0
Saturday 22 May 2021 04:18
اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے ساتھ ہیں

مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ویبنار، اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے

اسرائیلی دہشتگری پر امریکی منافقت کا پردہ چاک کرنا چاہیئے
مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ویبنار، اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے
رپورٹ: ایم رضا

غزہ پر صیہونی دہشتگردی اور مسجد اقصیٰ پر حملے اور سنگین جنگی جرائم کے خلاف مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ویبنار کا انعقاد کیا گیا۔ فلسطین فاؤنڈیشن کی جانب سے منعقدہ ویبنار میں مسلم لیگ ق کے رہنما، چیئرمین پارلیمنٹری فورم برائے فلسطین، کشمیر اور روہنگیا مشاہد حسین سید، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری، معروف دفاعی تجزیہ کار لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ، ایران میں مقیم حماس کے سفیر ڈاکٹر خالد قدومی، جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ اور معروف پاکستانی صحافی حامد میر نے شرکت کی۔ اس موقع پر مقررین کے پیش کئے گئے خیالات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔

ڈاکٹر خالد قدومی (رہنما حماس)
حماس کے سفیر ڈاکٹر خالد قدومی نے فلسطینیوں کی غیر ملتزلزل حمایت پر پاکستانی حکومت،  پاکستانی اور ترکی کے عوام اور ایران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حمایت فلسطینیوں کے لئے بہت اہم ہے، محصور غزہ کے عوام بین الاقوامی سطح پر  مزاحمت کی ایک عظیم مثال بن چکے ہیں، جو گذشتہ کئی سالوں سے اسرائیلی ناکہ بندی کا شکار ہیں، جنہوں نے بدترین معاشی ناکہ بندی کے باوجود اسرائیلی آرمی کے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کو چکنا چور کردیا ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں فلسطینی مؤقف کی حمایت اور صیہونی مؤقف کی مخالفت بڑھتی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں لیکن جن ممالک کے غیر قانونی صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات ہیں ان کے اس مجرمانہ اقدام پر انہیں  مجرم قرار دینا چاہیئے۔ ڈاکٹر خالد قدومی نے کہا کہ مسلم ممالک کی افواج کو متحد کرکے اصل دہشتگرد اسرائیل کے خلاف استعمال ہونا چاہیئے۔ انہوں نے صیہونی ریاستی دہشتگردی کے خلاف ترکی، ایران، پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا اور عرب ممالک کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی مرتب دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف صف بندی کریں جس نے سرکشی کی تمام حدیں پار کرلی ہیں۔

ڈاکٹر شیریں مزاری (وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق)
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیری مزاری نے اپنے خطاب کا آغاز فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیلی دہشتگردی کی مذمت کرتےہوئے کیا۔ انہوں نے اسرائیلی دہشتگردی میں شہید ہونے والے افراد کے اہلخانہ سے شہداء کی شہادت پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ مشکل گھڑی میں پوری پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے۔ شیری مزاری نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں بنانے جانے والے 41 ممالک کے اسلامی ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وقت نہیں ہے کہ ہم دہشتگردی پر بحث کریں بلکہ یہ وقت ہے کہ اسرائیلی دہشتگردی کے خلاف عملی اقدامات کئے جائیں، اگر یہ اتحاد اسرائیل کی دہشتگردی کے خلاف عملی اقدامات شروع کرتا ہے تو وہ ممالک بھی اس میں شامل ہوں گے جو اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں، خاص طور پر ایران اس اتحاد کا بخوشی حصہ بننے کیلئے تیار ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ مقبوضہ فلسطین میں ہونے والے حالیہ اسرائیلی دہشتگردی صرف فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز اور قتل عام تک نہیں رکی ہے بلکہ اب انہوں نے مذہب اسلام کو اپنا ہدف بنایا ہے، یہ سب سامنے ہے کہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز نے رمضان المبارک کے مہینے میں مسجد الاقصیٰ میں اذان دینے پر پابندی عائد کی جو نا صرف فلسطینیوں کے خلاف ہے بلکہ دین اسلام کے بھی خلاف ہے، اسرائیل دین اسلام اور دیگر مذاہب کو اسرائیل سے ختم کرنے کیلئے ناقابل قبول اقدامات کررہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جنیوا کنونشن کے تحت ہر اس طاقت کو جس نے کسی ملک پر قبضہ کر رکھا ہو یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہونے دے لیکن اسرائیل نے وہی طریقہ کار اختیار کیا ہوا ہے جو بھارت نے کشمیر میں روا رکھا ہوا ہے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ نسلی عصبیت بین اقوامی قوانین کے تحت جرم ہے لیکن  فلسطینیوں کے خلاف اس کا کھلے عام مظاہرہ کیا جارہا ہے، نازی ہٹلر کے بعد ہم نے دیکھا کے عالمی برادری خاص طور پر مغربی معاشرے نے اقوام متحدہ پر  زوردیا کہ وہ (Right To Protect) کو اپنے بنیادی قوانین میں شامل کریں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین میں مسلسل انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے ساتھ فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کی جارہی ہے اور یہ سب اس لئے جاری ہے کیونکہ طاقتور ممالک اسرائیل کے حق میں خاموش ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ اب یہاں تک نہیں رہا ہے بلکہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی اب اپنے جرائم کو فخر کے ساتھ بلا خوف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر شیئر کررہے ہیں اور پوری دنیا کو بے خوفی سے بتارہے ہیں کہ ہم یہاں نسل کشی کررہے ہیں جو انہائی تشویشناک ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کے تحت اسرائیلی بستیاں غیر قانونی ہیں، اس صورتحال میں یا تو بین الاقوامی برادری کو سختی سے بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد کرانا چاہیئے یا یہ پھر صاف الفاظ میں بتادیا جانا چاہیئے کہ یہ قوانین مطلقہ ہیں۔ انھوں نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ او آئی سی کا کردار کیا ہے؟ او آئی سی کے قیام کا بنیادی مقصد ہی القدس تھا اور او آئی سی بھی اس حوالے سے بیان بازی سے کام چلا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی اختلافات ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین کے حوالے سے پوری قوم تمام سیاسی اور جماعتیں اور عوام متحد ہیں۔

انہوں نے او آئی سی کے ممبر ممالک جنہوں نے حالیہ ہی اسرائیل کو تسلیم کیا ہے، ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر قابض صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لیں، ورنہ بیانات اور مذمت سے فلسطینیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لینا ایک طاقتور اقدام ہوگا جس کا اثر ہوگا بصورت دیگر بیانات بے اثر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہیں وہ طاقتور اقدامات جس کے ذریعے ہم اسرائیل کو سخت جواب دے سکتے ہیں ، جب یہ اتحاد دہشتگردی کے خلاف بنایا گیا ہے تو کیوں نہیں یہ اسرائیلی ریاستی دہشتگردی کو روکنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسلم امہ کا مشترکہ مسئلہ ہے، یہ مسجد اقصیٰ کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔

مشاہد حسین سید (صدر پاکستان پارلیمنٹری فورم برائے فلسطین، کشمیر اور روہنگیا)
سینیٹر مشاہد حسین سید نے مقبوضہ فلسطین پر صیہونی ریاست کے سنگین جرائم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ  اسرائیل ایک غیرقانونی صیہونی ریاست ہے، پاکستان اسرائیل کو کبھی بھی ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی کیسی انفرادی شخصیت کی جانب سے مرتب نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ پالیسی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی جانب سے دی گئی ہے۔ مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ او آئی سی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تمام مسلم اور وہ ممالک جو اسرائیلی دہشتگری کے خلاف بولنے کی ہمت رکھتے ہیں سب کو مل کر ایک  مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے اور امریکی صدر بائیڈن، یو این کے سیکریٹری جنرل اور دیگر عہداران کو لکھنا چاہیئے اور امریکی منافقت کا پردہ چاک کرنا چاہیئے، یہ بہت ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، ہم نے اسرائیل کے خلاف دو جنگوں میں براہ راست حصہ لیا ہے، ہمارے پائلٹس نے اسرائیل کے جہازوں کو گرایا ہے، پاکستان پہلا غیر عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کے خلاف عربوں کا ساتھ دیا تھا اور آج بھی پاکستان کی پالیسی واضح ہے، ہم اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے ساتھ ہیں، ہم ہر سطح پر اسرائیلی جنگی جرائم کی مذمت کرتے ہیں، اسرائیل نے حالیہ جارحیت میں میڈیا ہاؤسز پر بھی بمباری کرکے سنگین جنگی جرم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سلام پیش کرتا ہوں فلسطینی مزاحمت کاروں کو جنھوں نے قابض ریاست کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر فوری طور پر غزہ کی غیر قانونی ناکہ بندی ختم کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

لیاقت بلوچ (سیکریٹری جنرل ، جماعت اسلامی پاکستان)
جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے او آئی سی کے کردار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے او آئی سی کے ان ممبران جنہوں نے حالیہ اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کیا ہے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی ریاستی دہشتگردی کے خلاف فوری طور پر اس کو تسلیم کرنے کے غیر انسانی اور غیر اسلامی اور ظالم فیصلے کو واپس لیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، مسجد اقصیٰ پر حملہ اور  مقدس مقامات کی بے حرمتی پر دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو عملی طورپر اسرائیلی دہشتگردی کے خلاف  اٹھ کھڑے ہونا چاہیئے۔ انہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی کے حوالے سے ہمارا مؤقف ناقابل تبدیل ہے، ہمارا مؤقف وہی ہے جو  بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح، مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال اور ابو الاعلی مودودی کا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور پاکستان اس کو بھی تسلیم نہیں کرے گا۔

جنرل (ر) غلام مصطفیٰ (دفاعی تجزیہ کار)
معروف دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے کہا کہ ہمیں تاریخ میں جاکر یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ کیوں یہودیوں کا مغرب میں استحصال کیا گیا، کیوں ہولو کاسٹ ہوا، دوسری جنگ عظیم کے بعد صرف 26 نازیوں پر مقدمہ چلایا گیا، کیا صرف 26 نازی لاکھوں یہودیوں کے قتل میں ملوث تھے؟ یہ بین الاقوامی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کو ایک فری ہینڈ فراہم کیا جارہا ہے کہ وہ جو چاہیں کریں جو ان کے مفاد میں ہو اس پر بلا روک ٹوک عمل کرایا جائے اور جو کچھ امریکا اور برطانیہ کے مفاد میں ہو، لیکن کیوں اسرائیل ان فلسطینیوں کے خلاف غیر انسانی رویے کا مظاہرہ کررہا ہے جنہوں نے ان کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل کا جغرافیہ دیکھا جائے تو وہ بڑے بڑے مسلم ممالک کے درمیان ایک چھوٹی سی ریاست ہے جو کہ ناصرف قائم ہے بلکہ آہستہ آہستہ اس کی سرحدوں میں اضافہ ہورہا ہے، بہت سے ممالک اس کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیئے گئے ہیں۔ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف تنہا پاکستان، ایران اور ترکی کچھ بھی نہیں کرسکتے، ہمیں اس کیلئے متحد ہوکر حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی، تینوں ممالک کو عرب ممالک کے ساتھ ایک مشترکہ فوج ان علاقوں میں بھیجنا چاہیئے جو کہ امن کیلئے کام کرے اور اسرائیلی دہشتگردی کے خلاف فلسطینیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، فلسطینیوں کو دباؤ میں لاکر امن کی بات نہیں کی جاسکتی ہے۔

حامد میر (سینئر صحافی و تجزیہ کار)
معروف پاکستانی صحافی حامد میر نے کہا کہ اسرائیل کے حوالے سے ہمارا مؤقف غیر متزلزل ہے، اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی کسی حکومت نے نہیں بلکہ بابائے قوم نے بنائی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ 1917ء سے 1947ء کے درمیان آل انڈیا مسلم لیگ نے فلسطین کے حوالے سے متعدد قراردادیں پاس کیں۔ انہوں نے پاکستان کی تخلیق سے قبل ہی یوم فلسطین متعدد مرتبہ منایا۔ انہوں نے حکومت سے یوم فلسطین کو سرکاری سطح پر منانے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا دل فلسطینیوں کے ساتھ ہے اور ہم ان کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ حامد میر نے میڈیا ہاؤسز کی عمارت پر حملہ سنگین جنگی جرم قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ غزہ میں صیہونی ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں انسانی المیہ نے جنم لیا ہے جس کی کوریج کیلئے بین الاقوامی میڈیا کو غزہ تک محفوظ راستہ فراہم کیا جائے تاکہ صحافی اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں پیش کرسکیں۔

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ پاکستانی پارلیمنٹ کے آئندہ ہونے والے اجلاس میں یقینی طور پر غیر معمولی اقدامات دیکھنے کو ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی پارلیمنٹ کو ان تمام مسلم ممالک سے مطالبہ کرنا چاہیئے کہ جن ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں وہ اپنے سفارتی تعلقات کو فی الفور معطل کریں اور وہ جنہوں نے غیر قانونی صیہونی ریاست کو تسلیم کیا ہے ان سے مطالبہ کرنا چاہیئے کہ وہ اپنے فیصلے کو واپس لیں۔ انہوں نے خاص طور پر ترکی کو مخاطب کرتےہوئے کہا ہے کہ ترکی اسرائیلی دہشتگردی کو علی الاعلان للکارتا ہے لیکن ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم ہیں، اگر ترکی اس سلسلے میں نمائندہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو ترکی کو عملی اقدام کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اپنے سفارتی تعلقات ختم کرنا ہوں گے۔

انہوں نے وہ تمام ممالک جن کے سرحدیں اسرائیل کے ساتھ ملتی ہیں ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تمام اپنی سرحدوں کو بین الاقوامی صحافیوں کیلئے کھول دیں تاکہ وہاں اسرائیلی مظالم کی صحیح انداز میں تصویر کشی ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی امن مشن میں پاکستانی فوج شامل ہیں اور وہ امن کیلئے متعدد ممالک میں جاتے ہیں جن میں افریقہ سرفہرست ہے تو کیوں پھر پاکستانی، بنگلہ دیشی، ملائیشین اور دیگر مسلم افواج  غزہ میں اسرائیلی دہشتگردی کے خلاف نہیں بھیجی جاسکتیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی پارلیمنٹ کو اس نقطے کو بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کرنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 933835
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش