0
Thursday 17 Jun 2021 07:37

فلیگ ڈانس ریلی

فلیگ ڈانس ریلی
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

صہیونی اہلکاروں کی فلیگ ڈانس ریلی کے شرکاء نے مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کے باب العامود پر قبضہ کر لیا اور وہ اس دوران عرب مردہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ ہزاروں اہلکاروں کے ہاتھوں مین پرچم تھے اور فلیگ ڈانس ریلی سخت سکیورٹی انتظامات کے تحت نکالی گئی جبکہ لائوڈ اسپیکروں پر عبرانی زبان میں ٘مختلف نعرے لگائے جا رہے تھے۔ شدت پسند صہیونیوں کی فلیگ ڈانس ریلی تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی اور اس کے بعد یہودی خواتین کا بھی ایک جلوس نکلا۔ فلیگ ڈانس ریلی سے قبل اسرائیلی سکیورٹی فورس نے باب العامود کا پورا علاقہ فلسطینیوں سے خالی کرا لیا تھا اور فلسطینیوں کو علاقے سے ہٹانے کے لیے اسرائیلی فوج نے تشدد کا سہار لیا، اس دوران دسیوں فلسطینی زخمی ہوگئے۔ شدت پسند صہیونیوں کی فلیگ ڈانس ریلی کے خلاف احتجاج کے لیے اسرائیلی پارلیمنٹ کے چار عرب اراکین بھی باب العامود پہنچے تھے۔ غرب اردن میں فلیگ ڈانس ریلی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے فلسطینی نوجوانوں اور اسرائیلی فوج میں جھڑپیں ہوئی ہیں جبکہ غزہ میں غصے سے بھرے ہزاروں فلسطینیوں نے فلیگ ڈانس ریلی کے خلاف مظاہرہ کیا۔

گذشتہ روز پندرہ جون کو فلیگ ڈانس ریلی نے صہیونی گروہوں میں موجود اختلافات کو مزید آشکار کر دیا ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں ہونے والے ان مظاہروں میں اسرائیل کی جعلی ریاست میں موجود مختلف گروہ ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کرتے نظر آئے۔ یاد رہے کہ غاصب صہیونیوں کی نئی تشکیل پانے والی کابینہ نے متنازعہ پرچم ریلی کی اجازت دی ہے۔ اس ریلی کی وجہ سے فلسطینیوں اور صہیونیوں میں کشیدگی میں مزید بڑھ گئی ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ اسرائیلی سوسائٹی میں بھی باہمی اختلافات کم نہیں ہیں۔ پرچم ریلی میں لیکوڈ پارٹی کے کارکنوں نے نئے صہیونی وزیراعظم نفتالی بینیٹ کے خلاف نعرے بازی کی اور اس بات کا کھل کر اعلان کیا کہ بینیٹ خائن اور جھوٹا ہے۔ اس پرچم ریلی نے اسرائیل میں موجود اختلافات کو برملا کر دیا ہے اور اسرائیل کے سیاسی ڈھانچے میں موجود کمزوری کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔

اسرائیل کے سیاسی نظام میں اختلاف اور خلیج اس وقت شروع ہوا، جب نفتالی بینیٹ اور گیلاٹون سعر نے لیکوڈ پارٹی سے الگ ہو کر ایک نئی پارٹی کی داغ بیل ڈالی۔ اسرائیل کی نئی تشکیل پانے والی کابینہ میں متضاد اور متحارب گروہ اکٹھے ہوئے ہیں، جس سے جلد یا بدیر باہمی اختلافات مزید ابھر کر سامنے آئیں گے۔ مثال کے طور پر نئی کابینہ میں لیبرمین اور بینیٹ اور سعر جیسے دائیں بازو کے انتہاء پسندوں کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے اعتدال پسند بھی موجود ہیں۔ پرچم ریلی میں لگنے والے نعرے بھی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسرائیل کا سیاسی نظام تضادات کا مجموعہ ہے اور مختلف افکار و نظریات رکھنے والے سیاسی گروہ کسی بھی وقت ایک دوسرے کے دست بگریبان ہوسکتے ہیں۔

گذشتہ روز کی پرچم ریلی کے شرکاء مختلف طرح کے نعرے لگا رہے تھے، مثال کے طور پر "باب المامود" کے قریب صہیونی مظاہرین عربوں کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے مردہ باد عرب کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ دوسری طرف عرب تحریک کے سربراہ "احمد الطیبی" نے پرچم ریلی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قدس میں صرف فلسطین کے پرچم کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور بقیہ تمام جھنڈے اور پرچم غیر قانونی اور ناقابل قبول ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ فلیگ ڈانس ریلی میں ایسے عالم میں عربوں کے خلاف نعرے بازی کی گئی کہ عرب شہریوں پر مشتمل جماعت "رعم" نئی صہیونی حکومت میں شامل ہے اور اس کے فیصلہ کن ووٹوں سے نئی حکومت تشکیل پائی ہے۔ عربوں کے خلاف یہ نعرے صرف اسرائیلی سوسائٹی کی داخلی صورتحال کو نمایاں نہیں کر رہے بلکہ اس کے پیچھے سیاسی اہداف بھی موجود ہیں کیونکہ عرب جماعت نے نیتن یاہو کو اقتدار سے الگ کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔

منگل کی پرچم ریلی غاصب صہیونی حکومت اور صہیونی لابی کی نسل پرستی کو بھی نمایاں کرتی ہے، کیونکہ اس ریلی کا آغاز کرنے والا ایک انتہاء پسند یہودی "یہودا حزانی" تھا۔ یہودا حزانی قدس اور غرب اردن میں صہیونی بستیوں کو تعمیر کا زبردست حامی تھا۔ یہودا خزانی نے امریکہ میں بھی یہودی نواز موومینٹ شروع کی تھی اور اس نے غاصب اسرائیلی فوج کے بعض ریٹائرڈ جرنیلوں کو اپنے ساتھ ملا کر نوجوان صہیونیوں کو فوج میں بھرتی کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہودا خزانی 1992ء میں ہلاک ہوا اور پرچم ریلی ہر سال اس کی یاد اور اس کے شروع کیے گئے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے انجام دی جاتی ہے۔ اس ریلی کا بڑا نعرہ صہیونی بستیوں کی تعمیر ہوتا ہے اور اب تو اس ریلی اور دن کو دینی تقدس بھی بھی دے دیا گیا ہے۔

بہرحال فلیگ ڈانس ریلی کے خالق  و موسس انتہاء پسند صہیونی ہیں، اسی لیے تو عرب تحریک کے سربراہ احمد الطیبی نے تاکید کیساتھ کہا ہے کہ یہ ریلی غاصبانہ قبضے اور یہودی نسل پرستی اور صہیونیست نوازی کی علامت ہے۔ اس نسل پرستی کی بنیادی اور اصلی وجہ غاصب صہیونی حکومت کے مظالم اور مقبوضہ علاقوں میں مختلف سیاسی و سماجی اختلافات کی موجودگی ہے۔ اس سال کی فلیگ ڈانس ریلی نے داخلی اختلافات اور سیاسی و سماجی خلیج کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ غاصب اسرائیلی ریاست کے سیاسی ڈھانچے اور حالیہ صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نتین یاہو اس شکست پر آرام سے نہیں بیٹھے گا اور اپنے حامیوں کو سڑکوں پر لاکر نفتالی بینیٹ کی اتحادی حکومت پر دبائو بڑھاتا رہیگا۔ البتہ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ اسرائیلی عدالت نیتن یاہو کو سیاسی سرگرمیوں کی فرصت نہ دے اور اسے ماضی کی بدعنوانیوں کے جرم میں جیل میں بھیج دے۔
خبر کا کوڈ : 938484
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش