0
Thursday 24 Jun 2021 10:22

لاہور دھماکہ، دہشتگردی کو جڑ سے اُکھاڑنا ہوگا

لاہور دھماکہ، دہشتگردی کو جڑ سے اُکھاڑنا ہوگا
تحریر: تصور حسین شہزاد

وزیراعظم پاکستان کی جانب سے امریکہ کو ’’ڈُو مور‘‘ کا جواب ’’نو مور‘‘ کی صورت میں دینے کے بعد ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ پاکستان میں ایک بار پھر دہشتگردی کا عفریت سر اُٹھا سکتا ہے، کیونکہ امریکہ اور بھارت پاکستان کے معاملے میں ہمیشہ ایک پیج پر نظر آئے ہیں۔ امریکہ نے ہمیشہ بھارت کے تعاون سے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کی ہے اور حالیہ دہشتگردی کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیتا ہے۔ لاہور کے علاقے جوہر ٹائون میں کار بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 4 افراد جاں بحق اور ایک پولیس اہلکار سمیت 24 افراد زخمی ہوئے۔ پولیس کے مطابق دھماکہ گاڑی میں رکھے گئے بارودی مواد سے ہوا اور اس کا ہدف قریب کھڑے پولیس اہلکار تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ گرد و نواح میں گھروں کی کھڑکیاں اور شیشے ٹوٹ گئے، گاڑیوں کو نقصان پہنچا جبکہ دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ دھماکہ کے فوری بعد بم ڈسپوزل سکواڈ، ریسکیو اور سکیورٹی اہلکار موقع پر پہنچ گئے۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے دھماکے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس کو واقعے کی تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے۔ آئی جی پنجاب پولیس نے کہا ہے کہ دہشتگردی کی واردات کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ پولیس بہت جلد دھماکے میں ملوث عناصر کو گرفتار کر لے گی۔ لاہور میں ہونیوالا بم دھماکہ انتہائی پریشان کن بلکہ تشویشناک صورتحال کا عکاس ہے۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کیلئے یہ امر لمحہ فکریہ سے کم نہیں کہ دہشتگرد عناصر نے ملک کے مغربی علاقوں کے بعد لاہور جیسے شہر میں بھی بزدلانہ کارروائی کر ڈالی ہے۔ لاہور کے جس علاقے میں دہشت گردی کی واردات ہوئی ہے، وہ شہر کے اہم ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جوہر ٹائون اور جائے وقوعہ پر خاص طور پر سکیورٹی کے بھی موثر انتظامات ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں امن دشمن عناصر نے لاہور کے قلب میں واردات کر ڈالی، جو اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے۔ چند سال پہلے تک کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور، راولپنڈی سمیت ملک کے تمام بڑے شہر امن دشمنوں کے نشانے پر رہتے تھے۔ ملک کی مغربی سرحدوں کیساتھ ساتھ تو بدامنی، لاقانونیت اور شرانگیزی کی وارداتیں ایک تسلسل سے جاری رہتی تھیں۔

دہشتگردی کیخلاف عالمی جنگ اور افغانستان میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے پاکستان کو دہشتگردی کے خوفناک عفریت کا سامنا تھا۔ اس خطرناک صورتحال میں ملک کے سکیورٹی اداروں نے پوری قوم کی مدد و حمایت کیساتھ دہشت گردی کیخلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیا۔ پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ امن دشمن عناصر کیخلاف مکمل عدم برداشت کی پالیسی کے تحت انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے آپریشنز کا آغاز ہوا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ قومی عزم کیساتھ افواج پاکستان، نیم فوجی دستوں، قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں نے مشترکہ آپریشنز کے ذریعے ملک بھر میں دہشت گردی کی وارداتوں پر تقریباً خاتمہ کر ڈالا۔ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کی وجہ سے دہشتگردوں، ان کے ٹھکانوں، سہولت کاروں اور پشت پناہوں کو تباہ کیا جا چکا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سکیورٹی فورسز کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں بچے کچھے دہشتگرد افغانستان فرار ہوچکے ہیں یا پھر زیر زمین جا چکے ہیں۔ یہ دہشتگرد موقع ملنے پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور سکیورٹی فورسز کو ان بچے کچھے شرپسندوں کے مکمل خاتمے تک کسی صورت اطمینان کا سانس نہیں لینا چاہیئے۔ پھر ایسے حالات میں کہ جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کی تیاریاں جاری ہیں۔ افغانستان میں داخلی انتشار میں اضافے کے خدشات بھی موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر دشمن قوتیں سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے پر تلی ہوئی ہیں اور یقینی طور پر اس مذموم مقصد کیلئے دہشتگردی اور تخریب کاری کو مہلک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنے داخلی امن کے معاملے پر معمول سے زیادہ چوکنا ہونا ہوگا۔ ناقابل تلافی معاشی نقصان اور ہزاروں قیمتی زندگیوں کی قربانیوں سے حاصل ہونیوالے امن کو مٹھی بھر شرپسندوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ملک کی معاشی ترقی اور سماجی خوشحالی کا دارومدار پرامن حالات پر ہے۔

بدامنی اور بے یقینی کی صورتحال میں نہ صرف یہ کہ معاشرہ نفسیاتی دبائو کا شکار رہتا ہے بلکہ ہر قسم کی معاشی سرگرمیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت ملکی معیشت میں بہتری کے آثار دیکھے جا رہے ہیں۔ کھیل کے میدان، سیاحتی مقامات آباد ہو رہے ہیں، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ کاروباری، تجارتی سرگرمیوں میں بہتری دکھائی دے رہی ہے۔ سی پیک منصوبہ اپنی جگہ تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے، جس کے معاشی و سماجی ترقی پر گہرے مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بم دھماکے تو دور بدامنی کی معمولی صورتحال کو بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ برائی کو جڑ سے اکھاڑ ڈالنے کے اصول کی بنیاد پر ملک کے طول عرض میں شرانگیزی کا باعث بننے والے عناصر کو کسی تفریق کے بغیر انجام تک پہنچایا جائے۔

بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ، پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے چھوٹے بڑے شہروں، دیہات اور گوٹھ گائوں تک میں امن دشمنوں کا بے رحمی سے تعاقب کیا جائے۔ ان وجوہات کا خاتمہ کرنے کی موثر کوششیں کی جائیں، جو حالات میں بے یقینی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ دہشتگردوں اور شدت پسندوں کو ان کے سہولت کاروں اور پشت پناہوں سمیت انجام تک پہنچایا جائے۔ لاہور دھماکے کو خاص طور پر ایک چیلنج کے طور پر لیا جائے اور فوری طور پر ایسی جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے، جس کی مدد سے ملک کے اندر امن کو یقینی بنانے میں کوئی کمی نہ رہے اور علاقائی و عالمی سطح پر سیاسی و سفارتی کوششوں کے ذریعے پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنیوالی دشمن قوتوں کو بے نقاب کیا جائے۔ دہشتگردی کے اس ناسور کو پھر سے شدت پکڑنے کا موقع دیئے بغیر اسے جڑ سے اکھاڑ ڈالنے کے سوا کوئی آپشن یا راستہ نہیں۔
خبر کا کوڈ : 939786
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش