QR CodeQR Code

زیادہ سے زیادہ دباؤ کی امریکی پالیسی بدستور جاری

12 Jun 2021 22:30

اسلام ٹائمز: پچھلے پچاس سال سے زیادہ کے عرصے میں ثابت کیا ہے کہ ایران پر تسلط حاصل کرنے کیلئے امریکہ کسی بھی جارحیت، جرم اور کسی بھی غداری سے دریغ نہیں کریگا۔ امریکی پالیسیوں کی ہی وجہ سے ایرانی عوام کیخلاف آٹھ سالہ جنگ مسلط کی گئی۔ یہ حقائق امریکہ کے بارے میں ایرانی عوام کے نظریہ کی کسوٹی ہیں، البتہ امریکہ کی تسلط پسندی اور دھونس دھمکی صرف ایران تک محدود نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کے سلسلہ میں امریکہ کا یہی رویہ ہے۔ امریکہ ہر چیز پر اپنا حق سمجھتا ہے اور سب پر اپنا حکم چلانا چاہتا ہے، ہر چیز کو جیسے خود چاہتا ہے، ویسی ہی بنانا چاہتا ہے۔ وہ طاقت و اقتدار بھی چاہتا ہے اور ثروت و دولت بھی۔ امریکہ طاقت کے نشہ میں غرق ہے، اسے اب جان لینا چاہیئے کہ زمینی حقائق بہت بدل چکے ہیں۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
 
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے کہا کہ اگرچہ ویانا میں جاری جوہری مذاکرات، بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے لئے اس کے سیاسی عزم و ارادے کا حقیقی طور پر جائزہ لینے کے لئے پہلا قدم ہے، تاہم حقیقی و اصلی آزمائش اس وقت ہوگی، جب عملی طور پر یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ امریکہ نے ہٹ دھرمی کا راستہ ترک کر دیا ہے، ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی اپنی پالیسی سے دستبردار ہوگیا ہے اور اس نے ایران کے خلاف اقتصادی دہشت گردی بھی بند کر دی ہے۔ ادھر ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ٹرمپ کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے، پابندیوں کے موثر اور عملی خاتمے کا اعلان کرکے زیادہ سے زیادہ شکست سے خود کو بچانے کی کوشش کرے۔

جمعے کی شب اپنے ایک ٹوئٹ میں ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں جب امریکہ نے اقتصادی دہشت گردی میں توسیع کر دی ہے، پابندیوں کی  فہرست سے بعض ناموں کو خارج کرنے کا نہ تو ایٹمی معاہدے کے حوالے سے جاری مذاکرات سے کوئی تعلق ہے، نہ ہی اس میں نیک نیتی کا پیغام دکھائی دیتا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا کہ صدر بائیڈن کو ٹرمپ کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے، پابندیوں کے موثر اور عملی خاتمے کا اعلان کرکے زیادہ سے زیادہ شکست سے خود کو بچانا چاہیئے۔ بائیڈن انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ ویانا میں جاری مذاکرات کے ذریعے، ایٹمی معاہدے میں واپسی کا راستہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔ موجودہ امریکی حکومت، زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ہو جانے کے کھل کا اعتراف کرچکی ہے، تاہم ایٹمی معاہدے میں واپسی کے لیے لازمی اقدامات کی انجام دہی سے گریزاں ہے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی شکست خوردہ پالیسی جاری رکھنے کے سلسلے میں امریکہ کی بائیڈن حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی نظر میں امریکہ کی اقتصادی دہشت گردی کا خاتمہ اس کی اصلی آزمائش ہے۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے اقوام متحدہ کی جنرل اجلاس سے اپنے خطاب میں جو سلامتی کونسل کی سالانہ رپورٹ کا جائزہ لینے کے لئے تشکیل پایا، دو ہزار بیس کے مغربی ایشیاء کے بعض واقعات اور سلامتی کونسل سے متعلق بعض اقدامات کے بارے میں ایران کے موقف پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ سن دو ہزار بیس کے ابتدائی دنوں میں جب امریکہ نے اس ملک کے صدر کے براہ راست حکم سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اہم ترین کمانڈروں جن میں ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو بھی شہید کیا گیا اور اس کے چند روز بعد ہی امریکی صدر نے ایران کے بارہ اہم اور حساس مقامات کو حملوں کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے خاموشی اختیار کی۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے کہا کہ البتہ اسی سال جب امریکہ نے ایران کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی کے سلسلے میں قرارداد کا مسودہ پیش کیا تو سلامتی کونسل کے تیرہ اراکین نے اسے سختی کے ساتھ مسترد کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ نے جب ایران کے خلاف قانون کا غلط استعمال اور ٹریگر میکنیزم کو فعال کرنے کی کوشش کی تو بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے انہی تیرہ اراکین نے امریکہ کے اس اقدام کو بھی مسترد کر دیا اور اعلان کیا کہ امریکہ، بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے علیحدہ ہو جانے کے بعد اس میکنیزم کو فعال کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا اور اس سلسلے میں اس کا دعویٰ بالکل غلط ہے، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ مجید تخت روانچی نے کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں تبدیلی کا دعویٰ بھی صرف باتوں کی حد تک ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی امریکی پالیسی بدستور جاری ہے، جس کی بنا پر ایران بیرون ملک اپنے مالی ذرائع سے دواؤں کی خریداری تک سے قاصر اور محروم رہا ہے۔

امریکی پالیسیوں کو صرف تسلط پسندانہ اور سامراجی رویہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے، جو اپنے مفادات کے تحفظ اور سکیورٹی کے بہانے پابندیوں کے حربہ سے دوسروں کے خلاف اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ امریکہ کا ہدف قطعاً تسلط پسندی ہے اور امریکہ کے مطابق ہدف سے وسیلہ بنتا ہے۔ امریکی رویہ میں دو نکات ایسے ہیں، جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پہلا نکتہ، اس کی تسلط پسندانہ پالیسیاں ہیں، جو ملت ایران کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں ہیں۔ دوسرا نکتہ، امریکی پالیسیوں کی ماہیت ہے، جس نے پچھلے پچاس سال سے زیادہ کے عرصے میں ثابت کیا ہے کہ ایران پر تسلط حاصل کرنے کے لئے وہ کسی بھی جارحیت، جرم اور کسی بھی غداری سے دریغ نہیں کرے گا۔ امریکی پالیسیوں کی ہی وجہ سے ایرانی عوام کے خلاف آٹھ سالہ جنگ مسلط کی گئی۔ یہ حقائق امریکہ کے بارے میں ایرانی عوام کے نظریہ کی کسوٹی ہیں، البتہ امریکہ کی تسلط پسندی اور دھونس دھمکی صرف ایران تک محدود نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کے سلسلہ میں امریکہ کا یہی رویہ ہے۔ امریکہ ہر چیز پر اپنا حق سمجھتا ہے اور سب پر اپنا حکم چلانا چاہتا ہے، ہر چیز کو جیسے خود چاہتا ہے، ویسی ہی بنانا چاہتا ہے۔ وہ طاقت و اقتدار بھی چاہتا ہے اور ثروت و دولت بھی۔ امریکہ طاقت کے نشہ میں غرق ہے، اسے اب جان لینا چاہیئے کہ زمینی حقائق بہت بدل چکے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 937782

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/937782/زیادہ-سے-دباؤ-کی-امریکی-پالیسی-بدستور-جاری

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org