0
Friday 25 Jun 2021 10:02

جنسی سکینڈلز، دینی مدارس کے سسٹم کیخلاف سازش؟

جنسی سکینڈلز، دینی مدارس کے سسٹم کیخلاف سازش؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

دیوبندی مکتب فکر کے ممتاز عالم دین مفتی عزیز الرحمان کی طالبعلم کیساتھ زیادتی کی ویڈیو لیک ہونے کے بعد "عالمی" دباو پر انہیں تیسرے روز ہی دھر لیا گیا۔ نہ صرف انہیں بلکہ ان کیساتھ ان کے تین بیٹوں کو بھی پکڑا گیا ہے۔ مفتی عزیز الرحمان کے بقول یہ واقعہ تین سال پرانا ہے، مدرسے کا قبضہ لینے کیلئے ساتھی مدرس سید رسول نے یہ سازش کی ہے۔ سید رسول کے حوالے سے مفتی صاحب کا فرمانا ہے کہ وہ افغانی شہری ہے اور جعلی شناختی کارڈ سے پاکستان میں مقیم ہے، جبکہ اس کیس کے مدعی طالبعلم صابر شاہ کا موقف ہے کہ اسے مسلسل تین سال سے بلیک میل کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ مفتی عزیز الرحمان کے بیٹوں پر الزام ہے کہ انہوں نے والد کے دفاع میں مدعی مقدمہ کو قتل کی دھمکیاں دیں۔ مفتی عزیز الرحمان کے تین بیٹے گرفتار اور تین بیٹے عبوری ضمانت پر ہیں۔

مفتی عزیز الرحمان کے فوری بعد اہل تشیع عالم دین کا سکینڈل منظر عام پر آیا۔ اس میں مدرسہ امام العصر اڈہ شیخن ضلع چنیوٹ کے ایک مدرس کو "ہدف" بنایا گیا۔ مولانا مظہر عباس نجفی پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے مدرسے میں اپنے طالبعلم کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس معاملے کی گرد جلد ہی بیٹھ گئی، جب مدعی مقدمہ انصر عباس نے بیان دیا کہ ان سے زبردستی یہ مقدمہ درج کروایا گیا، پولیس رات گیارہ بجے اسے گھر سے اُٹھا کر لے گئی اور تھانے میں جا کر اس سے انگوٹھے لگوائے گئے۔ مجسٹریٹ کی عدالت میں بیان دینے کے بعد فاضل جج نے مولانا مظہر عباس کیخلاف درج ہونیوالی ایف آئی آر کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دے کر خارج کر دیا ہے۔ اہل تشیع کے بعد اہلسنت بریلوی مکتب فکر کے عالم دین کی باری تھی، تو اس مقصد کیلئے "خفیہ قوتوں" کی نظرِ انتخاب مفتی قوی پر جا ٹھہری اور مفتی قوی کی خودلذتی کی ایک پرانی ویڈیو لیک کر دی گئی۔ مفتی قوی پہلے ہی اپنی رنگین مزاجی کے باعث معروف تھے، اس ویڈیو کے بعد اب ان کیخلاف ایک نئی "لعنت مہم" چل پڑی ہے اور عوام ان کیساتھ اظہار برات کر رہے ہیں۔

دیوبندیوں، شیعوں اور بریلویوں کے بعد اہلحدیث باقی تھے، ان کے مولوی کا سکینڈل بھی منظر عام پر لا کر "ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز" کے مصداق تمام مکاتب فکر کے بارے میں یہ رائے قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ "ان کی فقہ تو الگ الگ ہے، لیکن منشور ایک ہے۔" اہلحدیث مکتب فکر کے مفتی کفایت اللہ کی ویڈیو سامنے آئی ہے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ سیالکوٹ میں ایک جلسہ ہو رہا ہے۔ دیوار پر حرم شریف کی پینا فلیکس آویزاں ہے۔ ایسے میں کسی نے آ کر بتایا کہ مفتی کفایت اللہ اندر "مصروف عمل" ہیں۔ اسی وقت جب اندر چھاپہ مارا گیا تو مفتی صاحب برہنہ حالت میں "رنگے ہاتھوں" پکڑے گئے۔ جس پر مفتی صاحب کی درگت بھی بنائی گئی اور انہیں علاقہ سے بھی نکل جانے کیلئے کہا گیا۔ مفتی کفایت اللہ شاکر کے بارے میں بچے سے بدفعلی کے بارے میں جب مرکزی جمیعت اہلحدیث کے سربراہ علامہ ساجد میر کو اطلاع دی گئی تو انہوں نے مولانا عبدالرشید حجازی کو تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ بنا کر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ مولانا عبدالرشید حجازی نے اپنی رپورٹ میں واقعہ کو سچا قرار دیتے ہوئے کہا کہ مفتی کفایت اللہ شاکر ایسا شوق رکھتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود علامہ ساجد میر نے مفتی کفایت اللہ کو مرکزی جمیعت اہلحدیث پنجاب کا ناظم تبلیغ بنا دیا۔

جب تسلسل کیساتھ ایسی ویڈیوز لیک ہونے لگیں اور یک بعد دیگرے یہ سکینڈلز سامنے آنے لگے تو اس میں سے گہری سازش کا تعفن اٹھنے لگا۔ جس پر راقم نے واقفانِ حال سے رابطہ کیا گیا تو خوفناک انکشاف سامنے آیا۔ وافقانِ حال کہتے ہیں کہ حکومت دینی مدارس کے سسٹم میں بڑی تبدیلی لانے جا رہی ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ دینی مدارس کو بھی سرکاری سکولوں اور کالجز کی طرز پر نصاب حکومت فراہم کرے گی اور حکومت نے اس پر کام بھی شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دینی مدارس کے نصاب کی تیاری کا کام تیزی سے جاری ہے اور تقریباً ساٹھ فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کیلئے "یکساں قومی نصاب" دیا گیا ہے اور ذرائع کے مطابق اسے مغربی فنڈنگ پر چلنے والی این جی اوز سے تیار کروایا گیا ہے۔ یعنی حکومت کو بنا بنایا نصاب فراہم کیا گیا اور حکومت نے اس پر اپنی مہر لگا کر جاری کر دیا۔

اسی طرح مدارس کیلئے بھی "یکساں قومی نصاب" تیاری کے عمل میں ہے۔ دینی مدارس جن کی تعداد اس وقت پاکستان میں تیس ہزار کے قریب ہے، کے سسٹم کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ بعض "قوتیں" سمجھتی ہیں کہ دینی مدارس کے نصاب کے بعد معاشرے میں فرقہ واریت، شدت پسندی اور دہشت گردی پھیلتی ہے۔ اس لئے دینی مدارس میں ایک "ہومیو پیتھک" نصاب ہونا چاہیئے، جو اگر کسی کو فائدہ نہ دے تو نقصان بھی نہ کرے۔ اس مقصد کیلئے دینی مدارس کی قوت کو ان سکینڈلز کے ذریعے بلیک میل کرکے قابو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ قوتیں جانتی ہیں کہ ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے پورے ملک کے سسٹم میں اصلاحات کر دی تھیں، سوائے دینی مدارس کے۔ وہ جانتے تھے کہ اس سسٹم میں ہاتھ ڈالا تو اقتدار سے جاتے رہیں گے۔ مگر اب تبدیلی سرکار کو یہ "ٹاسک" مل چکا ہے کہ دینی مدارس کو "بے ضرر" بنا دیا جائے۔

دینی مدارس کے عمائدین کہتے ہیں کہ تمام دینی مدارس دینی تعلیم دے رہے ہیں، بعض مدارس میں تو نصابی اصلاحات بھی پہلے ہی ہوچکی ہیں، اور وہاں دینی کیساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جا رہے ہیں۔ مدارس کے ذمہ داران کہتے ہیں کہ حکومت اگر کوئی اصلاحات کرنا چاہتی ہے تو براہ راست ہمیں کہے، ہم خود مدارس کی بہتری کے خواہاں ہیں، مگر اس طرح بلیک میلنگ کے ذریعے مدارس کو آگے نہیں لگایا جا سکتا۔ مدارس کے ذمہ داران نے اس حوالے سے آپس میں رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ مدارس کے حکام بھی اس سازش کے تانے بانے پھانپ چکے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ دینی مدارس کے ذمہ داران اپنے سسٹم کو بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا بیرونی قوت اپنے ایجنڈے پر عمل کرواتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 939947
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش