1
0
Friday 28 May 2021 09:00

غاصب صہیونی حکومت کو سزا ملنی چاہیئے

غاصب صہیونی حکومت کو سزا ملنی چاہیئے
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے منگل کے دن اس عالمی ادارے میں خطاب کرتے ہوئے مسلح جھڑپوں کے دوران عام شہریوں کے تحفظ پر روشنی ڈالی اور مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کے جرائم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وحشیانہ جرائم نسل کشی، جنگی جرم، انسانیت کے خلاف جرائم، انسانی اصولوں کی خلاف ورزی اور ان عمومی جذبات و احساسات کی پامالی شمار ہوتے ہیں کہ جو انسان دوستانہ عالمی اصولوں کی بنیاد ہیں۔ مجید تخت روانچی نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیلی حکومت کی شرمناک حمایت کی بنا پر سلامتی کونسل ان جرائم کی روک تھام کی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ایک بار پھر ناکام رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سلامتی کونسل اس سلسلے میں ایک متوازن بیان جاری کرنے اور غزہ میں عام شہریوں پر حملے رکوانے کا مطالبہ بھی پورا نہ کرسکی۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے ماضی میں بھی اس طرح کے جرائم انجام دینے والوں کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کمزور رویئے کو مجرموں کے مزید گستاخ ہونے کا موجب قرار دیا اور کہا کہ آئندہ بھی سلامتی کونسل کو ممکنہ کمزور رویہ عام شہریوں کے خلاف غیر انسانی اقدامات کا سلسلہ جاری رہنے کا باعث بنے گا۔

ادھر سپریم جوڈیشنل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی عدلیہ کے سربراہ سید ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ غاصب صہیونی فوج اور غزہ کے مظوم عوام کے درمیان فوجی جنگ بظاہر ختم ہوگئی ہے، تاہم قانونی جنگ بدستور جاری ہے۔ انھوں ںے کہا کہ قانون کے تحت جرائم پیشہ صہیونی حکومت کو عالمی عدالت انصاف کے حوالے کرنے کی ضرورت ہے اور اس معاملے کو پوری سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھایا جانا چاہیئے۔ ایرانی عدلیہ کے سربراہ نے کہا کہ تمام عالمی عدالتوں اور بین الاقوامی فورموں پر جرائم پیشہ صہیونیوں کا تعاقب کیا جانا چاہیئے اور دنیا کے تمام قانون دانوں اور حریت پسندوں پر اس حوالے سے بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اسی تناظر میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب جناب منیر اکرم نے سلامتی کونسل میں مسلح تنازعات میں شہریوں کو تحفظ دینے پر بحث کے لیے جمع کرائے گئے تحریری بیان میں کہا ہے کہ شہریوں کے تحفظ کا اہم مقصد سب سے پہلے مسلح تصادم کے پھیلائو کو روکنا ہے اور اس سلسلے میں فسلطین اور کشمیر سمیت تصادم کے ابھرنے کی بنیادی وجوہات کی نشاندہی اور طویل المدت تصادم کو روکا جائے اور پرامن حل کو فروغ دیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ اسرائیل کا نہتے و محصور فلسطینیوں اور فلسطین کے خلاف طاقت کا استعمال غیر قانونی ہے۔ منیر اکرم نے کہا کہ قابض اور مقبوضہ کے درمیان غلط مساوات اخلاقی اور قانونی طور پر ناقابل قبول ہے، جس سے اسرائیل کو غزہ پر بمباری کرنے اور بلاامتیاز طاقت کے استعمال سے استثنیٰ کا احساس پیدا ہوا ہے، جس کے باعث خواتین اور بچوں سمیت 200 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، لہذا ایسے حملے شہریوں کے جانی نقصان اور جنیوا کنونشن سمیت بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب ہیں اور ایسی خلاف ورزیوں پر کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیئے۔ فلسطین کے موجودہ حالات کا اگر نزدیک سے جائزہ لیا جائے تو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی مظالم خاص طور پر بیت المقدس کے شیخ جراح علاقے سے فلسطینیوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کرنا صہیونی بربریت کی ایک اور تازہ مثال ہے، جبکہ دوسری طرف جب فلسطینیوں نے رمضان کے مقدس مہینے میں مسجد اقصیٰ کے نمازیوں پر حملوں اور ایسے غیر قانونی اقدامات کے خلاف احتجاج کیا تو اسرائیلی فوجیوں ںے فلسطینیوں کے خلاف انتہائی گھنائونے جرائم کا ارتکاب کیا۔

صہیونی جارحیت میں عام شہری، خاص طور پر خواتین اور بچے بھی نشانہ بنے اور ہسپتالوں اور اسکولوں جسیے شہری اہداف بپر حملہ کیا جاتا رہا ہے۔ بلاشبہ یہ وحشیانہ کارروائی نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم اور انسانی اصولوں کی خلاف ورزیوں کی واضح مثال ہے۔ اس طرح کے جرائم، بین الاقوامی قوانین اور بنیادی اصولون کی واضح خلاف وزری ہیں، اس لیے اس طرح کے گھنائونے جرائم کا ارتکاب کرنے والے صہیونی عہدیداروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہیئے۔ یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ جہاں صہیونی حکومت جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے، وہاں اس غاصب و ظالم حکومت کے حامی بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ اسرائیل کے حامیوں کے جرائم میں ملوث ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس غیر قانونی حکومت کی عالمی اداروں میں سفارتی حمایت کی جاتی ہے، جس سے اس کے خلاف اول تو کوئی سخت قرارداد آتی نہیں اور اگر آ بھی جائے تو اسے ویٹو کر دیا جاتا ہے۔

امریکہ کی طرف سے غاصب صہیونی حکومت کی حمایت کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عین اس وقت جب چند دن پہلے صہیونی حکومت غزہ پر بربریت کرتے ہوئے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی تھِی، امریکہ نے اسے سات کروڑ ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کا اعلان کیا۔ امریکی انتظامیہ کا یہ فیصلہ عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے اور خود امریکی قانون میں یہ شق موجود ہے کہ امریکہ ایسے کسی ملک کو ہتھیار فروخت نہِیں کرسکتا، جو اسے استعمال کرنے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ امریکی انتظامیہ اپنے قوانین کو پامال کرکے صہیونی حکومت کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ بہرحال اس وقت غزہ کی حالیہ بارہ روزہ جنگ میں دنیا میں ہونے والے عوامی مظاہروں سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ رائے عامہ اسرائیلی مظالم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اسے انسانی حقوق کی پامالی سمجھتی ہے، اس لیے مختلف حلقوں سے اسرائیلی حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بھی اپنے خطاب میں جہاں فلسطین کے حوالے سے امت مسلمہ اور حریت پسندوں کی دیگر ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے، وہاں اس موضوع پر بھی تاکید کی ہے کہ صہیونی ریاست کو اس کے کیے کی سزا دینی چاہیئے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے صہیونی حکومت کے مقابلے میں 12 روزہ جنگ میں کامیابی پر فلسطینی استقامتی محاذ کو مبارکباد کا ایک پیغام ارسال کیا تھا۔ ملت فلسطین کے نام رہبر انقلاب اسلامی کے اس پیغام کے آخر میں آیا ہے۔ "ایک اور اہم فریضہ اور ذمہ داری، سفاک اور دہشت گرد صہیونی حکومت کو اس کے کیے کی سزا دینا ہے۔ تمام بیدار ضمیر افراد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان 12 روزہ ایام کے دوران بڑے پیمانے پر فلسطینی بچوں اور خواتین کے قتل عام پر مبنی جنگی جرائم کی سزا ضرور ملنی چاہیئے۔ صہیونی حکومت کے تمام بااثر حکام اور خاص طور پر نیتن یاہو کو جنگی مجرم کی حیثیت سے آزاد اور بین الاقوامی عدالتوں میں لا کر سزا دیئے جانے کی ضرورت ہے اور ان شاء اللہ ایسا ہو کر رہے گا۔ واللہ غالب علی امرہ"
خبر کا کوڈ : 934928
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Nooraan
Pakistan
امریکہ کی جانب سے ظالم اسرائیل کے حق میں انسانیت کی مشترکہ آواز کو ویٹو کرنے اور ظالم کی حمایت کرنے پر انسانیت ان کی مذمت کرتی ہے۔ ویٹو پاور کے غیر منصفانہ قانون کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہے۔
تمام دنیا کے ممالک ایک طرف ہو کر ان ویٹو پاورز کو اپنے سے الک کرکے ایک انصاف پسند اتحاد بنائیں۔ جس میں اکثریت کا فیصلہ قائم ہو، کوئی اس کو ویٹو نہ کرسکے۔
ہماری پیشکش