QR CodeQR Code

ہمارے ملی مسائل اور زندہ قومیں

9 Jun 2021 18:19

اسلام ٹائمز: ہم اس تحریر کے ذریعے ارباب دانش، قومی قیادتوں اور جماعتوں کے ذمہ داران کو متوجہ کرتے ہیں کہ اپنے کام کے دائرہ کار میں شیعیت کے بنیادی مسائل جو اسوقت ہمیں درپیش ہیں، ان پر پہلے توجہ دیں۔ ملکی سیاست، عالمی حالات اور مشرق وسطیٰ کے حالات بارے اپنے کردار کو اسی وقت بہتر پرفارم کیا جا سکتا ہے، اگر ہم داخلی مسائل و مشکلات پہ قابو رکھتے ہونگے۔ اگر ہم داخلی مشکلات سے دوچار ہونگے تو اہل فلسطین یا یمن کے مظلومین کیلئے کوئی کردار ادا کرنے سے معذور رہینگے۔ اسوقت ہماری قوم کے مسائل مشکلات، جھوٹی ایف آئی آرز، خطباء پر توہین کے ناجائز پرچے، مشی اور یوم علی و یوم القدس کی ایف آئی آرز، فورتھ شیڈول میں ان گنت لوگوں کی شمولیت اور باہمی تفریق و انتشار ہے، جس کیلئے میدان کھلا ہے کہ کوئی بھی جماعت یا قیادت سامنے آئے اور ان مسائل کے حل کیلئے عملی اقدامات اٹھائے۔


تحریر: ارشاد حسین ناصر

زندہ قومیں اپنے خلاف آنے والے طوفانوں کے سامنے وقت سے پہلے بند باندھتی ہیں اور اپنی آگاہی کی بنیاد پہ پیش آمدہ حالات کا تجزیہ و تحلیل کرکے سدباب کرتی ہیں، کیا ہم بھی ایک زندہ قوم ہیں، ہماری قیادتیں اور رہنماء بھی ہماری ملت پر آنے والے طوفانوں اور آفات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں، کیا درپیش چیلنجز اور پیش آمدہ مشکلات کا کوئی حل قیادت کے دعویداروں میں سے کسی نے بھی پیش کیا ہے، کیا کسی میں یہ سپرٹ موجود ہے کہ وہ کسی بھی طوفان کے سامنے ڈٹ کے کھڑا ہوسکے، کیا امید کی کوئی کرن روشن ہے یا مایوسی ہی مایوسی ہے۔؟ پاکستان میں اگر ملت تشیع کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت شدید ترین داخلی خلفشار اور تقسیم نے قوم کو کسی بھی اجتماعی جدوجہد اور مرکزیت سے جڑنے سے کوسوں دور رکھا ہوا ہے۔ ہم اس زعم میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم ملک کا بیس فی صد ہیں، ہم پانچ کروڑ ہیں، ہم سے کوئی ٹکرا نہیں سکتا، ہم سے جو ٹکرائے گا پاش پاش ہو جائے گا۔

حقیقت میں دیکھا جائے تو ہم پانچ کروڑ ہونے کے باوجود اپنی مرکزیت اور قومی سطح کی کسی بھی موثر و منظم تحریک و تنظیم یا آواز نہیں رکھتے، اگر کچھ تنظیمیں اور ادارے وجود رکھتے ہیں تو ان کا دائرہ اثر اس قدر محدود ہے کہ کسی بڑے سے بڑے ایشو پر ایک کال پر کوئی بڑی عوامی تحریک یا عوامی شرکت کا دعویٰ نہیں کرسکتے، حتیٰ ان کے مقابل ہم دیکھتے ہیں کہ بعض چھوٹی جماعتیں جو کل کلاں وجود میں آئی ہیں اور محدود سوچ و فکر رکھتی ہیں، ہم سے کہیں موثر عوامی شرکت اور احتجاج کی کال دے کر کامیابی سے اپنے وجود کا اظہار کر رہی ہیں۔ ہمیں اس وقت جو مسائل درپیش ہیں، ان پر دقت نظر کی ضرورت ہے، ایک طرف ہمارے ازلی مخالف اور دشمن ہمیں قانونی طور پر دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں اور جو نعرے لے کر ان کے بڑے اٹھے تھے، ان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے موجودہ حکومت اور مقتدر قوتوں کیساتھ مل کے سازشوں کو عملی کرنے میں لگے نظر آتے ہیں۔

اس کی مثال خیبر پختونخواہ اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرارداد ہے، جسے منظور کیا گیا ہے۔ اس قرارداد میں توہین صحابہ کے قانون میں ترمیم کرکے سزا تین سال سے عمر قید یا سزائے موت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ توہین صحابہ یا توہین رسالت کے نام سے اس ملک میں لوگوں کیساتھ جتنا ظلم و زیادتی ہو رہی ہے، اس پر کسی کو جرات نہیں کہ خامیوں کی نشاندہی کرکے اس میں ترمیم کی جائے، کجا یہ کہ یہ مطالبہ کیا جانا کہ سزا مزید سخت کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کیساتھ شامل بعض تکفیری قوتیں اپنے ایجنڈے پہ کاربند ہیں اور ملک کو فرقہ واریت کی دلدل میں ایک بار پھر دھکیلنے کی سازش پہ عمل پیرا ہیں۔

اس حوالے سے ملک بھر میں گذشتہ برس چہلم کے موقعہ پر مشی جلوسوں کے خلاف ایف آئی آرز کا اندراج اور گرفتاریاں، حالیہ یوم علی کی مجالس و جلوسوں پر ہونے والی ایف آئی آرز، نیز انہی بنیادوں پر بانیان مجالس و لائسنسداران جلوس کو فورتھ شیڈول میں شامل کرکے ملت کو دبانے اور اپنے پریشر میں رکھنے کی سازش میں حکمران اور بیورو کریسی میں شامل تکفیری مائنڈ سیٹ کے لوگ مسلسل تعصب و تنگ نظری سے کام لے رہے ہیں۔ ہمارے قائدین اور قومی جماعتوں نے اس حوالے سے کوئی قابل قدر و ذکر کام نہیں کیا، اس حوالے سے قومی جماعتوں اور تنظیموں کے قائدین کا گلہ اور شکوہ اپنی جگہ بجا سمجھتا ہوں کہ جب تک عوام اپنی قوت و طاقت سے ان جماعتوں کو مضبوط نہیں کریں گے، اس وقت تک کسی موثر حکمت عملی اور کسی بڑی تحریک کا سامنے آنا ممکن نہیں ہوسکتا۔

عوم الناس بالخصوص مجالس کے بانیان اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہے، یہ لوگ کسی بھی پرچے یا حکومتی زیادتی پر تو قومی جماعتوں اور قائدین کو الزام دیتے ہیں اور تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، مگر قومی جماعتوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ مجالس میں ایسے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں، جو غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور باہمی تفریق کے مضامین زیر بحث لاتے ہیں، بزرگان، علماء، مجتھدین کو منبر سے مغلظات بکتے ہیں، جب تک یہ رویہ تبدیل نہیں ہوگا، یہ مسائل یونہی پیش آتے رہینگے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قوم کے تمام طبقات کی اپنی جگہ اہمیت ہوتی ہے، مگر سب سے بڑی ذمہ داری بانیان کی ہے، جو اپنا منبر کسی بھی غیر ذمہ دار شخص کے حوالے نہ کرے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے اور بانیان اگر قومی جماعتوں اور قومی قیادت کے ساتھ کھڑے ہوں تو ہماری قومی قوت اور طاقت میں کئی گنا اضافہ ہو جائے۔

ہماری قومی جماعتوں کو بھی وقت سے پہلے کام کرنا چاہیئے، یہ وقت ہے کام کرنے کا، محرم الحرام سے قبل آپسی مسائل اور مشکلات کے حل کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کا، مگر اس وقت کسی کو دلچسپی نہیں، ہاں محرم آجائے گا تو عزاداری کانفرنسز کرنے کا اعلان کیا جائے گا، جبکہ اس وقت سب سے اہم ہے کہ ذاکرین و علماء کے محرم فائنل ہو رہے ہیں، کون کہاں پڑھے گا، یہ طے ہو رہا ہے۔ ابھی پچھلے محرم کے جلوسوں اور چہلم پہ مشی کے جلوسوں کی ایف آئی آرز موجود ہیں، جنہیں ختم کروانا بے حد ضروری ہے، ورنہ جن بانیان پر پہلے سے ایف آئی آرز ہیں، انہیں دبائو میں لا کر من مرضی کروائی جا سکتی ہے۔ اس کیساتھ ساتھ بعض نام نہاد ذاکرین کی طرف سے قوم میں تفریق کی ایک اور سازش سامنے آئی ہے، جس سے ماسوائے دشمن کی خدمت کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ ولایت امیر المومنین کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلنے والے اس گروہ کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ ان کی طرف سے بانیان اور دیگر ذاکرین پر پریشر ڈالنے کی کوشش کا توڑ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہماری قومی جماعتوں کے روابط ذاکرین اور منبر سے متعلق لوگوں سے نہیں ہونگے تو ایسے ہی دشمن کے خدمت گار فائدہ اٹھا لین گے، جو حقیقت میں ہماری کوتاہی اور سستی کا شاخصانہ ہوگا۔

بہرحال ہم اس تحریر کے ذریعے ارباب دانش، قومی قیادتوں اور جماعتوں کے ذمہ داران کو متوجہ کرتے ہیں کہ اپنے کام کے دائرہ کار میں شیعیت کے بنیادی مسائل جو اس وقت ہمیں درپیش ہیں، ان پر پہلے توجہ دیں۔ ملکی سیاست، عالمی حالات اور مشرق وسطیٰ کے حالات بارے اپنے کردار کو اسی وقت بہتر پرفارم کیا جا سکتا ہے، اگر ہم داخلی مسائل و مشکلات پہ قابو رکھتے ہونگے۔ اگر ہم داخلی مشکلات سے دوچار ہونگے تو اہل فلسطین یا یمن کے مظلومین کیلئے کوئی کردار ادا کرنے سے معذور رہینگے۔ اس وقت ہماری قوم کے مسائل مشکلات، جھوٹی ایف آئی آرز، خطباء پر توہین کے ناجائز پرچے، مشی اور یوم علی و یوم القدس کی ایف آئی آرز، فورتھ شیڈول میں ان گنت لوگوں کی شمولیت اور باہمی تفریق و انتشار ہے، جس کیلئے میدان کھلا ہے کہ کوئی بھی جماعت یا قیادت سامنے آئے اور ان مسائل کے حل کیلئے عملی اقدامات اٹھائے۔


خبر کا کوڈ: 937198

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/937198/ہمارے-ملی-مسائل-اور-زندہ-قومیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org