0
Monday 21 Jun 2021 07:55

ایران کے صدارتی انتخابات اور عالمی سازشیں(1)

ایران کے صدارتی انتخابات اور عالمی سازشیں(1)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ایران میں تیرہویں صدارتی انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ صدارتی امیدوار ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی تقریباً باسٹھ فیصد ووٹ لیکر ایران کے آٹھوین صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات کے بارے میں جو پروپیگنڈے کیے گئے اور ان انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے جو کوششیں کی گئیں، وہ ماضی کے کسی انتخاب میں انجام نہیں دیں گئیں۔ بعض تجزیہ نگاروں نے تو اسے صدر اسلام کی جنگ احزاب سے تشبیہ دی ہے۔ گذشتہ دو برسوں سے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی کہ 2021ء کے انتخابات کو ناکام بنا کر ایران کے اسلامی جمہوری نظام کو ایران کے اندر اور عالمی سطح پر ایک ناکام نظام ثابت کیا جائے۔ امریکہ اور پورا مغرب اس سازش میں برابر کا شریک تھا۔ خطے کے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب بھی اس سازش میں پیش پیش رہا۔

امریکہ اور یورپ نے عالمی ایٹمی معاہدے اور دیگر عالمی سازشوں سے اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی اور اس حوالے سے ڈونالڈ ٹرامپ کی زیادہ سے زیادہ دبائو کی پالیسی کا خصوصی طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کو یمن، شام اور عراق کے مسائل میں بدنام کرنے میں امریکہ و اسرائیل کی مدد کی اور انتخابات سے ایک ماہ پہلے ہی اپنے میڈیا کے ذریعے ایرانی عوام کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ عربی اور مغربی سرمائے سے چلنے والے فارسی ٹی وی چینلوں نے رات دن ایک کرکے ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات کو غیر موثر اور ناکام بنانے کے لیے جو سازشیں انجام دیں، اس کے لیے ایک ضخیم کتاب بھی کم پڑے گی۔ وہ عرب ممالک جن کے ہاں جمہوریت کی جیم بھی موجود نہیں، انہوں نے ایران کی اسلامی جمہوریت کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا، اس کو سن کر ہر باشعور انسان ششدر ہو جاتا ہے۔

مغربی دنیا بالخصوص امریکہ و برطانیہ اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپئن کہتے ہیں، لیکن جب ایران میں رائج کامیاب اسلامی جمہوریت کا نام آتا ہے تو ان کی جمہوریت کی رگ بھڑکنے کی بجائے بے حس ہو جاتی ہے۔ اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ ایران میں اقتصادی مشکلات اور عوامی توقعات اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہیں اور عوام داخلی اور خارجی عناصر کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، لیکن کیا ان مشکلات و توقعات سے سوئے استفادہ جمہوری اقدار کے منافی نہیں۔؟ کیا کسی ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کو بہانہ بنا کر وہاں جمہوریت کے خلاف کھم کھلا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔؟ اسلامی انقلاب کے داخلی اور خارجی دشمنوں نے ایک بار پھر اندازے اور تخیمنے کی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔

ماضی میں انھوں ںے جس طرح اسلامی انقلاب، عوام کی اس نظام سے عقیدت اور ایرانی قوم کی استقامت سمیت دوسرے شعبوں میں ایرانی قوم کی صلاحیتوں اور پوٹیشنل کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے، وہ غلط اندازے انتخابات کے حوالے سے بھی سو فیصد برعکس ثابت ہوئے۔ کرونا وائرس اور کسی خاص عوامی کمپین کے بغیر عوام کی بھرپور شرکت ان تمام داخلی اور خارجی قوتوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ زہریلے پروپیگنڈوں اور منفی ہتھکنڈوں سے ایرانی عوام کو اپنے نظام اور انقلاب سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات میں بی بی سی، ایران انٹرنیشنل، وائس آف امریکہ، سی این این، فاکس نیوز سمیت صہیونی لابی کے سرمائے پر چلنے والے میڈیا ہائوسز نے جتنا وقت ایرانی انتخابات پر صرف کیا، اپنے ملک کے انتخابات کی اتنی کوریج نہیں کی۔

تیرہویں صدارتی اتنخابات نے جہاں ایران و انقلاب کے دوستوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ایران کا جمہوری نظام پہلے کی طرح مضبوط و مستحکم ہے، وہاں کمزور ایمان دوستوں کو بھی یہ پیغام دیا کہ صہیونی پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر اپنے نظریئے پر قائم رہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی بجائے انقلاب دوست میڈیا کو بھی ضرور سنا اور دیکھا کریں، تاکہ حقائق تک پہنچنے میں آسانی رہے۔ بعض آگاہ افراد من جملہ امام خمینی سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ ایسے افراد کے لیے جو تجزیہ و تحلیل اور متعلقہ معلومات نہیں رکھتے، انہیں مغرب کے متعصب میڈیا سے استفادہ نہیں کرنا چاہیئے۔ ایران کے حالیہ انتخابات کے نتائج نے دنیا بھر میں ایرانی سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ ایرانی عوام دشمن کے مقابلے میں متحد و منسجم ہے اور دشمن اپنے ہتھکنڈوں سے ایرانی عوام کے درمیاں اختلاف کی خلیج پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 939209
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش