0
Friday 4 Jun 2021 20:43

امام خمینی (رہ) ایک عہد ساز شخصیت

(4 جون امام خمینی (رہ) کی 32 ويں برسی اور 5 جون اسلامی انقلاب کے يوم آغاز کی سالگرہ کی مناسبت سے)
امام خمینی (رہ) ایک عہد ساز شخصیت
تحریر: سید محمد رضوی

مختصر سوانح حیات:
امام خمینی (رہ) حضرت فاطمہ زہرا (س) کے يوم ولادت 20 جمادی الثانی 1320 ھجری (1902ء) کو وسطی ایران کے شہر خمین میں پیدا ہوئے۔ آپ 5 ماہ کے تھے کہ آپ کے والد سید مصطفیٰ موسوی عوامی حقوق کا دفاع کرنے کے جرم میں ظالم سرداروں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ امام خمینی (رہ) کے دادا مرحوم آیت الله سید احمد موسوی  کشمیر سے دینی علوم کے حصول کے لئے نجف اشرف چلے گئے تھے۔ وہاں سے خمین کے عمائدین کی دعوت پر تنلیغ کے لئے آپ خمین آئے تھے۔ امام خمینی (رہ) نے ابتدائی تعلیم خمین میں اپنے بڑے بھائی مرحوم آیت الله مرتضیٰ پسندیدہ و دیگر اساتذہ سے حاصل کی اور دینی علوم کے حصول کے لئے شہر اراک چلے گئے۔ 1340 ھجری میں جب آپ کے استاد مرحوم آیت الله عبدالکریم حائری یزدی نے اراک سے قم ہجرت کی اور قم کی دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی، آپ بھی ان کے ساتھ قم چلے گئے۔

وہاں آپ نے نامور اساتذہ سے دینی علوم کے اعلیٰ متون کی تعلیم حاصل کی اور دروس خارج میں شرکت کی۔ آپ 27 سال کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے اور حوزہ علمیہ کے بڑے اساتذہ میں شمار ہونے لگے۔ فقہ و اصول فقہ اور کلام کے علاوہ فلسفہ و عرفان اور اخلاق میں آپ کے دروس کو شہرت ملی۔ آپ 20 سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں تحریر الوسیلہ، اسرار الصلاۃ، اربعین حدیث، شرح دعائے سحر و غیرہ قابل ذکر ہیں۔ آیت الله بروجردی (رہ) کی وفات کے بعد امام خمینی (رہ) ایک اعلیٰ مرجع دینی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ آپ نے 27 سال کی عمر میں شادی کی۔ آپ کی اولاد میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔

سیاسی جدوجہد:
امام خميني (رہ) نے خود لکھا ہے کہ 12 سال کی عمر میں بندوق ہاتھ میں لئے عوام کے ساتھ قلعہ بند ہو کر حملہ آور عناصر کا مقابلہ کرتے تھے۔ سیاسی جدوجہد کا آغاز بھی آپ نے عنفوان شباب میں ہی رضا شاہ پہلوی کی آمریت کے خلاف کیا تھا۔ رضا شاہ نے مجالس عزاء، عورتوں کے حجاب اور حتی کہ علماء کے لباس اور عمامے پر پابندی لگائی تھی۔ آپ ان اقدامات کو ناکام بناتے ہوئے دن میں عمامہ اور عبا و قبا میں ملبوس ہوکر قم کے نواحی دیہات میں جاتے، وہاں درس و تدریس جاری رکھتے اور رات کو شہر واپس آتے تھے۔ استعماری طاقتوں نے رضا شاہ کو جلاوطن کرکے ان کے بیٹے محمد رضا شاہ پہلوی کو تخت پر بٹھا دیا۔ جب بوڑھے استعمار برطانیہ کی جگہ ایران میں امریکہ کے اثرات بڑھنے لگے تو شاہ ایران امریکہ کے ایک آلہ کار میں تبدیل ہوگئے۔

1962ء میں حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے قوانین میں تبدیلی کرکے امیدواروں کے مسلمان ہونے اور قرآن مجید پر حلف اٹھانے کی شرائط ختم کر دیں۔ جس کے خلاف امام خمینی (رہ) نے دیگر علماء سے مل کر احتجاج کیا، بالآخر شاہی حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی اور قانونی بل واپس لے لیا گیا۔ شاہ ایران نے سفید انقلاب کے نام سے بعض اصلاحات کا اعلان کیا، جن میں آزادی نسواں سمیت اسلامی تعلیمات سے متصادم شقیں پائی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ شاہ نے صیہونی حکومت کو تسلیم کرکے اسرائیل کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کئے۔ امام خمینی (رہ) نے شاہی حکومت کے اقدامات کے خلاف بیانات اور تقاریر کا سلسلہ جاری رکھا اور عوام بھی آپ کی تحریک میں شامل ہوتے گئے

اسلامی تحریک کا آغاز:
آپ نے 5 جون 1963ء کو قم کے دینی مدرسے فیضیہ میں حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام کے يوم شہادت کے موقع پر منعقدہ مجلس عزا سے خطاب کیا۔ شاہی کارندوں نے مدرسہ پر ہلہ بول دیا اور طلبہ اور عوام کا قتل عام کیا۔ یہ واقعہ اسلامی انقلاب کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ ان شہداء کے چہلم پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ پھر حکومت نے امریکہ کی ایما پر کیپچولیشن کا قانون پاس کیا، جس کی رو سے ايرانی عدالتیں امریکی شہریوں پر مقدمہ نہیں چلاسکتی تھیں۔ امام خمینی (رہ) نے اپنے خطاب میں شاہ، اس کی اسرائیل نوازی اور دینی و قومی اقدار کے منافی اقدامات کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہیں پست و حقیر اور اسرائیلی ایجنٹ جیسے الفاظ سے پکارا۔ اس پر سرکاری اہلکاروں نے رات کو اس وقت امام خمینی (رہ) کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کو گرفتار کر لیا، جب آپ نماز شب کی تیاری کر رہے تھے۔ آپ کو قم سے تہران کی ایک جیل میں منتقل کیا گیا۔ اس کارروائی کے خلاف عوام اور علماء سراپا احتجاج بنے اور قم، تہران، مشہد، تبریز، ورامين و دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے، جن میں متعدد افراد شہید ہوئے۔ احتجاجی تحریک کے نتیجے میں حکومت آپ کو رہا کرنے پر مجبور ہوئی

جلاوطنی کا دور:
نومبر 1964ء میں شاہ ایران نے امام خمینی (رہ) کو ترکی جلاوطن کر دیا۔ سات مہینے شہر بورسہ میں رہنے کے بعد 1965ء میں حکومت نے آپ کو نجف اشرف، عراق جلاوطن کیا۔ نجف میں امام خمینی (رہ) نے درس و تدریس کے ساتھ شاہی حکومت کے خلاف جدوجہد بھی جاری رکھی۔ 1970ء میں آپ نے ولایت فقیہ پر اپنے مشہور دروس دیئے، جن میں اسلامی حکومت کے خدوخال اجاگر کئے گئے۔

انقلاب کے عروج کا دور:
1977ء ميں آپ کے بڑے صاحبزادے آیت‌ الله مصطفیٰ خمینی (رہ) کو سازش کے تحت نجف میں شہید کیا گیا۔ اس واقعے کے خلاف ایران میں ایک بار پھر مظاہرے ہوئے اور انقلاب میں شدت آگئی۔ حکومت کے ایما پر روزنامہ اطلاعات میں شائع ہونے والے مقالے سے عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، جس میں امام خمینی (رہ) کی توہینِ کی گئی تھی۔ ایران کے چپے چپے میں عوامی مظاہروں میں شدت آتی گئی، جن کو کچلنے کے لئے سرکاری فورسز کی کارروائیوں میں سیکڑوں افراد شہید ہوئے۔ شاہ ایران اور صدام حسین کی ملی بھگت سے 1978ء میں امام خمینی (رہ) کو عراق چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ آپ کویت جانا چاہتے تھے، لیکن کویتی حکام نے داخلے کی اجازت نہیں دی اور سرحد سے واپس کر دیا۔ اس پر آپ فرانس چلے گئے، جہاں پیرس کے قریب نوفل لو شاتو گاؤں میں قیام پذیر ہوئے۔ اس دوران ایران کے اندر انقلاب عروج پر پہنچا اور حالات بگڑتے گئے، شاہ نے کئی وزرائے اعظم تبدیل کئے، جو حالات پر قابو نہ پاسکے، آخر کار ماشل لاء لگایا گیا، لیکن ملک بھر میں عوام نے ہڑتالوں، مظاہروں، اور جلسے جلوسوں کے ذریعے شاہی حکومت کی معزولی کا مطالبہ جاری رکھا اور ہزاروں افراد نے جام شہادت نوش کیا۔

شاہ ایران کی ملک بدري اور امام خمینی (رہ) کی وطن واپسی:
جنوری 1979ء میں شاہ ملک چھوڑ کر مصر چلے گئے۔ بالآخر امام خمینی (رہ) 15 سال جلاوطنی کے بعد 2 فروری 1979ء کو فاتحانہ انداز میں ایران واپس آئے۔ اس موقع پر 8 ملین افراد نے تہران میں آپ کا استقبال کیا تھا۔ بانی انقلاب نے قبرستان بہشت زہراء (س) جا کر ان ہزاروں شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا، جنہوں نے انقلاب کی کامیابی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ آپ نے شاہ کے گماشتہ وزیراعظم شاپور بختیار کی حکومت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اپنی طرف سے حکومت مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سرکاری ادارے بھی انقلابی دھارے میں شامل ہونے گئے، فوجی جوان بھی عوام کے ساتھ ملنے لگے اور فضائیہ نے امام خمینی (رہ) سے یکجہتی کا اعلان کیا۔ عوام نے امام خمینی (رہ) کے حکم پر مسلح ہو کر سڑکوں پر شاہی فورسز کا مقابلہ کیا اور آخر میں شاہی فوج کے جاوداں گارڈ کو بھی شکست ہوئی۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی:
بالآخر 11 فروری 1979ء کو اسلامی انقلاب ایران کامیاب ہوا، جو بیسویں صدی کا سب سے بڑا انقلاب تھا۔ اس کے ساتھ دنیا کی سب سے طویل 2500 سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد ریفرنڈم کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کا قیام عمل میں آیا۔ انقلاب کا نصب العین نہ مشرق نہ مغرب، جمہوری اسلامی تھا، جس نے معاصر دنیا کے تمام سیاسی موازنوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی پولیس مین شاہ ایران کی معزولی کے ساتھ علاقے پر مغربی استعمار کی اجارہ داری ختم ہوئی۔

مقدس دفاع (ایران عراق جنگ):
ستمبر 1980ء میں عراق کے آمر صدام حسین نے بری، فضائی اور بحری راستوں سے ایران پر حملہ کرکے خرمشہر سمیت متعدد قصبوں اور دیہاتوں پر قبضہ کر لیا۔ عراق کو عالمی طاقتوں اور بعض عرب ممالک کی حمایت حاصل تھی، جبکہ ایرانی فوج انقلاب کی وجہ سے کمزور ہوچکی تھی، لیکن ایران کی شہید پرور قوم نے امام خمینی (رہ) کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنی صفوں کو منظم کرکے اس جارحیت کا مقابلہ کیا۔ ایران نے اپنے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کروایا اور عراق کے اندر کارروائی کرکے فاو بندرگاہ پر قبضہ کیا۔ صدام نے جنگی اصول کی خلاف وزي کرتے ہوئے ہسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی علاقوں پر فضائی اور میزائلی حملے کرکے ہزاروں بے گناہوں کو شہید کیا۔ اس نے ایران کے علاوہ عراق کی اپنی حدود میں شامل شہر حلبچہ پر بھی کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا، جس سے ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ایرانی مجاہدین نے بیسویں صدی کی اس طویل ترین 8 سالہ جنگ میں بعثی‌ حکومت کی جارحیت کا مقابلہ کرکے ملک، دین اور انقلاب کا جانانہ دفاع کیا۔ جنگ کے خاتمے پر ایران میں 68 ہزار عراقی فوجی قیدی تھے۔ جنگ میں لاکھوں افراد شہید اور زخمی ہوئے۔

اسلام کے حوالے سے امام خمینی (رہ) کے دو بڑے کارنامے:
رحلت سے چند ماہ پہلے امام خمینی (رہ) نے دو ایسے کارنامے انجام دیئے، جو معاصر اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھے جائیں گے:
1۔ آپ نے شاتم رسول (ص) ملعون سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ صادر کیا، جس نے اپنے گستاخانہ ناول شیطانی آیات میں شان رسول (ص) ميں دریدہ دہنی کی تھی۔
2۔ پیغمبر اسلام (ص) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سوؤیت یونین کے صدر ميخائيل گوربا چوف کو دعوت اسلام پر مبنی خط لکھا۔ اس میں حیرت انگیز طور پر آپ نے کمیونزم کے خاتمے کی پیش گوئی کرتے ہوئے لکھا تھا: "کمیونزم کی ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز آرہی ہے"، "اب کمیونزم تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو جائے گا اور تاریخ کے عجائب گھروں میں اس کی تلاش کرنی پڑے گی۔"

خط میں آپ نے سوویت رہنماء کو اسلام کی آفاقی تعلیمات اور مسلمان علمی شخصیات کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام کی طرف بلایا تھا اور گورباچوف کو مغرب کے سبز باغ کے بجائے اسلام کی آغوش میں پناہ لینے کی دعوت دی تھی۔ آپ نے یہ بھی پیش گوئی کی تھی کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کا حشر کمیونزم سے بھی برا ہوگا۔ امام خمینی (رہ) کی یہ دونوں پیش گوئیاں سچ ثابت ہوئیں۔ 90ء کے عشرے میں امام خمينی (رہ) کی رحلت کے کچھ عرصے بعد سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور کمیونزم کی آہنی فصیل ٹوٹ کر واقعی تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوگئی اور سوؤیت جمہوریائیں یکے بعد دیگرے آزاد ہوتی گئیں اور آج ہم مغربی سرمایہ داری نظام کے پرخچے اڑ جانے کا مشاہدہ کرر ہے ہیں، جبکہ اسلام کی حقانیت روز بروز اجاگر ہوتی جا رہی ہے۔

گوربا چوف امام خمینی (رہ) کے خط سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے اس کا جواب اس وقت کے سوؤیت وزیر خارجہ البرٹ شوارڈ ناٹزے کے ذریعے بھجوایا، جو بعد میں سوؤیت یونین سے آزادی کے بعد جارجیا کے صدر بنے تھے۔ شوارڈ ناٹزے جب گوربا چوف کا خط پہنچانے کے لئے تہران پہنچے تو امام خميني (رہ) نے دوپہر کے کھانے پر ان کو مدعو کیا۔ اس موقع پر وہ حیران رہ گئے کہ دنیا کی دونوں طاقتوں کو للکارنے والی شخصیت ایک امام بارگاہ سے متصل دو کمروں میں رہائش پذیر ہے اور زمین پر بچھے ہوئے دسترخوان پر روایتی ایرانی ڈش آبگوشت اور روٹی سے ان کی خاطر تواضع کی گئی۔ (گوربا چوف کے نام امام خمینی (رہ) کے خط کا اردو ترجمہ حقیر نے فروری 89ء میں روزنامہ جنگ میں شائع کروایا تھا)

وفات اور مزار:
امام خمینی (رہ) 4 جون 1989ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ انہیں تہران کے قبرستان بہشت زہراء (س) ميں شہدائے انقلاب کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کا مزار مرجع خلائق ہے اور تہران قم موٹر وے پر ٹول ٹیکس کے نزدیک واقع ہے۔گینیز بک آف ریکارڈ کے مطابق امام خمینی (رہ) کا جنازہ دنیا کا سب سے بڑا جلوس جنازہ تھا اور ایک کروڑ 2 لاکھ سوگواروں نے جنازے میں شرکت کی تھی۔ آخری رسومات میں شرکت کے لئے دنیا کے سربراہان حکومت، اعلیٰ سرکاری عہدیدار اور مندوبین کے علاوہ ہزاروں عقیدتمند ایران آئے تھے۔ اس وقت کے صدر پاکستان اسحاق خان نے بھی جنازے میں شرکت کی تھی۔
خبر کا کوڈ : 936334
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش