0
Sunday 27 Jun 2021 20:17

انصاراللہ کا ردعمل

انصاراللہ کا ردعمل
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
 
یمن کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹیم لینڈرکنگ نے اعلان کیا کہ واشنگٹن یمن کے حوثیوں کی تحریک کو یمن میں ایک قانونی فریق کی حیثیت سے باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اس اعتراف نے یمن کی مجاہد تنظیموں کے بارے میں کئی نظریات کو غلط ثابت کر دیا ہے اور حوثیوں کو باغی کہنے والا امریکہ نواز میڈیا بھی اپنے اقدام پر نظرثانی کرے گا، بالخصوص وہ مسلمان ممالک جو حوثی مجاہدین کو باغی باغی کہہ نہیں تھکتے تھے۔ یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے سربراہ محمد علی الحوثی نے یمن کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی کے توسط سے تحریک انصاراللہ کو قانونی حیثیت سے تسلیم کرنے کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یمن کی قانونی حیثیت کا سرچشمہ اس کی استقامت و اقتدار ہے۔ انصار اللہ کی قانونی حیثیت، یمن کی موجودہ تبدیلیوں سے متعلق نہیں ہے۔ انصاراللہ یمن کی ایک ایسی تحریک ہے کہ جس نے اپنی قانونی حیثیت یمنی عوام سے حاصل کی ہے۔

انصاراللہ نے 2004ء سے 2010ء کے درمیان چھ مرتبہ یمن کے سابق ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح کے خلاف جنگ لڑی اور یہ جنگ اس وقت تمام ہوئی کہ جب عبداللہ صالح کی حکومت کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز ہوگیا۔ چھ سال میں چھ بار جنگ سے یہ ثابت ہوگیا کہ انصاراللہ کو عوامی حمایت شروع سے ہی حاصل رہی ہے کہ جس میں ایک فوج کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت کی توانائی پائی جاتی ہے۔ تحریک انصاراللہ 2011ء میں بھی عبداللہ صالح کے خلاف قیام میں عوام کے شانہ بشانہ تھی، لیکن اس عوامی تحریک کی اصلی قیادت اور رہنمائی اس کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ تاہم یمن کی عوامی تحریک کو کچلنے کے لئے سعودی عرب کی قیادت میں جب امریکہ اور خلیج فارس تعاون کونسل کا منصوبہ سامنے آیا تو انصاراللہ نے 2014ء میں عبد ربہ منصور ہادی کے خلاف یمنی عوام کی نئی تحریک کی قیادت سنبھالی اور ستمبر 2014ء کے معاہدے پر دستخط کئے۔ منصور ہادی کی حکومت کی جانب سے انصاراللہ کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط یمن میں اس تحریک کو قانونی طور پر قبول کرنے کے مترادف تھے۔

اس کے باوجود یمن میں انصاراللہ کی قانونی حیثیت کے اصلی مخالف غیر ملکی کھلاڑی خاص طور پر سعودی عرب اور امریکہ تھے۔ سعودی عرب نے 26 مارچ 2015ء سے منصور ہادی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لئے یمن پر حملہ کر دیا، کیونکہ انصاراللہ کو وہ غیر قانونی تحریک قرار دے رہا تھا۔ امریکہ نے بھی سعودی عرب کے اس اقدام کی حمایت کی۔ سعودی عرب کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ چند ہفتوں کے اندر ہی انصاراللہ کو شکست سے دوچار کر دے گا اور عبد الرب منصور ہادی کو یمن کے درالحکومت صنعا میں دوبارہ اقتدار میں لاکر بٹھا دے گا، لیکن اس جنگ کو پچھہتر 75 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر رہا ہے، تاہم ابھی تک نہ صرف یہ کہ منصور ہادی صنعا واپس نہیں آسکا ہے بلکہ انصاراللہ اور اس کے اتحادیوں نے قومی سالویشن حکومت یمن میں تشکیل دی ہے کہ جو آج اس ملک کی ایک بڑی اور منظم سیاسی تحریک شمار ہوتی ہے۔

 یمن کی قومی نجات حکومت حالیہ جنگ میں ایک ایسی فریق ہے کہ جس کے ساتھ غیر ملکی عناصر یمن کے خلاف جنگ کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات میں کوشاں ہیں اور حتی سعودی عرب نے انصاراللہ کے ساتھ مذاکرات کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے کہ جو انصاراللہ کو قانونی طور پر قبول کرنے کے مترادف ہے۔ اس بنا پر انصاراللہ کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے سلسلے میں یمن کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹیم لینڈر کنگ کا بیان اس عوامی تحریک کو قانونی حیثیت سے تسلیم کرنے کے مترادف نہیں ہے بلکہ اس قانونی حیثیت کو تسلیم کرنا ہے کہ جسے اس سے قبل یمن کے عوام کی ایک بڑی تعداد اور غیر ملکی کھلاڑیوں کی جانب سے تسلیم کیا جا چکا ہے۔

اسی لئے یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے سربراہ محمد علی الحوثی نے کہا ہے کہ یمن کی قانونی حیثیت کا سرچشمہ اس کی قومی قوت و استقامت ہے۔ اگرچہ امریکی نمائندے کے ریمارکس انصاراللہ کے لئے اہمیت کے حامل  ہیں، تاہم وہ کام جو واشنگٹن کو یمن کے سلسلے میں انجام دینے کی فوری اور اشد ضرورت ہے، وہ اس ملک کے خلاف جاری جنگ کو روکنا اور محاصرے کو ختم کرنا ہے۔ اسی سلسلے میں یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے سربراہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ عالمی برادری کو یمن کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کرنا چاہیئے اور زور زبردستی و طاقت کے بل پر اقدامات نہیں کرنے چاہیئے، کہا کہ یمن کے خلاف جارحیتوں اور محاصرے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیئے اور اسی طرح اس ملک کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل میں مداخلت سے دور رہنا چاہیئے۔

جنگ بندی کے تناظر میں یمنی حکام کئی بار اپنے موقف کا اظہار کرچکے ہیں۔ یمن کی قومی حکومت کے وزیر خارجہ ہشام شرف نے کہا ہے کہ اقتصادی محاصرے کے درمیان امن مذاکرات اور جنگ بندی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یمن کے حوالے سے بین الاقوامی سیاسی کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ سعودی عرب کو بطور ثالث پیش کرکے یمن پر جارحیت کے الزام سے سعودی عرب کو بری الذمہ قرار دے دیا جائے۔ یمن کے وزیر خارجہ کا یہ بیان نیوز ایجنسی رائٹرز کی اس خبر کے محض چند گھنٹے کے بعد سامنے آیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ یمن کی قومی حکومت کے نگران اعلیٰ سید عبد الملک بدرالدین الحوثی نے عمانی وفد کے حالیہ دورہ صنعا کے دوران اعلان کیا ہے کہ محاصرے کے خاتمے کے فوراً بعد اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی تجویز کے مطابق جنگ بندی مذاکرات کا آغاز کر دیا جائے گا۔

قابل ذکر ہے چند ماہ قبل سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے بعض تجاویز پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا ملک بحران یمن کا خاتمہ چاہتا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے یمن کی قومی حکومت کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ریاض کی پیش کردہ تجاویز میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں جنگ بندی کا قیام بھی شامل ہے۔ یمن کی قومی حکومت کے مذاکرات کار وفد کے سربراہ محمد عبد السلام نے جنگ یمن کے خاتمے کے بارے میں سعودی تجاویز پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں کوئی نئی چیز موجود نہیں ہے۔ سعودی عرب عالمی فورمز پر جنگ یمن کے خاتمے کا ڈھنڈورا ایسے وقت میں پیٹ رہا ہے، جب اس نے نہ تو یمن کے خلاف فضائی اور زمینی حملے بند کیے ہیں اور نہ ہی اس ملک کے بے گناہ عوام کا ظالمانہ محاصرہ ختم کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انصاراللہ کو عالمی سطع پر باقاعدہ تسلیم کرنے کے بعد یمن کے بحران کو حل کرنے کے لئے عالمی ادارے کیا کردار ادا کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 940373
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش