0
Friday 21 May 2021 16:30

فلسطینی مزاحمت کی کامیابی کے گیارہ دن

فلسطینی مزاحمت کی کامیابی کے گیارہ دن
تجزیاتی رپورٹ: توقیر کھرل

منظر بدل گیا ہے، گیارہ دن پہلے صہیونی مسجد الاقصیٰ کے دوسری طرف یومِ اسرائیل کا جشن منا رہے تھے۔ آج فلسطینی مسجد الاقصیٰ میں مِنی جنگ میں استقامت کا جشن منا رہے ہیں۔ قارئین محترم! ارض فلسطین میں جنگ بندی کا اعلان ہوچکا ہے اور فلسطینی عوام غزہ سمیت تمام علاقوں میں کامیابی کا اعلان کر رہے ہیں۔ بظاہر یہ مِنی جنگ تھی لیکن بڑی طاقت کے ساتھ، بڑی شجاعت اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا گیا۔ آپ جنگ کے خلاف تھے یا حامی تھے، بہر طور آپ کے خیال میں کس نے کتنا نقصان اٹھایا اور فتح یاب کون ہوا؟ غیر جانبدار اور حقائق کی بنیاد پر تجزیہ ضرور کریں۔ صہینونی اخبارات اور تجزیہ نگاروں کے مطابق فلسطینی مزاحمت نے اس مِنی جنگ میں بڑے پیمانے پر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ گیارہ روز کی جنگ میں دنیا کے سامنے بظاہر بڑی طاقت اسرائیل کی شکست و ریخت کو عبرت کا استعارہ بنا دیا گیا ہے۔ اسرائیل کو ناکامی کے آغاز کی طرف لایا گیا ہے، یعنی ایک ایسی مسلسل ناکامی جس کی کامیابی کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

حماس نے دنیا پر یہ بھی ظاہر کر دیا کہ اسرائیل واقعی دہشت گردی کا اڈہ اور جارحیت پسند ہے، جو اپنی سکیورٹی کے نام پر معصوم عوام کا قتل ِعام، الجزیرہ سمیت غزہ کے عوام اور عمارتوں پر حملے کرتا ہے۔ شجاع فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ مسئلہ فلسطین کا حل صرف اور مزاحمت ہے۔ فتح تحریک کا نعرہ کہ دو ریاستی حل کی طرف جایا جائے، یہ بیانیہ بھی ناکام ہوا اور حماس کا نعرہ اور ہدف کہ فلسطین صرف اور فلسطینوں کا ہے، کامیاب اور کامران ہوا ہے۔ حماس نے گیارہ روز میں ایک طرف جہاں اسرائیل کو شکست سے دوچار کیا ہے، وہاں فتح تحریک پر بھی آشکار کر دیا ہے کہ مزاحمت ہی راہ حل ہے۔

صیہونی تجزیہ نگاروں کے مطابق نیتن یاہو حکومت کی گمراہ کن حکمت عملی کے باعث جنگ گلیوں کے اندر تک گئی۔ وہ اسرائیل جو حزب اللہ اور ایران سے نبرد آزما ہونے کا دعویٰ کرتا تھا، فلسطینیوں کے مزاحمتی گروہ کے آگے بے بس نظر آیا اور اس گروہ نے مقبوضہ علاقوں کو آسانی سے نشانہ بنایا۔ گیارہ روزہ جنگ کی ایک کامیابی یہ بھی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم جو شیخ جرح کے علاقے سے فلسطینیوں کو ان کے گھر سے بے دخل کر رہی تھی، اب اس جارحانہ عمل سے بھی رُک جائے گی اور یہ حماس کی طرف سے جنگ بندی کی بنیادی شرط بھی ہے۔ صہینونی ریاست اسرائیل اور فلسطینی مزاحمت کے مابین 27 رمضان المبارک کی شب کو جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ اسرائیل کی جانب سے مشرقی بیت المقدس پر قبضے کا سالانہ جشن "یومِ یروشلم" منانے سے قبل ہی علاقے میں کشیدگی جاری تھی۔

فلسطینی اور اسرائیلی پولیس کے مابین جھڑپیں ہوئی اور اسرائیلی پولیس نے نہتے فلسطینوں پر اسٹین گرینیڈ استعمال کیے اور یوں گیارہ روزہ جنگ کا آغاز ہوا۔ مسجد الاقصیٰ میں درختوں کو آگ لگائی گئی۔ دوسری طرف یہودی اچھل اچھل کر یومِ اسرائیل کا جشن مناتے ہوئے مسلمانوں کو اشتعال دلا رہے تھے، یہ روز یہودیوں کے جشن کا دن تھا، لیکن ان کی رسوائی کا سبب بنا، گیارہ روز بعد منظر بدل گیا ہے۔ یومِ اسرائیل پر شروع ہونی والی جنگ کے خاتمہ کے بعد شجاع فلسطینی استقامت، مظلومانہ جدوجہد، شجاعت کا جشن منا رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی استقامت نے ثابت کیا ہے کہ ارضِ فلسطین پر رہنے کا حق صرف اور فلسطینیوں کا ہے اور اپنی زمین، آئیڈیالوجی اور اہداف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے

صہیونی ریاست جسے اپنے آئرن ڈوم پر بڑا مان تھا، اس لوہے کی دیوار میں سوراخ ہوگیا۔ یہی وجہ ہے اسرائیل کے سب سے بڑی حامی امریکہ نے اسرائیل کو آئرن ڈوم کو مزید مضبوط کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ گویا اسرائیل کی مصنوعی اور افسانوی طاقت کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا ہے۔ گیارہ دن میں فلسطینی شہداء کی قربانیوں کی بدولت دنیا بھر سے مظلومین کی داد رسی میں آزاد خیال افراد نے غزہ کے حق میں صدائے احتجاج بلند کیا اور دنیا بھر کے انسانوں نے بلا تفریق و مذہب فلسطینیوں کی حمایت کی یہ ایک بڑی تبدیلی ہے، جو صرف فلسطینیوں کی استقامت اور شہداء کی قربانیوں کی بدولت حاصل ہوئی۔ گیارہ دن امت مسلمہ کا کردار سب کے سامنے ہے، مسلمانوں کا بچہ بچہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور کسی بھی قربانی کے لئے تیار نظر آیا، مگر بدقسمتی سے دوسری طرف قراردادی مسلمانوں کی منافقت بھی آشکار ہوئی، جنگ کے دوران اور بعد ازاں بھی ایران نے حماس کی مکمل حمایت کی اور ہر قسم کی مدد کی۔

اس جنگ کے دوران ایران اور مقاومتی طاقتوں کا کردار سب کے سامنے ہے، باقی اردوغان اور دیگر زبانی جمع خرچ کرنے والوں کا بھی راز فاش ہوچکا ہے۔ دشمن سے نبرد آزما حماس نے کئی مرتبہ ایرانی مدد پر شکریہ ادا کیا، مگر دوسری امت مسلمہ کے نام نہاد رہنماوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہم مسلمان کمزور ہیں اور اسرائیل بڑی طاقت ہے، مگر سلام ہو فلسطینی مزاحمت پر، انہوں نے مظلومانہ جدوجہد سے استقامت کے سفر کو جاری رکھا۔ حماس نے کیسے اسرائیل کی گلیوں تک جنگ پہنچائی، یہ خود صہیونیوں کے لئے بھی حیران کن تھا۔ گیارہ روز کی جنگ میں اسرائیل مکمل طور پر بیانیہ کی جنگ بھی ہار چکا ہے۔ یہی وجہ ہے غزہ میں بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے الجزیرہ کا دفتر میزائل حملہ میں تباہ کر دیا، یہ دراصل صیہونیوں کی بوکھلاہٹ اور شکست کا اعلان تھا۔

صیہیونیوں کی ناکامی کا اعتراف اسرائیلی اخبار اور پارلیمنٹ کے ممبران بھی کر رہے ہیں، ہاریتز اخبار صہیونیوں کا سب سے مستند اخبار ہے۔ اخبار کے ایڈیٹر ان چیف ایلوف بین نے اداریہ میں جنگ بندی سے ایک روز قبل جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اداریئے میں اسرائیلی فوج کے آپریشن پر تنقید کرتے ہوئے اسے ناکام ترین اور بے معنی کارروائی قرار دیا۔ مزید لکھا کہ "غزہ میں جاری کارروائی کی وجہ سے اسرائیلی فوج کی تیاریوں، رویئے اور ناکامیوں کا سلسلہ بے نقاب ہوگیا ہے اور اس کے پیچھے بے بس اور پریشانی کا شکار اسرائیلی حکومت اور اس کی قیادت ہے۔ ہم نے کئی سخت فوجی اور سفارتی ناکامیاں دیکھیں ہیں، جن کی وجہ سے ہماری فوج کی تیاریوں اور کارکردگی میں پائی جانے والی کمی واضح ہو کر سامنے آئی ہیں اور ساتھ ہی یہ بات بھی کھل گئی ہے کہ اسرائیلی قیادت کنفیوژن کا شکار اور بے بس ہے۔ غزہ میں تباہی، بربادی اور موت پھیلا کر فاتحانہ تاثر پیش کرنے کی بیکار کوشش کرنے اور اسرائیلیوں کی زندگی تہس نہس کرنے کی بجائے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کو چاہیئے کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کریں۔"

ایک اور اسرائیلی اخبار یدیعوت آحا رونوت نے لکھا کہ حکومت کو 2006ء جنگ کی طرز پر کمیشن بنانا چاہیئے، جو اس گیارہ روزہ جنگ کے پیچھے ناکامی پر اپنی رپورٹ پیش کرے۔ اسرائیلی حزب اختلاف کے رہنماء یایر لپید نے اسرائیلی وزیراعظم پر کڑی تنقید کی ہے کہ نیتن یاہو کو جانا ہوگا۔ نیتن یاہو کی ناکامیاں میرون، غزہ، الاقصیٰ اور اللد تک پھیل چکی ہیں۔ مذہبی صہیونت پارٹی بِن کفیر نے کہا کہ جنگ بندی اصل میں حماس کی مرضی کے سامنے ہماری شکست ہے۔ قارئین آخر میں یہ عرض کروں گا کہ مظلومین ایسے ہی فتح یاب ہوتے ہیں۔ اپنی آئیڈیالوجی سے، اپنی زمین سے، اپنی فکر سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ عزت اور شجاعت کا راست ، مظلومانہ جدوجہد کا راستہ ہی کربلا کا راستہ ہے۔ فتح کا راستہ ہے۔

گیارہ دن مسلسل ظلم و ستم کیا گیا، مگر سلام ہو ہمارا فلسطین کی شجاع اور بہادر قوم پر کہ جس نے استقامت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا اور صہیونیوں کے غرور اور طاقت کے پہاڑ کو خاک میں ملا دیا۔ امت مسلمہ میں اکثریت یہ سمجھتی تھی کہ صہیونی ریاست کوئی بہت بڑی طاقت ہے، مگر پوری دنیا نے دیکھا کہ گیارہ دن فلسطینی عوام نے اپنے ہدف کو نشانہ بنایا  اور ثابت کیا کہ ارضِ فلسطین صرف اور صرف فلسطینیوں کی ہے، یہاں پر رہنے کا حق صرف فلسطینیوں کو ہے اور مظلومانہ جدوجہد کرنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ ارضِ فلسطین کو کامیابی و نصرت مبارک
 سلام بر شہدائے فلسطین
 مقاومت زندہ باد
 اسلام پائندہ باد
✌🏻✌🏻✌🏻✌🏻🚩✌🏻✌🏻✌🏻
خبر کا کوڈ : 933729
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش