8
Saturday 12 Jun 2021 01:57

کیا سعودی عرب پالیسی بدل رہا ہے؟

کیا سعودی عرب پالیسی بدل رہا ہے؟
تحریر: محمد سلمان مہدی

سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا ایک سرسری جائزہ بھی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ سعودی عرب نے جس راستے پر سفر کیا ہے، وہ اسے مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچا سکا ہے۔ کم سے کم پچھلے ایک عشرے کی تاریخ سعودی عرب کی ناکامی کی ایک معتبر گواہ ہے۔ ایران، شام، عراق،  قطر، ترکی، پاکستان، ملائیشیاء سے متعلق سعودی عرب نے جو کچھ چاہا،  اسے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ آئرش ٹائمز میں مشرق وسطیٰ کے امور کی نامور تجزیہ نگار مائیکل جینسن نے پچھلے مہینے ایک تحریر میں انکشاف کیا تھا کہ سعودی انٹیلی جنس چیف خالد حمیدان نے دمشق میں شام کے علی مملوک سے ملاقات کی۔ خالد حمیدان نے بغداد میں ایران کے علی شمخانی سے ملاقات بھی کی تھی۔ حال ہی میں الجزیرہ نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب شام کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کے موڈ میں ہے۔ شام کی وزارت خارجہ کے ایک افسر کے مطابق سعودی ولی عہد سلطنت محمد بن سلمان (ایم بی ایس) شام کو انگیج کرکے ایران کے ساتھ کشیدگی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ قطر کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کے بعد آخرکار العلاء میں خلیجی تعاون کاؤنسل کے سربراہی اجلاس میں سعودی میزبان قطر کو مدعو کرنے پر مجبور ہوا۔ پاکستان پر دباؤ ڈال کر اسے ملائیشیاء کے سربراہی اجلاس میں شریک نہ ہونے پر مجبور کرنے کی خبروں نے پاکستان، قطر، ترکی، ملائیشیاء اور ایران سمیت پوری مسلم و عرب دنیا میں سعودی عرب کے بارے میں منفی تاثر قائم ہوا۔

یہ اس صورتحال کا ایک رخ ہے کہ سعودی عرب نے ایران، شام، ترکی اور قطر کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کا تاثر دینے کے لیے چند ملاقاتیں اور مذاکرات منعقد کیے ہیں۔ کہیں پاکستان کو بیچ میں ڈالا ہے تو کہیں عراق کو، لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ باراک اوبامہ کی صدارت میں ڈیموکریٹک امریکی حکومت کے دور میں شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے بعد سعودی عرب نے یمن پر جارحیت کا ارتکاب کیا۔ یمن پر سعودی فوجی اتحاد کی یلغار تاحال جاری ہے جبکہ یمن کے دارالحکومت صنعا سمیت اس عرب مسلمان ملک کے ایک بڑے حصے پر حرکت انصار اللہ اور انکے اتحادیوں کا کنٹرول ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ یمن کی حقیقی حکومت اس وقت حرکت انصار اللہ کی قیادت میں صنعا میں موجود ہے اور صنعاء کی یہ حکومت ایران، شام، حزب اللہ لبنان اور فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی حامی ہے۔ لہٰذا سعودی عرب کا ایران و شام سے تعلقات بہتر بنانے کا ایک راستہ یمن سے ہوکر بھی گزرتا ہے۔ ویسے بھی سعودی فوجی کوالیشن نے صنعاء میں موجود حرکت انصار اللہ کی قیادت میں کام کرنے والی اس حکومت کو حوثی تحریک کا نام دے کر اس پر ایران کی اتحادی ہونے کا الزام خود ہی لگایا ہے تو یہ ایک ہی مسئلے کے اجزاء ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایران، عراق اور شام کے ساتھ سفارتی تعلقات میں بحالی کی سعودی خواہش یمن کی جنگ ختم کیے بغیر پوری ہوسکے۔

سعودی عرب کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے عالم اسلام اور عالم عرب کی قیادت کی ٹھرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے ترکی، قطر، پاکستان اور ملائیشیاء کو بھی برداشت نہیں کیا۔ قطر اور ترکی کا اخوان المسلمین پر اثر و رسوخ سعودی عرب کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور ان دونوں کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات کی وجہ سے پاکستان کو بھی بلیک میل کرنا، سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا ایک جزو لاینفک رہا ہے۔ یہی معاملہ پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات کا بھی ہے۔ چونکہ پاکستان سعودی تیل ادھار پر لینا ہے تو اس کی اصل قیمت یا اس پر مارک اپ یہ ہے کہ فلاں فلاں ملک کے ساتھ تعلقات میں توسیع نہ کرو۔ ایسا نہیں ہے کہ سعودی عرب کو عالم اسلام و عرب کی قیادت کے لیے موقع میسر نہیں آیا۔ حال ہی میں مقبوضہ فلسطین بشمول مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں اسرائیل نے جو کچھ کیا، سعودی عرب کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ اپنے فوجی اتحاد کو جسے عرب نیٹو بھی کہا جانے لگا تھا، اس کے ذریعے مقبوضہ بیت المقدس آزاد کرا لیتا، لیکن سعودی عرب عالم اسلام و عرب کے مفاد میں مطلوبہ بڑے عملی اقدامات اور عملی کردار ادا کیے بغیر ہی خود کو امت مسلمہ و عرب کا قائد سمجھتے ہوئے ایک خیالی و تصوراتی دنیا میں رہتا آیا ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ حماس کی اور حزب اللہ کی مدد کرتا، یہ ان تحریکوں کے خلاف اسرائیل کا سہولت کار بن گیا۔ ان کے خلاف اقدامات کیے۔ اس طرح عالم اسلام و عرب میں سعودی عرب کا امیج مزید خراب ہوتا چلا گیا۔ سعودی عرب نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ القدس کے خادم حرمین شریفین شاہ اردن عبداللہ (دوم) بن حسین کے خلاف بغاوت کی سازش میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کا ساتھ دیا۔  یہ الگ بات کہ وہ سازش ناکام ہوگئی۔

بظاہر سعودی ولی عہد سلطنت محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کی قیادت میں سعودی عرب کی پوزیشن مستحکم ہونے کا تاثر دیا جا رہا ہے۔ ایم بی ایس کے پچاسی سالہ والد شاہ سلمان ہنوز زندہ ہیں، یہ  تاثر بھی سعودی حکومت دے رہی ہے۔ یہاں ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ اگر وہ ورچوئل اجلاس کی صدارت کرسکتے ہیں، فون پر عمان کے سلطان اور فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس سے بات کرسکتے ہیں تو جی سی سی کے سربراہی اجلاس میں شریک کیوں نہ ہوسکے!؟ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات سے کیوں گریز کیا!؟ لگتا یہی ہے کہ شاہ سلمان کے حوالے سے ایم بی ایس حقیقت کو دنیا سے چھپا رہے ہیں۔ یعنی لگتا یوں ہے کہ شاہ سلمان اس حال میں نہیں ہیں کہ عملی طور پر بادشاہت جاری رکھ سکیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی پالیسی امریکی حکومت کی قیادت میں پورے امریکی بلاک کی مشترکہ پالیسی تھی اور تب سعودی عرب کے حاکم شاہ عبداللہ تھے۔ ان کے انتقال کے بعد شاہ سلمان حاکم بنے۔ ان کے لاڈلے بیٹے ایم بی ایس نے سعودی عرب سمیت عالم اسلام و عرب کے ایک بڑے حصے کو یمن کی جنگ میں جھونک دیا۔ ایم بی ایس کی خارجہ پالیسی کا ایک شاخسانہ سوڈان کی فتح ہے، یعنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مل کر امریکی زایونسٹ بلاک کی خارجہ پالیسی پر اپنا ٹھپہ لگا دیا۔ بحرین سعودی عرب کا تابعدار ہے اور سوڈان کو بھی امارات کی مدد سے سعودی عرب نے فتح کرکے اپنی مرضی کی اسٹیبلشمنٹ مسلط کر دی۔ یمن جنگ میں بھی سوڈان کی افرادی قوت کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

ایم بی ایس نے ایک طرف خارجہ محاذ پر فتوحات کی پالیسی وضع کی تو دوسری جانب داخلی فتوحات پر بھی توجہ دی۔ یوں شاہ عبدالعزیز آل سعود کی نسل سے شاہ زادوں کے خلاف بھی کارروائیاں ہوئیں اور اب بادشاہت شاہ سلمان کی نسل میں منتقل ہونے جا رہی ہے۔ جمال خاشقجی کے قتل میں بھی انہیں ملوث بتایا گیا ہے۔ یوں وہ اس قتل کیس کی وجہ سے بھی پوری دنیا میں بدنام ہوئے۔ اب سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف اور معزول ولی عہد محمد بن نایف بن عبدالعزیز کے قریبی معتمد سعد بن خالد الجابری کے خلاف ایم بی ایس انتقامی کارروائی کر رہے ہیں۔ سعد الجابری نے کینیڈا میں جلاوطنی اختیار کر لی تھی، وہیں انہوں نے ایم بی ایس پر مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ اس مقدمے کی کارروائی کی وجہ سے سعودی عرب اور امریکی بلاک کے اہم راز فاش ہونے کا امکان ہے، کیونکہ سعودی عرب نے امریکی اہداف کے حصول کے لیے متعدد فرنٹ کمپنیاں بنا رکھیں تھیں۔ ایم بی ایس کے حکم پر سعد الجابری کے دو بیٹے سعودی عرب میں گرفتار کرکے قید کر لیے گئے ہیں۔ یوں یہ ایک بین الاقوامی سطح کا ایک اور بحران ایم بی ایس کے گلے پڑ رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ملک کے اندر ان کے عم زاد شاہ زادوں کے ساتھ ان کے تعلقات پہلے سے خراب ہیں۔ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا اس کی داخلہ پالیسی سے گہرا تعلق ہے۔ ایم بی ایس کی ولی عہدی اور اگلے بادشاہ کی حیثیت کو کسی بیرونی عامل سے زیادہ خود سعودی شاہ زادوں اور مولویوں سے خطرہ ہے۔ تاحال سعودی عرب نے پالیسی بدلی نہیں ہے بلکہ محض یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ پالیسی بدلنے کے موڈ میں ہے۔ تادم تحریر سعودی عرب اور خاص طور پر آل سعود کے اقتدار پر غیر یقینی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ شاہ سلمان کے منظر سے ہٹنے کے بعد کی صورتحال قابل پیشنگوئی نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 937609
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش