1
Tuesday 25 May 2021 16:18

فلسطینی مجاہدین کی تل ابیب کو دوبارہ وارننگ

فلسطینی مجاہدین کی تل ابیب کو دوبارہ وارننگ
تحریر: علی قنادی
 
یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے حالیہ عبرتناک شکست سے پورا سبق نہیں سیکھا۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے جنگ بندی کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ اسے یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ غاصب صہیونی رژیم مشرقی بیت المقدس میں واقع شیخ جراح محلے میں مزید جارحانہ اقدامات انجام نہیں دے گی۔ لیکن اس ہفتے اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ صہیونی فورسز نے شیخ جراح محلے میں دوبارہ فلسطینی شہریوں کیلئے مشکلات پیدا کی ہیں جبکہ یہودی آبادکاروں کی ایک تعداد بھی غیر قانونی طور پر مسجد اقصی میں بھی داخل ہوئی ہے۔ عبری زبان چینل "کان" کی رپورٹ کے مطابق حماس نے صہیونی رژیم کو دھمکی آمیز پیغام دیا ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطین میں صہیونی فورسز کے جارحانہ اقدامات پر ہر گز خاموش تماشائی نہیں بنیں گے۔
 
جمعہ 21 مئی کی صبح 2 بجے غاصب صہیونی رژیم نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا لیکن ابھی 48 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ مشرقی بیت المقدس کے شیخ جراح محلے میں صہیونی فورسز نے ایک بار پھر مقامی شہریوں پر حملہ کیا اور ان کے خلاف آنسو گیس استعمال کی۔ فلسطین ریڈ کراس سوسائٹی کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں کئی فلسطینی شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔ شیخ جراح وہی محلہ ہے جو غزہ میں اسلامی مزاحمتی گروہوں اور غاصب صہیونی رژیم کے درمیان حالیہ جنگ کا نقطہ آغاز ثابت ہوا تھا۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق الخلیل شہر میں بھی یہودی آبادکاروں نے "مسافر یطا" کے علاقے میں مسلمان فلسطینی شہریوں کی زراعتی زمینوں پر ہلہ بول دیا اور ان کی فصل کو آگ لگا دی۔
 
لہذا اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے جنگ بندی کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ممالک کے ذریعے غاصب صہیونی رژیم کو دوسری بار وارننگ دیتے ہوئے غزہ میں جنگی مشقیں بھی منعقد کی ہیں۔ اگرچہ ان جنگی مشقوں کے انعقاد کا مقصد حالیہ جنگ میں شہید ہونے والے عزالدین القسام بریگیڈز کے کمانڈر شہید باسم عیسی کو خراج تحسین پیش کرنا بیان کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے جنگ بندی کے ایک دن بعد ان جنگی مشقوں کے ذریعے اپنی فوجی طاقت کا اظہار کیا ہے۔ ترک خبررساں ادارے ایناتولیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عزالدین القسام بریگیڈز کے سینکڑوں مجاہدین نے مسلح ہو کر غزہ کے گلی کوچوں میں فوجی پریڈ منعقد کی۔ حماس کے اعلی سطحی رہنما اسماعیل رضوان نے کہا: "آج ہم غاصب رژیم پر اسلامی مزاحمت کی فتح کے بعد غزہ کی سرزمین جو مزاحمت کی سرزمین ہے پر کھڑے ہیں۔"
 
اردن کی وزارت خارجہ نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں مقبوضہ فلسطین میں برقرار ہونے والی حالیہ جنگ بندی کے ممکنہ تزلزل پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ بیانیے میں بعض یہودی آبادکاروں کی جانب سے مسجد اقصی میں داخل ہونے اور مسجد اقصی میں نماز ادا کرنے والے مسلمان فلسطینی شہریوں پر صہیونی سکیورٹی فورسز کے حملے کی مذمت کی گئی ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی غزہ جنگ کے بعد اپنے پہلے بیانیے میں دونوں فریقین کی جانب سے جنگ بندی کی مکمل پابندی پر زور دیا ہے اور غزہ میں فوری بنیادوں پر انسانی امداد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ رویٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلینکن بھی آئندہ چند دنوں میں مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرنے والے ہیں۔
 
عالمی برادری کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں جنگ بندی کے ممکنہ تزلزل سے متعلق موجود پریشانی کی ایک وجہ صہیونی رژیم میں موجود دائیں بازو کے شدت پسند صہیونی عناصر ہیں۔ مقبوضہ فلسطین سے موصولہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ بندی کے اعلان پر شدت پسند صہیونی عناصر نے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ شدید دباو میں ہیں۔ حتی امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دائیں بازو کے شدت پسند صہیونی عناصر کی جانب ممکنہ جھکاو پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جو بائیڈن نے حال ہی میں اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم جنگ بندی پر سنجیدگی سے عمل کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اسرائیلی حکام پر جنگ بندی کی ضرورت واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
 
حالیہ غزہ جنگ میں عبرتناک شکست کے نتیجے میں بنجمن نیتن یاہو کی سیاسی پوزیشن بھی شدید متزلزل ہو گئی ہے۔ صہیونی اخبار "یروشلم پوسٹ" کے مطابق بنجمن نیتن یاہو پر یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ اس نے خواہ مخواہ اسرائیل کو ایک بیہودہ جنگ میں جھونک دیا تھا جس کے نتیجے میں اسرائیلی شہریوں کا بھاری نقصان ہوا ہے۔ صہیونی فوج کے سابق افسر اسحاق بریک کا کہنا ہے کہ حالیہ جنگ میں اسرائیل کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل میں رونما ہونے والے جنگوں کی شدت اور نقصان اس قدر زیادہ ہو گا کہ ان کے مقابلے میں اکتوبر 1973ء کی جنگ ایک عام کہانی کی حیثیت اختیار کر لے گی۔ اسحاق بریک نے کہا کہ آہستہ آہستہ جنگ ہماری حدود کے اندر آتی جا رہی ہے اور مستقبل قریب میں ہمیں درپیش سب سے بڑا محاذ ملک کے اندر ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 934437
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش