0
Sunday 20 Jun 2021 09:53

افغانستان سے نکلتا شکست خوردہ امریکہ اور بدلتے حالات

افغانستان سے نکلتا شکست خوردہ امریکہ اور بدلتے حالات
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

خطے کے حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ ڈیموکریٹس جنگ کی معیشت کے کچھ زیادہ ہی قائل ہیں، وہ زبان سے امن اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں مگر  دیگر اقوام پر اکثر حملے انہی کے ادوار حکومت میں ہوئے ہیں۔ افغانستان اور عراق سے فوری طور پر نکلنے کی پالیسی کا اعلان کرکے بظاہر جنگ سے دوری اختیار کی  جا رہی تھی اور جس ووٹر نے امن کے لیے ووٹ دیا تھا، اسے مطمئن کیا جا رہا تھا۔ اب صورتحال آہستہ آہستہ بڑی واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اصل میں حکمت عملی تبدیل کی جا رہی ہے۔ اب پہلے ان ممالک کو دہشتگرد تنظیموں سے دوبارہ برباد کرایا جائے گا۔ ہزاروں لاکھوں لوگ مریں گے اور ان کا انفراسٹکچر بری طرح برباد کیا جائے گا۔ پھر امن اور تعمیر نو کے نام پر اور جمہوریت کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے باہمی طور پر لڑ لڑ کر نڈھال ہوتے گروہوں کو تہس نہس کرکے من پسند افراد کو مسلط کیا جائے گا۔

عراق میں بڑے پیمانے پر یہ خبریں آرہی ہیں کہ امریکہ داعش کو مسلسل منظم کر رہا ہے اور اس کی بھرتیوں میں اضافہ ہوا ہے اور دیگر کئی مقامات سے بھی انتہائی محفوظ طریقے سے عراق منتقلی کا کام جاری ہے۔ پہلے ہی کردون اور اہلسنت کو بہت متنفر کیا جا رہا ہے۔ وہ حشد الشعبی جس نے کردوں اور عراق کے اہلسنت دونوں کو داعش کے درندوں سے بچایا، اس کے خلاف کردوں اور خریدے ہوئے چند قبائلی لیڈروں سے پروپیگنڈا کرایا جا رہا ہے۔ عراق میں داعش کے ساتھ دوبارہ وہی سلوک ہوگا، جو اس سے پہلے ہوچکا ہے۔ اب عراقی فورسز اور حشد الشعبی بڑی منظم قوت بن چکی ہیں۔ افراتفری بہرحال پھیلانے کی کوشش ضرور کی جائے گی۔ اس بار شیعہ علاقوں میں شیعوں کو باہمی لڑانے پر بھی فوکس ہے، اس لیے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ عراق کی قیادت اس کا مکمل ادراک رکھتی ہے اور سب سے بڑھ کر آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی مدظلہ العالی جیسی حالات کا ادراک رکھنے والی شخصیت موجود ہیں، وہ حالات کو مکمل کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اصل اور بڑا مسئلہ افغانستان کا ہے، افغانستان پھر سے آگ و بارود کا ڈھیر بن چکا ہے۔ پچھلے کئی سال سے افغان قیادت چیخ رہی ہے کہ امریکی بڑی خاموشی سے داعش کو یہاں پروان چڑھا رہے ہیں۔ امریکہ کے داعش کو پروان چڑھانے کے کئی مقاصد ہیں، ایک تو اس کے ذریعے جب چاہے گا افغان حکومت کو دباو میں لائے گا اور دوسرا اس کے ذریعے ان ناپسندیدہ مسلح گروہوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی، جو امریکہ کے مخالف ہیں۔ اسی لیے پچھلے کئی سالوں سے  طالبان اور داعش کی جھڑپوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اسی گروہ کے ذریعے پاکستان کو بھی سبق سکھانے کا پروگرام ہے، وہ تو پاکستانی افواج نے بروقت اس خطرے کا ادراک کر لیا اور فوری طور پر افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا سلسلہ شروع کر لیا، جس سے یہ سلسلہ کافی کنٹرول ہوگیا۔

امریکی قیادت نے یہ وارننگ جاری کی ہے، افغانستان کے پڑوسی ممالک مہاجرین کو قبول کرنے کی تیاری کر لیں۔ یہ انتباہ اس بات کا اعلان ہے کہ افغانستان میں حالات خراب کیے جا رہے ہیں۔ کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں، جن میں طالبان بڑے پیمانے پر بڑی بڑی انتظامی عمارتوں کو بارود سے اڑا رہے ہیں۔ اسی طرح افغان طالبان کے حامی حلقوں میں ایسے میسج گردش کر رہے ہیں کہ جلد کابل پر ان کا پرچم ہوگا اور افغان ٹی وی اور ریڈیو امارات اسلامیہ کا ترجمان ہوگا۔ یہ سب یہ بتاتا ہے کہ کچھڑی پک رہی ہے اور کچھ ہونے والا ہے۔ امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا اور  ان کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کو بڑی تعداد میں امریکہ اور یورپ کے ویزے جاری کیے گئے ہیں اور وہ لوگ دھڑا دھڑ افغانستان چھوڑ رہے ہیں۔

اس تمام صورتحال میں امریکہ خطے پر سی آئی اے کے ذریعے نگرانی رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے امریکہ اور سی آئی اے کی شدید خواہش ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین  سی آئی اے کو دے، تاکہ یہاں سے ان کے بقول داعش اور طالبان کے خلاف کاروائی کی جا سکے۔ ان کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان فوری طور پر یہ کر دے گا، مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔ سنا گیا ہے کہ سی آئی اے چیف کی دھمکی والی کالز کے باوجود بھی انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ دھمکی اور لالچ دونوں نے کام نہیں کیا، اس کا  ایک عملی اظہار وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب کے اس انٹرویو سے بھی ہوتا ہے، جس میں مغربی صحافی ان سے پوچھتا ہے کہ کیا آپ افغانستان میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے لیے اپنے اڈے دے رہے ہیں؟ عمران خان بڑے واضح اور واشگاف انداز میں فوری طور پر یہ کہتے ہیں کہ کسی صورت میں بھی نہیں۔ اس پر وہ صحافی بکھلا سا جاتا ہے اور دوبارہ وہی سوال کر دیتا ہے، اس پر دوباہ اسے وہی جواب ملتا ہے۔

پاکستان نے ماضی میں امریکہ کو اڈے دے کر اس کی بڑی قیمت ادا کی ہے اور  اندرونی دباو اور بیرونی حملوں کا سامنا کیا ہے۔ ہمیں پرائی جنگ میں جانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ رسوا ہو کر نکل رہا ہے تو جائے، بس ہمیں افغانستان کے استحکام کے لیے کام کرنا چاہیئے۔ امریکہ کی روایت رہی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے جب دیکھتا ہے کہ سیاسی حکومتوں رکاوٹ بن رہی ہیں تو ان کی تبدیلی کی کوشش کرتا ہے۔ اس حوالے سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ عراق و افغانستان دونوں مقامات پر ترکی کا کردار بڑا اہم ہوتا جا رہا ہے۔ فعل الحال اطلاعات کے مطابق نیٹو اور دیگر فورسز نکل جائیں گی، مگر ترکی کی فورسز کو اہم ذمہ داریاں دی جا رہی ہیں۔ اس پر افغان طالبان کا شدید ردعمل آیا ہے اور انہوں نے کسی بھی فورس کو افغان سرزمین پر قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اگر ترک فورسز افغانستان میں رہنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو یہ ان کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا اور افغانستان کا مسئلہ مزید الجھ جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 939042
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش