QR CodeQR Code

خامنہ ای خمینی دیگر است

2 Jun 2021 11:09

اسلام ٹائمز: اہل فلسطین و کشمیر، الجزائر، مصر، لبنان، عراق، حجاز، بحرین ہر سو آزادی پسندوں نے، مزاحمت کے دیوانوں نے ناصرف جنم لیا بلکہ خطے میں اپنی جدوجہد کے ذریعے ایسا تغیر برپا کیا، جسکے مظاہرے ہم آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ 4 جون 1989ء کے دن امام خمینی سرزمین انقلاب و اسلام پر روشنی بکھیرتے ہوئے اپنا سایہ چھوڑ گئے، ولی امر امسلمین امام خامنہ ای کی شکل میں دنیا نے ایک اور خمینی کا نظارہ کرنا شروع کیا، یہ خمینی کا ایسا عکس ہے، جس نے اصل سے سے بھی زیادہ استعمار اور اسکے چیلوں کے خوابوں پر ناصرف اوس ڈالی ہے بلکہ بتیس سال سے انکے ہر منصوبے کو با اذن خدا اور امام وقت کی مدد و نصرت سے ناکام بنا رہا ہے، بلا شبہ کسی نے درست کہا ہے۔۔۔۔ خامنہ ای خمینی دیگر است۔۔۔!


تحریر: ارشاد حسین ناصر

مرد قلندر، بت شکن امام خمینی (رہ) کی رہبری میں ایران میں فروری 1979ء میں اسلامی انقلاب آنا یقیناً ایک معجزہ تھا۔ اس لئے کہ ایسے دور میں جب دنیا دو قطبی یعنی شرقی یا غربی، دوسرے لفظوں میں کمیونسٹ یا سرمایہ دار تھی تو اس مرد قلندر امام خمینی کا نعرہ مستانہ تھا "لا شرقیہ ولاغربیہ، اسلامیہ اسلامیہ" اور "سپر طاقت ہے خدا لا الہ اللہ۔" یہ بہ ظاہر کسی دیوانے کی بڑ محسوس ہوتی تھی، مگر جو لوگ امام خمینی کی شخصیت، ان کے بلند کردار، عزم و استقلال، قوت مزاحمت و مقاومت اور ان کے جانثار ساتھیوں کو جانتے تھے، ان کیلئے شائد کچھ نیا نہیں تھا۔ وہ جدوجہد کے پہلے دن سے ہی کلیئر تھے۔ شاہ جو اس وقت امریکی پٹھو اور خطے میں صیہونی و امریکی مفادات کا نگران تھا، اس کے خلاف انقلابی جدوجہد کا مطلب کبھی بھی مخالف کیمپ یعنی روس سے کسی بھی طرح کا تعلق و مدد لینا کار حرام تھا۔

امام خمینی (رہ) کی سربراہی میں آنے والے انقلاب سے استعمار کے منصوبوں پر جو اوس پڑی، اس سے وہ تلملا اٹھا اور اس انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے اول روز سے ہی اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ پہلے تو داخلی سازش کے ذریعے انقلاب کو ختم کرنے کی سازش کی، جب اس میں ناکامی ہوئی اور امریکی سفارت خانہ جو جاسوسی کا سب سے بڑا مرکز تھا، اس پر ایرانی طلاب نے قبضہ کرکے اس کے جاسوسوں اور کمانڈوز کو یرغمال بنا لیا تو اس کی سازشیں مزید آشکار ہوگئیں اور اس کا بدنما چہرہ دنیا کے سامنے بالخصوص ایرانی عوام کے سامنے ننگا ہوگیا۔ اس میں بھی خدا کی نصرت و مدد سے ایران کو کامیابی اور امریکہ کو بدترین ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا یرغمالیوں کو چھڑوانے کا آپریشن صحرائے طبس میں ہیلی کاپٹرز کے ٹکڑوں کی شکل میں دیکھا جا سکتا تھا۔ بلا شک و شبہ جب کوئی خالص خدا کیلئے قیام کرتا ہے تو خدا بھی اس کی مدد کیلئے دیر نہیں کرتا اور اسے تنہا نہیں چھوڑتا۔ صحرائے طبس میں امریکیوں کے ہیلی کاپٹرز کا ٹکرانا اس کی بہترین اور عمدہ مثال کہی جا سکتی تھی۔

انقلاب کا سورج طلوع ہونا خطے سے امریکی و اسرائیلی مفادات پر ایسی چوٹ تھی، جسے آج تک استعمار بھلا نہیں پایا اور اس کی ہر دن یہ کوشش و سازش رہی ہے کہ کسی بھی طرح یہ انقلاب اور اس کی قیادت و رہبری کو خدا نخواستہ نابود کر دے۔نوزائیدہ انقلاب پر جب سارے حربے ناکام ہوگئے تو صدام کی صورت میں اپنے پرانے مہرے کے ذریعے جنگ مسلط کی گئی، جو آٹھ برس تک جاری رہی۔ اس جنگ میں لاکھوں ایرانیوں نے جان کی قربانی دی، لاکھوں معذور ہوئے، امام کا گھٹی کا اثر دیکھیں کہ کم سن و نابالغ بچے اپنے ملک اور سرزمین اسلام کا دفاع کرنے کیلئے محاذ جنگ پر پہنچ جاتے اور خود کو وقف کرتے، ایک ایک گھر سے پانچ پانچ بیٹے بھی مائوں نے خمینی عزیز پر نچھاور کرنے کیلئے بلا تامل بھیجے اور اس پر فخر کا اظہار کیا۔ امام خمینی کو جھکانے کیلئے دنیا ایک طرف جمع ہوچکی تھی، دوسری طرف ایک خدا کا خالص بندہ، جس نے ذات الہٰی پر ہی توکل کیا تھا اور ساری دنیا کے سامنے ڈٹا ہوا تھا۔

دنیا بھر کے پروپیگنڈا مراکز، صیہونی میڈیا اور امریکی و سویت یونین کی ایجنسیاں صدام کی پشت پر تھیں، مگر امام خمینی (رہ) یک و تنہاء ان کے ارادوں کے سامنے بلند و بالا پہاڑوں کی طرح ڈٹا رہا اور اسے جھکنے پر مجبور نہ کیا جا سکا۔ اس دوران ایران پر لگائی جانے والی اقتصادی پابندیاں اور گھیرائو، طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے، مگر امام خمینی (رہ) کو جھکایا نہ جا سکا۔ امام کی رہبری میں انقلاب اسلامی نے نا فقط جنگی محاذ پر استقامت دکھائی بلکہ اقتصادی محاذ پر بھی سخت پابندیوں کے باوجود مثل شعب ابی طالب مقابلہ کیا۔ امام خمینی (رہ) نے ہمیشہ اپنے عوام کو اہمیت دی، ان کی رائے کا احترام کیا، انقلاب برپا کرنے، انقلاب کے بعد اسلامی دستور کی تشکیل اور نفاذ سے لیکر عوام کی آراء کو مقدم جانا اور یہ بھی اپنی مثال آپ ہے کہ امام خمینی (رہ) کے کھینچے گئے خط یعنی راستے پہ چلتے ہوئے آج تک انقلاب اسلامی کے ہر سطح کے الیکشنز کرائے جاتے رہے ہیں، چاہے وہ مجلس (پارلیمنٹ) کے الیکشن ہوں، خبرگان کے ہوں، بلدیاتی ہوں یا صدارتی ہوں۔

جنگ ہو یا امن، بم دھماکے ہوں یا خلفشار، یہاں الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہی کروائے جاتے رہے ہیں، جس کی مثال شائد دنیا کی کسی دوسری جگہ ملنا محال ہے۔ اس کے باوجود نام نہاد جمہوریت پسند ایران کی جمہوریت کو جمہوریت نہیں سمجھتے، جبکہ اسی جمہوریت اور الیکشن پراسس سے خاتمی جیسے صدور دو دو بار منتخب ہوئے ہیں اور انہیں اقتدار بھی سونپا گیا ہے۔ آج کل بھی استعماری میڈیا ایران کے الیکشن پہ کافی پروپیگنڈہ کرتا دیکھا جا سکتا ہے، جو عنقریب ہونے جا رہے ہیں۔ ہمیں تو امید ہے کہ استعمار جس طرح گذشتہ پانچ دہائیوں سے الہیٰ قیادت و رہبری سے شکست کھاتا آرہا ہے، آنے والے دنوں میں بھی اسی شکست سے دو چار ہوگا اور اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امام خمینی (رہ) جنہیں استقامت اور صبر کا پہاڑ کہا جائے تو بے جا نا ہوگا کہ اپنی جدوجہد سے لیکر تا وقت رحلت ان گنت صدموں کیساتھ اپنے انتہائی قریبی رفقاء، شاگردان، فقہاء، علماء، اساتذہ، اراکین پارلیمنٹ، صدر مملکت، وزیراعظم، چیف جسٹس اور اپنے عظیم فرزند سید مصطفیٰ موسوی (جو آیت اللہ تھے) کی شہادتوں اور جدائی کا سامنا کیا۔

یہ ایسے لوگ تھے، جن میں سے کسی ایک کی جدائی ہی اتنی گراں تھی کہ انسان تھک جائے، پچھلے قدموں پہ لوٹ جائے، مگر یہ سیدالشہداء کا عظیم فرزند تھا، جس نے کربلا سے درس حریت و استقامت و صبر لیا تھا، لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان شہادتوں سے نہ تو گھبرائے اور نہ ہی اپنے ہدف کو بھولے بلکہ ہدف اور منزل کے حصول کیلئے پہلے سے زیادہ جوش و جذبہ اور استقامت سے بڑھتے رہے اور استعمار کو کسی بھی طرح خوش نہیں ہونے دیا۔ امام خمینی کو مکہ میں چار سو سے زائد حجاج مہمانان خدا کی لاشوں کا تحفہ بھیجا گیا، جو آل سعود کا ایسا جرم ہے جسے کسی بھی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔ خانہ خدا میں مہمانان خدا کا یہ لہو ایک دن ضرور رنگ لائے گا اور آل سعود کے اقتدار کو بہا کر لے جائے گا۔ امام خمینی اس پہ بہت رنجیدہ خاطر ہوئے مگر انہیں جھکایا نہیں جا سکا۔

الغرض امام خمینی (رہ) ساٹھ کے عشرے کے شروع میں اپنی جدوجہد کے آغاز سے لیکر انقلاب لانے اور انقلاب کے بعد دس برس تک انقلاب کی امانت کو محفوظ ہاتھوں میں سونپنے تک ان گنت صدمات اور گہرے زخموں و اندوہناک غموں سے دوچار ہوئے، مگر انہیں جھکایا نہیں جا سکا، انہیں مٹایا نہیں جا سکا، ان کی جدوجہد اور افکار سے استعمار، عرب شیوخ اور شاہان وقت کے اقتدار کی چولیں ہلنے لگیں، دنیائے سیاست نے اپنے رنگ بدلے، اسلامی و انسانی حقوق کیلئے نیز سیاسی و سماجی میدان میں پوری دنیا میں بالعموم اور خطے میں بالخصوص تحریکوں نے جنم لیا، آزادی و حریت کی داستانیں رقم کرنے کیلئے اس سے بہتر ماڈل کسی کے پاس نہیں تھا، اسلام کے نفاذ کا عملی مظاہرہ حضرت امام (رہ) نے کرکے دکھا دیا اور دو قطبی دنیا کا نظریہ بھی پاش پاش کر دیا۔

اہل فلسطین و کشمیر، الجزائر، مصر، لبنان، عراق، حجاز، بحرین ہر سو آزادی پسندوں نے، مزاحمت کے دیوانوں نے ناصرف جنم لیا بلکہ خطے میں اپنی جدوجہد کے ذریعے ایسا تغیر برپا کیا، جس کے مظاہرے ہم آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ 4 جون 1989ء کے دن امام خمینی سرزمین انقلاب و اسلام پر روشنی بکھیرتے ہوئے اپنا سایہ چھوڑ گئے، ولی امر امسلمین امام خامنہ ای کی شکل میں دنیا نے ایک اور خمینی کا نظارہ کرنا شروع کیا، یہ خمینی کا ایسا عکس ہے، جس نے اصل سے سے بھی زیادہ استعمار اور اس کے چیلوں کے خوابوں پر ناصرف اوس ڈالی ہے بلکہ بتیس سال سے ان کے ہر منصوبے کو با اذن خدا اور امام وقت کی مدد و نصرت سے ناکام بنا رہا ہے، بلا شبہ کسی نے درست کہا ہے۔۔۔۔ خامنہ ای خمینی دیگر است۔۔۔!


خبر کا کوڈ: 935900

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/935900/خامنہ-خمینی-دیگر

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org