0
Thursday 3 Jun 2021 09:53

سعودی عرب کی بارگیننگ

سعودی عرب کی بارگیننگ
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

سعودی وزیر خارجہ نے اس ملک کی سرکاری خبر رساں ایجنسی (واس) سے گفتگو میں ایران کے خلاف گھسا پٹا الزام عائد کیا ہے۔ فیصل بن فرحان نے بے بنیاد الزام عائد کرتے ہوئے ایران پر علاقائی مسائل میں مداخلت اور علاقے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا جھوٹا الزم لگایا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے یہ الزامات کویت کے ولی عہد مشعل احمد الصباح کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر لگائے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ کے ان منفی الزامات کے پیچھے چند اہم نکات ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اس پریس کانفرنس میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے کویت کو ایران کے خلاف اکسانے کی کوشش کی ہے اور کویت کے ولی عہد سے کہا ہے کہ سعودی عرب اور کویت کی ہم آہنگی اور نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعاون سے ایران پر دباو بڑھایا جا سکتا ہے۔

سعودی وزیر خارجہ کا یہ بیان سعودی ولی عہد بن سلمان کے ان بیانات اور موقف سے تضاد رکھتا ہے، جو کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایران کے بارے میں اختیار کیا تھا۔ سعودی وزیر خارجہ کے حالیہ بیان سے تو یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ سعودی عرب ایران سے تعلقات بہتر بنانے کی بجائے ایران کے خلاف سازشیں رچانے میں مشغول ہے۔ سعودی وزیر خارجہ کے اس بیان سے ایک اور نکتہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ علاقے کے مختلف ممالک من جملہ کویت، ایران کے خلاف کسی سازش میں شریک نہیں ہونا چاہتا، لیکن سعودی عرب اس پر مسلسل دباو بڑھا رہا ہے، تاہم کویت نے اپنی آزادی و خود مختاری کا لحاظ رکھتے ہوئے اور ایران سے اچھے تعلقات کی بناء پر سعودی وزیر خارجہ کی بات کو اہمیت نہیں دی ہے۔

ایک اور اہم نکتہ جو سعودی وزیر خارجہ کے حالیہ بیانات سے اخذ کیا جا سکتا ہے، وہ بیان دینے کی ٹائمنگ اور وقت ہے۔ فیصل بن فرحان ایسے عالم میں ایران کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں کہ ایران کی مدد سے اسلامی مقاومت اور فلسطینی استقامت کو غاصب صیہونی ریاست کے خلاف بارہ روزہ جنگ میں تاریخی کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ اسی طرح شام میں بشار الاسد کی کامیابی نے بھی داعش اور دیگر دہشتگرد گروہوں کے حامیوں کو مزید سات برسوں کے لئے مایوس کر دیا ہے۔ سعودی عرب کے اعلیٰ حکام میں سے کسی بڑے عہدیدار کا یمن کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ پہلا ردعمل ہے۔

گذشتہ چند دنوں میں یمن کی فورسز نے جارح سعودی اتحاد کو میدان جنگ میں سخت نقصان پہنچایا ہے اور جیزان کا کئی کلومیٹر کا علاقہ یمنی فورسز کے قبضے میں آچکا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ کا حالیہ موقف یمن میں حالیہ عبرت ناک شکست کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال سعودی عرب کو خطے بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران کے حوالے سے واضح پالیسی کا اظہار کرنا چاہیئے۔ سعودی عرب کے ولی عہد بن سلمان ایک طرف ایران سے تعلقات کے بارے میں مثبت اشارے دیتے ہیں جبکہ ان کا وزیر خارجہ ایران پر ماضی کی طرح گھسے پٹے الزامات عائد کر رہا ہے۔ البتہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ کے یہ بیانات اور کویتی ولی عہد سے ملاقات کو امریکیوں سے تعلقات اور ایران کے خلاف ان سے تعاون کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔

سعودی وزیر خارجہ کو اس بات کی اطلاع تھی کہ جلد ہی امریکہ کے اعلیٰ حکام ولی عہد بن سلمان سے ملاقات کرنے والے ہیں، لہذا انہیں خوش کرنے کے لئے ایران کے خلاف تکراری اور بے بنیاد الزامات عائد کئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی وزیر خارجہ کے ایران مخالف بیانات کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ حسب توقع خبر سامنے آگئی، جس کی وجہ سے سعودی وزیر خارجہ کو ایران کے خلاف بیان دینا پڑا۔ سعودی ولی عہد بن سلمان اور امریکی وزیر جنگ لوئیڈ آسٹن کی ٹیلی فونک ملاقات نے اس تاثر کو سچ ثابت کر دیا کہ فیصل بن فرحان نے امریکی وزیر جنگ کو خوش کرنے کے لئے ایران مخالف موقف اخیتار کیا۔ بن سلمان اور آسٹن کے درمیان ٹیلی فونک ملاقات میں جنگ یمن کو موضوع گفتگو قرار دیا گیا، لیکن یہ وہ موقف ہے جو اخبارات اور میڈیا کو دیا گیا ہے، وگرنہ امریکہ خطے میں سعودی عرب سے جو کام لینا چاہتا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور یہی موضوع ٹیلی فونک ملاقات میں زیر بحث آیا ہوگا۔

سعودی ولی عہد نے مئی کے مہینے میں ایران سے تعلقات اور ایران کے بارے میں موقف میں جو لچک یا قربت کا اشارہ دیا تھا، وہ بنیادی طور پر اپنی قیمت بڑھانے یا امریکہ سے بارگیننگ کے لئے دیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی امریکی وزیر جنگ کی طرف سے بن سلمان کو مثبت اشارے ملے، انہوں نے اپنے وزیر خارجہ کے ذریعے ایران پر الزامات کی تکرار کر دی۔ سعودی عرب کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ خطے میں امریکہ کی مدد کے بغیر اپنا مقام اور ساکھ قائم نہیں رکھ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی علاقائی اتحاد بالخصوص ایران اور اسلامی مقاومت کے بلاک کے قریب آنے کی بجائے واشنگٹن کو ترجیح دیتا ہے۔ البتہ بن سلمان کو یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ خطے کے بعض عرب حکمرانوں بالخصوص شاہ ایران، حسنی مبارک اور بن علی وغیرہ کو بھی یہی غلط فہمی تھی، لیکن ان حکمرانوں کا انجام کیا ہوا، دنیا اس سے اچھی طرح آگاہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 936179
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش