QR CodeQR Code

صہیونی رژیم میں سیاسی تبدیلی اور اس کے ممکنہ اثرات

31 May 2021 23:05

اسلام ٹائمز: غزہ سے مقابلہ پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر جائے گا کیونکہ کابینہ میں نیفتالی بینت اور اویگڈور لیبرمین کی موجودگی کے باعث غزہ کی پٹی اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنتی رہے گی۔ مغربی کنارے کو مقبوضہ فلسطین سے ملحق کرنا ایجنڈے میں شامل کیا جائے گا۔ لبنان کی سرحد پر صہیونی حکام کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے کیونکہ موجودہ کابینہ کی نظر میں لبنان کی سرحد پہلی ترجیح کی حامل نہیں ہے۔ ان کی توجہ غزہ کی پٹی اور ایران پر مرکوز رہے گی۔ شام میں صہیونی رژیم جنگوں میں جنگ پر مبنی حکمت عملی اختیار کرے گی اور ایران سے مربوطہ ہونے کے بہانے مختلف ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ نئی صہیونی حکومت ایران کے جوہری پروگرام پر کڑی نظر رکھے گی اور اس بارے میں سفارتی سرگرمیوں پر زور دیا جائے گا۔


تحریر: علی احمدی
 
مقبوضہ فلسطین میں تیزی سے سیاسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ غزہ کی حالیہ جنگ کے بعد صہیونی رژیم کی معتدل اور بائیں بازو کی دو سیاسی جماعتوں کے درمیان نئی کابینہ تشکیل دینے سے متعلق معاہدہ ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں گذشتہ 13 برس سے برسراقتدار بنجمن نیتن یاہو کے اقتدار کا خاتمہ دکھائی دے رہا ہے۔ غاصب صہیونی رژیم میں اس سیاسی تبدیلی کے مقبوضہ فلسطین کے اندر، علاقائی سطح پر اور عالمی سطح پر گہرے اثرات ظاہر ہوں گے۔
1)۔ اندرونی سطح
اندرونی سطح پر اقتدار دائیں بازو کی جماعتوں اور مذہبی شدت پسند عناصر سے معتدل اور بائیں بازو کی جماعتوں کو منتقل ہونے سے سیاسی حالات میں بہت گہری تبدیلی رونما ہو گی۔
 
وہ اہم ایشوز جن پر یہ تبدیلی زیادہ اثرانداز ہو گی دراصل مذہبی اور سیکولر طبقوں کے درمیان موجود اختلافات ہیں۔ حریدی دینی مدارس کے طلاب کیلئے لازمی فوجی تربیت، غیر یہودی اقلیتوں سے فوجی بھرتی کرنا، ہفتے کے دن ٹرینوں کا چلنا اور سہولیات فراہم کرنا، فوجی بجٹ میں کمی اور سماجی بجٹ میں اضافہ ایسے ایشو ہیں جو اس تبدیلی سے متاثر ہوں گے۔ اس وقت دائیں بازو کے شدت پسند عناصر طاقت میں ہیں لہذا ان کی رائے حاوی ہے۔ لیکن معتدل اور بائیں بازو کے سیاسی حلقے برسراقتدار آنے کے بعد حریدیوں کی فوجی ٹریننگ قانون بن جائے گی، یہودی اقلیتوں سے فوجی بھرتی کرنے میں تیزی آئے گی، ہفتے کے دن بھی سہولیات فراہم ہوں گی اور فوجی بجٹ میں کمی واقع ہو گی۔ اسی طرح سیاہ فام اور سرخ فام افراد بھی مقبوضہ فلسطین میں شہریت کیلئے امیدوار ہو جائیں گے۔
 
2)۔ علاقائی سطح
علاقائی سطح پر امن مذاکرات، غزہ میں اسلامی مزاحمت سے مقابلہ، مغربی کنارے کو مقبوضہ فلسطین سے ملحق کرنے، لبنان کے ساتھ مقبوضہ فلسطین کا سرحدی تنازعہ، حزب اللہ لبنان کے گائیڈڈ میزائل، شام میں جنگوں کے درمیان جنگ پر مبنی حکمت عملی اور ایران کا جوہری پروگرام وہ اہم ایشو ہیں جن کا اس سیاسی تبدیلی سے متاثر ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔ اسی طرح انصاراللہ یمن کا مسئلہ اور یمن میں ان کے خلاف کاروائی بھی مقبوضہ فلسطین میں زیر بحث ایک اہم ایشو ہے۔ امریکہ میں جو بائیڈن کے برسراقتدار ہونے کے تناظر میں امن مذاکرات میں تیزی آئے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ امن مذاکرات کا نیا دور شروع ہو جائے۔ اگرچہ ان کا نتیجہ خیز ثابت ہونا دور از امکان ہے۔
 
غزہ سے مقابلہ پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر جائے گا کیونکہ کابینہ میں نیفتالی بینت اور اویگڈور لیبرمین کی موجودگی کے باعث غزہ کی پٹی اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنتی رہے گی۔ مغربی کنارے کو مقبوضہ فلسطین سے ملحق کرنا ایجنڈے میں شامل کیا جائے گا۔ لبنان کی سرحد پر صہیونی حکام کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے کیونکہ موجودہ کابینہ کی نظر میں لبنان کی سرحد پہلی ترجیح کی حامل نہیں ہے۔ ان کی توجہ غزہ کی پٹی اور ایران پر مرکوز رہے گی۔ شام میں صہیونی رژیم جنگوں میں جنگ پر مبنی حکمت عملی اختیار کرے گی اور ایران سے مربوطہ ہونے کے بہانے مختلف ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ نئی صہیونی حکومت ایران کے جوہری پروگرام پر کڑی نظر رکھے گی اور اس بارے میں سفارتی سرگرمیوں پر زور دیا جائے گا۔
 
3)۔ عالمی سطح
بنجمن نیتن یاہو کی معزولی کے بعد غاصب صہیونی رژیم اور امریکی حکومت کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بائیڈن کے دور میں دونوں حکومتوں کے درمیان بہتر تعلقات میں بنجمن نیتن یاہو سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ لہذا یہ تعلقات تناو کی کیفیت سے باہر آئیں گے۔ لیکن موجودہ حکومت کے امریکہ کے ساتھ سرد تعلقات کے باعث ان تعلقات کی بہتری میں کچھ وقت درکار ہو گا۔ امریکہ اور صہیونی رژیم کے درمیان تعلقات میں بہتری کا نتیجہ عالمی اداروں میں صہیونی رژیم کی پوزیشن بہتر ہونے کی صورت میں نکلے گا۔ اگر امن مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں تو ایک بار پھر یورپی یونین بھی صہیونی رژیم سے قریب ہو جائے گی۔
 
اسی طرح نئی کابینہ میں اویگڈور لیبرمین کی موجودگی کے باعث صہیونی رژیم کے روس سے بھی تعلقات بہتر ہونے کی امید پائی جاتی ہے۔ اگرچہ روس کی جانب سے خطے میں اپنائی گئی حکمت عملی کی روشنی میں یہ تعلقات زیادہ بہتر ہونے کا کم ہی امکان پایا جاتا ہے۔ ان تمام امور کے ساتھ ساتھ صہیونی رژیم اور چین کے درمیان تعلقات میں بھی تبدیلی آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بائیڈن کی جانب سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حد تک چین کے خلاف سخت پالیسیز اپنانے کا امکان کم پایا جاتا ہے۔ البتہ چین اور امریکہ کے درمیان جاری حقیقی جنگ کے باعث یہ تعلقات ایک حد سے آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ بنجمن نیتن یاہو کی معزولی کے بعد صہیونی رژیم میں فیصلہ سازی کے حوالے سے بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔ نئی کابینہ شدت پسندی میں کمی لانے کی کوشش کرے گی جبکہ کابینہ میں موجود مختلف الخیال افراد کی وجہ سے انتشار باقی رہے گا۔


خبر کا کوڈ: 935577

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/935577/صہیونی-رژیم-میں-سیاسی-تبدیلی-اور-اس-کے-ممکنہ-اثرات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org