز افراد، خاندان اور معاشرے کی تعلیم و تربیت تک محدود تھی۔ بعد ازاں فلسطین کے حالات کے پیشِ نظر اس کے دائرہ کار میں سیاسی اور عسکری جدوجہد کو بھی شامل کیا گیا اور اسی جماعت اسلامی کا نام حماس رکھ دیا گیا۔ موجودہ دور میں یہ ایک فلسطینی، سیاسی و عسکری اور اسلامی مزاحمتی تحریک ہے اور اس کا کنٹرول غزہ کی پٹی پر ہے۔

اب آئیے مسلمانوں میں سے اُن لوگوں کے نظریات اور دلائل کا جائزہ لیتے ہیں، جو اس وقت حماس کے خلاف زبانی اور قلمی طور پر مورچہ زن ہیں۔ اہل تشیع میں سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ فلسطین ایک سُنی اکثریتی منطقہ ہے، ایران کو وہاں اہلسنت کی جنگ لڑنے کے بجائے اپنی اقتصاد اور اہل تشیع کی فلاح و بہبود پر توجہ دینی چاہیئے۔ ایسے معترضین کا برملا اعتراض یہ ہے کہ اسرائیل کے خاتمے سے اہل سنت مزید مضبوط ہونگے اور اس کے نتیجے میں شیعہ دشمنی اور شیعہ کُشی میں اضافے کے علاوہ ایران کو کچھ نہیں ملے گا۔

قابلِ ذکر ہے کہ فلسطین کے اندر مذہب شیعہ کی تاریخ شام میں حضرت ابوذر بخاری ؓ کے قیام سے جا ملتی ہے۔ اس کے بعد چوتھی صدی ہجری میں فاطمیوں کی حکومت کے باعث وہاں مذہب تشیع بہت پھیلا۔ جب 1171ء میں صلاح الدین ایوبی نے فاطمی حکومت ختم کی تو اس کے بعد عثمانی خلافت میں فلسطینی شیعہ دوبارہ نمایاں ہوئے۔ آج بھی فلسطین میں فتحی شقاقی کی تحریکِ جهاد اسلامی، تحریکِ صابرین، مجلس شیعه اعلیٰ فلسطین، انجمن شقاقی، انجمن جوانان اسلامی، ہسپتال احسان خیری، مدرسه نقاء،جمعیت غدیر، جمعیت آل البیت. سمیت متعدد فعال تنظیمیں اور ادارے موجود ہیں۔

معترضین اور ناقدین کا کہنا ہے کہ ایران اس وقت اسرائیل سے لڑنے کے بجائے اس کے ساتھ دوستی اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فلسطین میں صہیونیوں سے مل کر اہلِ تشیع کو مضبوط کرے۔ یہاں پر یہ بتانا بھی انتہائی ضروری ہے کہ ماضی قریب کی بات ہے کہ 2010ء میں حماس کی سکیورٹی سروس کے اداروں نے درجنوں اہل تشیع افراد کو گرفتار اور لاپتہ کیا تھا، جس سے بڑی سطح پر حماس اور فلسطینی اہلِ تشیع کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ اسی طرح غزہ میں ابن بار الخیریہ الاسلامیہ اور "سلفی جہاد" کے نام سے ایسی تنظیمیں موجود ہیں، جو ہمارے ہاں کی سپاہِ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی طرز پر اہل تشیع کے خلاف سرگرم ہیں۔ چنانچہ معترضین موجودہ صورتحال کو ایران کیلئے ایک سنہری موقع قرار دے رہے ہیں، اُن کے مطابق ایران اس وقت صلاح الدین ایوبی سے لے کر آج تک کے سارے حساب برابر کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

ہم نے اہل تشیع میں سے ناقدین اور معترضین کی نقد اور اعتراض پیش کر دیا ہے۔ اب آئیے ان کے فکری اور نظریاتی پسِ منظر کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان شیعہ معترضین میں سے کچھ تو ایسے افراد ہیں کہ جنہوں نے جو سوچ اور سُن لیا ہے، بس اُسی پر قائم ہیں، پرانی باتوں اور اختلافات کو ہی دہرانا اور پھیلانا اُن کا علم اور وطیرہ ہے۔ البتہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، جو شیعہ ہونے کے ساتھ ساتھ لبرل بھی ہیں۔ یہ لوگ اصلاً دین کی بالا دستی، مسلمانوں میں اتحاد اور بھائی چارے کے سخت خلاف ہیں۔ یہ تاریخ کا باقاعدہ مطالعہ اور تحقیق کرکے ایسی ابحاث، تالیفات، مجلات اور کتابوں کو سامنے لاتے ہیں، جو  مسلمانوں کے درمیان دوری، فرقہ واریت، جدائی اور نفرت کا باعث بنیں۔ اہلِ تشیع کے ہاں انہیں برطانوی شیعہ کہا جاتا ہے اور یہ اکثر برطانیہ میں ہی مقیم ہوتے ہیں اور وہیں سے ان کی سرپرستی کی جاتی ہے۔

اب آئیں اُن لوگوں کی طرف جو اہلِ سنت میں سے ہیں اور حماس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان میں سے جو عام عوام اور سُنی سنائی باتوں پر چلنے والے ہیں، اُن کے بارے میں ہم بات نہیں کریں گے۔ البتہ جو باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت حماس کے خلاف سرگرم ہیں، اُن میں سے اکثر وہ ہیں، جو پڑھے لکھے ہیں اور سعودی عرب سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اخوان المسلمین سے ڈرتے ہیں۔ اخوان المسلمین کی بنیاد شیخ حسن البنا نے مصر میں1929ء میں رکھی تھی۔ یہ بنیادی طور پر مصری مسلمانوں کی ایک تنظیم ہے، جو  نظریاتی طور پر عرب قوم پرستی کے شدید خلاف ہے اور وحدتِ اسلامی پر ایمان رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس چونکہ اصل میں نظریاتی طور پر اخوان المسمین کی ہی پروردہ ہے، اس لئے مسئلہ فلسطین کو عربوں کا مسئلہ نہیں سمجھتی بلکہ اسے سارے عالم ِ اسلام کا مسئلہ سمجھتی ہے۔

اسی طرح حماس کے نزدیک اسرائیل صرف عربوں، اہلِ سُنت یا فلسطینیوں کا دشمن نہیں بلکہ سارے مسلمانوں کا دشمن ہے۔ یہاں سے یہ بات بھی بخوبی سمجھ آتی ہے کہ ایران اور حماس کو آپس میں یہی نظریہ متحد کرتا ہے کہ دونوں اسلامی وحدت پر ایمان رکھتے ہیں، مسئلہ فلسطین کو سارے مسلمانوں کا مسئلہ اور اسرائیل کو سارے مسلمانوں کا دشمن سمجھتے ہیں۔ اگر ہمیں حماس کے مخالفین اور معترضین کے نظریات پسند ہیں تو ظاہر ہے کہ ہمیں حماس کی مخالفت سے نہیں روکا جا سکتا، لیکن اگر ہم حماس کے نظریات کو برحق اور درست سمجھتے ہیں تو پھر اس مشکل وقت میں ہمیں شیعہ و سنی، سعودی اور مصری وغیرہ سے بلند ہو کر حماس کی ہر طرح کی زبانی، کلامی، قلمی، اخلاقی اور سیاسی مدد کرنی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 932922
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش