0
Thursday 20 May 2021 10:45

ایران سعودیہ مذاکرات، امن کی خواہش یا امریکہ کیلئے دھمکی؟؟

ایران سعودیہ مذاکرات، امن کی خواہش یا امریکہ کیلئے دھمکی؟؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

سعودی عرب کی جانب سے ایران کیساتھ تعلقات کی بہتری کا عندیہ اور مذاکرات کا سلسلہ کامیابی سے ہمکنار ہوسکے گا یا ماضی کی طرح اس بار بھی اس میں سعودی عرب کے مقاصد کچھ اور ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر مبصر، تجزیہ کار اور صحافی تلاش کر رہا ہے۔ ایران نے روزِ اول سے یہ پالیسی رکھی ہے کہ ہمسایوں کیساتھ بہتر تعلقات ہی خطے میں قیام امن کیلئے خشت ِاول ہیں۔ ایران نے سعودی عرب سمیت کسی بھی ہمسایہ ملک سے مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا۔ اگر بات کی جائے ایران سعودی تعلقات کی تو اس میں سردمہری یا بے اعتنائی کا مظاہرہ ہمیشہ سعودی عرب کی جانب سے ہی کیا جاتا رہا ہے۔ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ سے امریکہ کا کردار بہت زیادہ موثر رہا ہے۔ سعودی عرب نے خطے میں ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کیلئے ہمیشہ امریکی رائے اور مشورے کو مقدم سمجھا ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ امریکہ نے اپنا اسلحہ بیچنے اور ایران کو نیچا دکھانے کیلئے ہمیشہ سعودی کندھا استعمال کیا ہے، مگر اس میں ایران کے معاملے تک امریکہ کو ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

افغان وار کیلئے طالبان کا کردار ہو یا پاکستان میں دہشتگردی اور فرقہ واریت کو فروغ دینے کیلئے القاعدہ، لشکر جھنگوی یا سپاہ صحابہ کی ضرورت، ان سب کے پیچھے امریکہ ہی کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ آج بھی کالعدم سپاہ صحابہ کی موجودہ قیادت اعتراف کرتی ہے کہ ماضی میں وہ استعمال ہوئے ہیں۔ سابق امریکی سیکرٹری خارجہ کونڈالیزا رائس ہوں یا ہیلری کلنٹن، دونوں کے بیانات ریکارڈ پر ہیں، جنہوں نے کھلے بندوں اعتراف کیا کہ انہوں نے وہابی اسلام کو فروغ دیا اور اس کی آڑ میں مشرق وسطیٰ میں دہشتگردی اور فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی۔ وہ امریکہ جو کل تک مشرق وسطیٰ کو آگ و خون میں غلطاں کرنے میں مصروف تھا، آج کیسے مان لیا جائے کہ وہ مسلمانوں کا خیر خواہ ہوسکتا ہے۔ امریکہ وہ بچھو ہے، جس کی فطرت ہی ڈسنا ہے، اسے دوست بنا لیا جائے تو بھی ڈسے گا اور دشمن کے طور پر دیکھا جائے تو بھی ڈسنے سے باز نہیں آئے گا۔ دوست بنانے سے نقصان ہونے کا احتمال یقینی ہے، جبکہ دشمن کی صورت میں محتاط رہا جاتا ہے کہ دشمن سے بچنا ہے، اس لئے امریکہ سے محفوظ رہنے کیلئے اس کی دشمنی ہی مفید ہے۔

سعودی عرب امریکہ سے دوستی کا خمیازہ بھگت چکا ہے۔ ٹرمپ نے سعودی عرب کو دودھ دینے والے گائے سے تشبیہ دی اور اس سے خوب فائدہ اُٹھایا۔ اس کے برعکس امریکہ سعودی عرب کو تحفظ دینے میں ناکام رہا۔ یمن اور شام و عراق کے معاملے میں امریکہ کو ہونیوالی عبرتناک شکست نے اس کے "سپرپاور" ہونے کے زعم کو مٹی میں ملا دیا۔ اب سعودی عرب کو احساس ہوچکا ہے کہ امریکہ کی سپرپاور محض کھوکھلے دعوے ہیں۔ امریکہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سعودی عرب کیساتھ واشنگٹن کے تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر کہا جائے کہ امریکہ کی نئی حکومت نے سعودی گائے کا مزید دودھ لینے سے انکار کر دیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ جوبائیڈن سعودی عرب کے حوالے سے ٹرمپ کی پالیسیوں کے ماضی میں بھی نقاد رہے ہیں اور اب بھی اقتدار میں آتے ہی انہوں نے وہ تمام پالیسیاں تبدیل کر دی ہیں، جن کا تعلق سعودی عرب کیساتھ تھا۔

امریکہ کی جانب سے لفٹ نہ ملنے پر سعودی عرب کو ہمسائے یاد آگئے ہیں۔ اب سعودی عرب کی کوشش ہے کہ امریکہ کی حمایت سے محروم ہونے کے بعد کم از کم ایران کیساتھ تعلقات بہتر کرلے۔ اس سے سعودی عرب محفوظ ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بن سلمان نے اپنے محکمہ خارجہ کو ایران کیساتھ مذاکرات کرنے کی اجازت دی۔ مذاکرات کا یہ دور عراق سے شروع ہوا، جس کی مختلف نشستیں ہوچکی ہیں۔ ایران سعودیہ مذاکرات کے حوالے سے سعودی عرب کے وزیر خاجہ فیصل بن فرحان کا پیرس میں کھڑے ہوکر مذکراتی عمل پر مثبت پیشرفت قرار دینا امریکہ کیلئے پیغام تھا۔ پیرس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران فیصل بن فرحان نے کہا کہ ہم نے ابتدائی بات چیت کا عمل شروع کیا ہے، یہ ابھی بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن ہم اس کے بارے میں پُراُمید ہیں۔ شہزادہ فیصل نے کہا کہ اگر ایرانی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات ہی ان کے مفاد میں ہیں تو پھر میں پُرامید ہوسکتا ہوں۔ ایک سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ ایران کی خارجہ پالیسی کا تعین سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کرتے ہیں، اس لیے ایران میں صدارتی انتخابات کا سعودی عرب اور ایران کے مذاکرات پر اثر نہیں پڑے گا۔

سعودی وزیر خارجہ کا یہ بیان امریکیوں کو پیغام دینا تھا کہ آپ اگر ہماری سرپرستی سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں تو ہم ایران کیساتھ تعلقات بہتر کر لیں گے، جس کا نقصان امریکہ کو ہی ہوگا۔ سعودی عرب کی یہ پالیسی امریکہ کو "منانے" کیلئے دکھائی دے رہی ہے۔ امریکی صدر آج اعلان کر دیں کہ وہ سعودی عرب سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں اور وہ بہت جلد سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔ سعودی عرب اسی وقت ایران کیساتھ مذاکراتی عمل کی بساط وہیں لپیٹ دے گا۔ خطے میں ایران نے اپنی استقامت سے اپنا سربلند کیا ہے۔ آج ایران ایک قوت ہے۔ ایران کا دفاع ماضی کی نسبت بہت زیادہ مضبوط ہے۔ ایران کا خطے کے دیگر ممالک میں بھی اچھا خاصا اثر و رسوخ  ہے۔ عراق و شام کو دہشتگردی کے عفریت اور داعش سے نجات دلانے میں سب سے اہم کردار ایران کا ہی رہا ہے۔ آج یہ دونوں ملک ایران کے ممنون ہیں۔ حزب اللہ کے وجود کے باعث لبنان بھی ایران کے شانہ بشانہ ہے۔ یمن میں ایران کیلئے مکمل حمایت موجود ہے۔ پاکستان بھی ایران کیساتھ ہے، البتہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اہم نقطہ یہ ہے کہ دو مسلم ممالک کے لڑائی میں پاکستان غیر جانبدار رہتا ہے۔ اس لئے پاکستان کی اخلاقی سپورٹ ہمیشہ ایران کیساتھ رہی ہے۔ ماضی میں ایران عراق جنگ میں پاکستان نے ایران کی حمایت کی تھی۔ افغانستان میں بھی ایران کو طالبان اور حکمران جماعت دونوں کی حمایت حاصل ہے۔

سعودی عرب کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ ایران اقتصادی پابندیوں کے باوجود اپنے قدموں پر کھڑا ہے، جبکہ سعودی عرب امریکہ پر اکتفا کرکے بھی اپنا دفاع مضبوط نہیں بنا سکا۔ اوپر سے حالیہ اسرائیل فلسطین تصادم نے بھی سعودی عرب کو انڈر پریشر کر دیا ہے۔ سعودی عرب کھل کر اسرائیل کی حمایت بھی نہیں کرسکتا۔ اس صورتحال میں سعودی عرب اب بھی امریکہ سے اُمید لگائے ہوئے ہے اور اسی امید کے تابع امریکہ کو ایران کیساتھ تعلقات کی بہتری کا خوف دلا کر اس کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ مگر زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ امریکہ مزید خطے میں ٹکنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ یہ اپنا بوریا بستر باندھ چکا ہے۔ اب سعودی عرب کو امریکہ کی طرف دیکھنے کی بجائے نیک نیتی سے ایران کیساتھ ہی اپنے تعلقات مستحکم کر لینے چاہیئں، تاکہ اس سے جہاں خطے میں امن قائم ہوگا، وہیں مسلم اُمہ بھی مضبوط ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 933519
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش