0
Thursday 24 Jun 2021 10:38

ایران کے صدارتی انتخابات اور عالمی سازشیں(2)

ایران کے صدارتی انتخابات اور عالمی سازشیں(2)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

اسلامی جمہوری ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات نے امریکی استعمار کی اس سازش کو بھی ناکام بنا دیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دبائو کی پالیسی ایرانی عوام کو اپنے اسلامی انقلاب کے نظریئے سے روگردان کرسکتی ہے۔ ایرانی عوام نے تمام تر اقتصادی دبائو، معاشی مشکلات اور دیگر داخلی و خارجی مصائب کے باوجود اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے نظام اور ریاست پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ایران کا تیرہواں صدارتی الیکشن اس لحاظ سے ماضی کے بارہ صدارتی انتخابات سے منفرد تھا کہ اس کو ناکام بنانے کے لیے تین حلقوں کی طرف سے منصوبہ بندی کی گئی۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ، جس کی قیادت امریکہ اور سی آئی اے کے پاس تھی جبکہ اس کو موساد کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ دوسرا حلقہ منافقین خلق اور سابق شاہ ایران کے خاندان کے حامیوں پر مشتمل تھا، جبکہ تیسرا خطرناک حلقہ ان نفوذی (planted) عناصر کا تھا، جن کے بارے میں ایران کے انقلابی حلقے کافی عرضے سے تشویش کا شکار تھے اور مختلف پلیٹ فارموں سے اس کے سدباب کے لیے آوازیں بلند کر رہے تھے۔ اس حوالے سے ایران کے معروف اسٹریٹجیسٹ ڈاکٹر حسن عباسی اور معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر علی اکبر رائفی پور کے کئی لیکچرز اور خطابات سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔

جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ تیرہویں صدارتی انتخابات کو ناکام بنانے کی منصوبہ بندی سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ کے دور صدارت میں انجام پائی تھی۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ٹرامپ اقتدار میں ہوتا تو ایرانی انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے حالیہ سازشوں سے زیادہ طاقتور اور مستحکم اقدامات انجام دیئے جاتے۔ ڈونالڈ ٹرامپ کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے تھے، تاہم جو بائیڈن نے ایران کی بجائے چین کو اپنا پہلا ٹارگٹ بنانے کا ارادہ کیا، جس سے ایران کے خلاف متحرک ٹیم کو زیادہ مطلوبہ حمایت نہ مل سکی۔ تیرہویں صدارتی انتخابات کو ناکام بنانے اور اس کے نتیجے میں اپنے مذموم اہداف کے حصول کے لیے جو مختلف سناریو تشکیل دیئے گئے، ان میں چند ایک کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید حقائق بھی روشن ہوتے رہیں گے۔

تیرہویں صدارتی انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے جو ماسٹر پلان تشکیل دیا گیا، اس میں ٹرن آئوٹ کو بیس فیصد سے نیچے لانا تھا، اس کے لیے مختلف ہتھکنڈے اختیار کیے گئے۔ عوام کو معاشی و سماجی مشکلات میں الجھا کر اپنی مرضی کا پروپیگنڈا کرکے عوام الناس میں ایسا ماحول تیار کرنا تھا، جس سے عوام مایوس ہو جائیں اور ان کی حکومت، انتخابات اور نظام سے توقعات ختم ہو جائیں۔ ان انتخابات کے دوران مختلف پراپیگنڈوں میں ماضی کے انتخابات کے تناظر میں حکومتوں کی کارکردگی کو اس طرح پیش کیا گیا، جیسے حکومتیں عوام سے ووٹ تو لیتی ہیں، لیکن عوام کے لیے کچھ ڈیلیور نہیں کرتیں۔ اس پروپیگنڈے میں ایران کے اقتدار میں آنے والے دونوں گروہوں اصول پسندوں اور اصلاح پسندوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اصلاح پسند ڈاکٹر حسن روحانی اپنی کارکردگی کی وجہ سے میدان سیاست میں عوام کی نفرتوں کا شکار تھے جبکہ دوسری طرف اصول پسندوں کی ماضی کی حکومتوں کا حوالہ دے کر عوام کو انتخابات اور نظام سے مایوس کرنے کے لیے ایک پیچیدہ اور وسیع نرم جنگ کا آغاز کیا گیا۔ دیہاتوں اور دور دراز علاقوں تک حکومت کی ناکامیوں کے قصے پہنچائے گے۔ صورتحال اتنی بھیانک بنا دی گئی کہ عوام کی ایک بڑی تعداد صدر روحانی کی مخالفت میں  ووٹ دینے سے بیزار نظر آنے لگی۔

انقلاب دشمن عناصر اور تیرہویں صدارتی انتخابات کو ناکام بنانے والے منصوبہ ساز اس کم ٹرن آئوٹ اور عوام کی انتخابات سے دوری کو لے کر ونیزویلا پلان کو عملی جامہ پہنانے کے خواہشمند تھے۔ وینزویلا میں سی آئی اے نے صدر نکولس مادورو کے مقابلے میں ایک اپوزیشن لیڈر کو کھڑا کیا اور اس کو بنیاد بنا کر حکمران جماعت کے لیے عالمی اور علاقائی اداروں میں مشکلات پیدا کر دیں۔ امریکہ نے نکولس مادورو کے صدارتی اتنخابات میں کامیابی کو مشکوک بنا کر اپوزیشن لیڈر جون گائیڈو کو نگران صدر قرار دے دیا اور امریکہ، برطانیہ، اسپین، جرمنی، فرانس اور آسٹریلیا نے نکولس مادورو کی جگہ جون گائیڈو کو نگران صدر کے طور پر تسلیم کر لیا۔ ایران میں بھی اسی طرح کے فارمولہ کو عملی جامہ پہنانا تھا، لیکن ایرانی قیادت اور ایرانی عوام نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ اس سازش کے ساتھ ساتھ کم شرکت کا بہانہ بنا کر انتخابات کو غیر معتبر اور ناقابل قبول قرار دے کر عوام کو سڑکوں پر لانا بھی پروگرام کا حصہ تھا اور ایران میں موجود مختلف سلیپر سیلز کو مکمل تیار رہنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔

بی پلان کے تحت نومنتخب صدر کو تسلیم نہ کرنے کے ہنگامے شروع کرنا تھا، لیکن اس کے لیے بنیادی شرط کم سے کم ٹرن آئوٹ تھا۔ ایک اور پلان یہ بھی تھا کہ ضائع شدہ ووٹوں کی تعداد کو زیادہ سے زیادہ کرکے عراق کے سناریو کو دہرایا جائے، جس سے عبدالمہدی کو اقتدار سے الگ کرکے مصطفیٰ الکاظمی کو اقتدار میں لایا گیا۔ سازشی عناصر یہ سمجھ رہے تھے کہ جب عوام انتخابات کے لیے باہر نہیں آئیں گے تو وہ ایرانی سوسائٹی کے نمائندے بن کر اپنے مطالبات کو لیکر سڑکوں پر آجائیں گے اور انقلاب دوست عناصر بھی اپنی اخلاقی کمزوری (کم ٹرن آؤٹ) کا احساس کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ مشتعل عوام کے سامنے نہیں آئیں گے بلکہ لاتعلق یا غیر جانبدار رہ کر ماضی کی طرح عوامی طاقت سے اس نئی بغاوت کو کچلنے میں نظام کا ساتھ نہیں دیں گے۔

سی پلان یہ تھا کہ اگر اپوزیشن کو وینزویلا کی طرح پذیرائی نہیں ملتی اور کئی ممالک کی طرف سے اپوزیشن کو ایران کی باقاعدہ نمانئدہ حکومت تسلیم کرنے کے باوجود ایران کا اقتدار مکمل طور پر امریکہ نواز اپوزیشن کے ہاتھوں نہیں دیا جاتا، سپاہ پاسداران اور دیگر انقلابی ادارے رکاوٹ بن جاتے ہیں تو عوامی دباو کے ذریعے ولایت فقیہ کے اختیارات یا نئے حکومتی ڈھانچے کے بارے میں ریفرنڈم کا مطالبہ کیا جاتا۔ ایران کے انقلاب اور موجودہ اسلامی نظام کے دشمنوں نے ایک بار پھر اس نظام کے خاتمے اور اس میں  اپنی مرضی کی تبدیلیاں لانے کے کئی خواب دیکھ رکھے تھے، لیکن اس بار بھی ان کے ارادے غلط ثابت ہوئے۔ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے دشمن اپنے اندازوں میں اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ اس انقلاب اور نظام کے لیے لاکھوں شہداء نے قربانیاں دی ہیں۔

اس انقلاب کی کامیابی و پیشرفت میں شہید مصطفیٰ چمران اور شہید حاج قاسم سلیمانی جیسے مجاہدین کا خون شامل ہے۔ سامراجی طاقتیں مادی طاقت اور شیطانی مفروضوں پر یقین کرکے روحانی اور رحمانی ارادوں کو شکست دینا چاہتی ہیں تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ تم نے ماضی میں صدر، وزیراعظم، پارلیمنٹ کے اراکین، ائمہ جمعہ و جماعت، علماء، ماہرین، ایٹمی سائنسدانوں سمیت ہزاروں افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ آٹھ سال تک جنگ مسلط کی، مفلوج کرنے والی اقتصادی پابندیاں عائد کیں، زیادہ سے زیادہ دبائو کی پالیسی کو لاگو گیا، لیکن ایرانی قیادت اور ایرانی عوام تمھارے سامنے ماضی میں جھکے تھے، نہ اب جھکیں گے۔ حالیہ انتخابات کو ناکام بنا کر جو مذموم اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، ماضی کی سازشوں کی طرح وہ بھی ناکام رہی اور رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بقول خداوند عالم کی مدد سے ایرانی عوام ایک بار پھر فاتح ہو کر میدان میں ظاہر ہوئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 939874
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش