2
1
Monday 28 Jun 2021 15:51

مدافعینِ حرم عاشقان ِپاک طینت

مدافعینِ حرم عاشقان ِپاک طینت
تحریر: سویرا بتول

آج سے کچھ عرصہ قبل جب میں نے اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا تو مجھے بہت سارے مفید مشوروں سے نوازا گیا۔ جن میں سے ایک مشورہ یہ تھا کہ آپ کہانیاں لکھنا شروع کریں، لوگ کہانیاں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ آئیں آج آپ کو تخیلاتی افسانوں اور فرضی کرداروں کی بجائے حقیقی مجاہدوں کی داستان سناؤں۔ آپ نے یقیناً اپنے زمانہ طالبِ علمی میں فلمی ناول، تاریخی فکشن، سیاسی اور مذہبی افسانے، جذباتی داستانیں اور فرضی کردار تو بہت سارے پڑھے ہوں گے اور ممکن ہے کہ اُن کرداروں نے آپ کی زندگی کو کافی حد تک متاثر کیا ہو، مگر آئیے آج حقیقی دنیا کے حقیقی کرداروں سے ملتے ہیں۔ آج حقیقی مجاہدوں کی داستان سنتے ہیں، جن کی مظلومیت اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ یہ غیر تو غیر اپنوں میں بھی گمنام ہیں۔ شہدائے مدافعین ِحرم، جن کا مقروض ہر وہ شخص ہے، جس کے دل میں اہل بیت اطہار علیہ سلام کی محبت ہے اور ان پر زیادہ سے زیادہ لکھنا ہم سب کا واجب فریضہ ہے۔

جب مدافعین حرم کے شہداء کی عنایات و معجزات کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو بعض احباب نادانستگی میں اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہ تو خدا کے ولی اور صالحین کے معجزات ہیں، جو آپ بیان کر رہے ہیں یا مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں، لیکن اگر ہم دقت کیساتھ اِن عاشقانِ خدا و اہل بیت و مدافعین ولایت کی زندگیوں کا دقیق مطالعہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ کیسے انسان اپنے نفوس کی طہارت کے ذریعے خدا کے مقربین کا مقام حاصل کرسکتا ہے اور وہ راہ جو ایک عارف یا فقیہ سالوں میں درک کرتا ہے، وہ ایک بسیجی جوان شب کی تاریکی میں جنابِ سیدہ سلام علہیا سے توسل کرکے درک کر لیتا ہے۔ آئیے ان عاشقان خدا کی زندگیوں کی طرف ایک نگاہ ڈالیں اور پھر اپنے نفوس کی طرف دیکھیں، جو اس منہ زور دنیا کی طرف راغب ہیں۔

مدافع حرم شہید اسماعیل خانزادہ کو اپنی شہادت کی تاریخ معلوم تھی۔ بقول پدر شہید گھر میں ایک کیلنڈر لٹک رہا تھا، اس پر بیس دسمبر اپنی شہادت کی تاریخ کو اس نے خود کراس کر رکھا تھا۔ شہید کی شہادت کے 80 دن بعد شہید کی کتاب سے ایک تحریر ملی۔ لکھا تھا *خدایا اگر تیری مخلوق نہیں جانتی تو تُو جانتا ہے کہ  ۲۰۰۳ء گیارہ ماہ مبارک رمضان کو مجھے حضرت حجت فرزند زہراء امام زمانہ علیہ سلام کی زیارت کی توفیق حاصل ہوئی۔ خدایا تھک گیا ہوں، ٹوٹ گیا ہوں، اب میری کوئی آرزو نہیں، سوائے شہادت کے۔ دنیا اور دنیا والوں سے فرار کرکے تیری طرف آیا ہوں، مجھے اپنی رحمت کے سائے میں جگہ عنایت فرما۔ اپنے وصیت نامے کے ایک حصے میں لکھتے ہیں کہ جب تک انقلاب کے اس علمدار رہبر معظم کی چھتری کے نیچے رہیں گے، کامیاب رہیں گے، ہمارا علم دنیا میں لہراتا رہے گا اور خدانخواستہ ذرہ برابر بھی ہم نے ولایت سے فاصلہ اختیار کیا تو میں اسے شکست نہیں کہوں گا بلکہ یہ ہماری یقینی تباہی ہے۔*

مدافعین حرم کے ایک اور خوبصورت شہید، *شہید مصطفیٰ صدر زادہ شہریار* جو نو محرم کو شہید ہوئے، اُسی روز جس دن آپ کی والدہ نے نذر مانی تھی۔ بقول مادرِ شہید آپ حضرت عباس علمدار کی نذر تھے۔ نو محرم کا روز تھا، جب شہید مصطفیٰ تین سال کے تھے۔ شہید کی والدہ مجلس میں موجود تھیں کہ شہید دروازے سے باہر نکل گئے اور ایک گاڑی نے ٹکڑ ماری، کسی نے آکر شہید کی والدہ کو بتایا کہ مصطفیٰ مرگیا۔ شہید کی والدہ نے اُسی وقت زیارتوں کے سامنے حضرت عباس سے توسل کیا اور گزارش کی کہ مولا عباس یہ آپ کی نظر ہے، اسے بچا لیجیے، آپ سے عہد کرتی ہوں کہ اسے آپ کا سپاہی بناؤں گی۔ اذان ظہر میں دس سے پندرہ منٹ باقی تھے کہ مصطفیٰ اٹھ بیٹھا۔ مدافع حرم شہید مصطفیٰ کی شہادت کا دن اور وقت بھی یہی تھا، یعنی نو محرم اذان ظہر سے دس پندرہ منٹ پہلے، آپ نے کلنا عباسک یا زینب کا نعرہ بلند کرتے ہوئے جام شہادت پیا۔

بقول مادرِ مدافع حرم شہید موسیٰ، جب موسیٰ شام میں بی بی زینب سلام علیہاء کے حرم کی حفاظت کے لیے گئے تو اُن دنوں میں سخت پریشان تھی، جو دن گزر رہے تھے، میرے لیے نہایت پریشان کن تھے۔ اُن ایام میں میری تنہائی کا واحد سہارا قرآن تھا، کیونکہ شہید کثرت کیساتھ تاکید کیا کرتے تھے کہ ہروقت قرآن سے مانوس رہیں۔ شہید کی والدہ کہتی ہیں کہ میں نے سخت پریشانی میں قرآن سے مدد مانگی تو آیت آئی کہ *فکلی وشرابی وقری عینی* (اس کجھور سے کھائیے) اور (اس چشمہ سے ہمیشہ) پیجیے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھیے۔ (سورۃ مریم آیت۲۰) ایک بار پھر قرآن سے توسل کیا تو سورۃ انسان کی آیت ۵ اور ۶ نظر سے گزری۔ ترجمہ: "بیشک ہمارے نیک بندے اس پیالے سے پییں گے، جس میں شراب کے ساتھ کافور کی آمیزش ہوگی، یہ ایک چشمہ ہے، جس میں اللہ کے نیک بندے پئیں گے اور جدھر چاہیں گے بہاکر لے جائیں گے۔"

مدافع حرم شہید موسیٰ کی والدہ نقل کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں شہید کی قبر پر موجود تھی کہ ایک دن اُن کے دفتری ساتھی وہاں آئے اور کہتے ہیں کہ *مدافعین حرم کے شہداء اپنے زمانے کے پیغمبر ہیں۔* میں نے شہداء کی عنایات دیکھیں تھیں اور مجھے شہداء پر یقین بھی تھا، مگر پھر بھی میرے لیے یہ لفظ کہ وہ اپنے زمانے کے پیغمبر ہیں، میرے لیے قبول کرنا بھاری تھا۔ میں نے ایک بار پھر کلام الہیٰ سے توسل کرنا چاہا اور اس دفعہ بہت خوبصورت آیت میرے سامنے آئی۔ ترجمہ: *اور اپنی کتاب میں موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ کرو کہ وہ میرے مخلص بندے اور رسول و نبی تھے اور ہم نے انہیں کوہ طور کے داہنے طرف سے آواز دی اور راز و نیاز کے لیے اپنے سے قریب بلالیا۔* (سورۃ مریم آیت ۵۲) شہید مدافع حرم کا نام بھی موسیٰ تھا اور آیت بھی کلیم اللہ جناب موسیٰ علیہ سلام کے بارے میں تھی۔ بقول مادر شہید، شہید کی شہادت کے بعد یہ بات میرے علم میں آئی کہ ام المصائب نواسہ رسول جناب زینب سلام علیہا کے حرم میں لکھی ہوئی آیات اُس زمانے میں میری مدد کو آیا کرتیں تھیں۔ بلاشبہ یہ شہدائے زینبیون پر اہل بیت اطہار علیہ السلام کے خاص لطف و کرم کو ظاہر کرتا ہے۔

اسی طرح ایک کم سن جوان *فرزند شہید محمد امیر ملازھی* نے جب یہ سنا کے اس کے بابا دفاع مقدس میں شہید ہوگئے ہیں تو اب وہ باقاعدگی سے نشانہ بازی کی کلاس لے رہا ہے، تاکہ بڑے ہوکر اپنے شہید بابا کی طرح مدافع حرم بنے اور حرمِ جنابِ سیدہ سلام علیہا کا دفاع کرے۔ مدافع حرم شہید رضا ملاہی اس قدر شہادت کے عاشق تھے کہ داڑھی چھوٹی رکھا کرتے تھے، تاکہ انہی حرم سیدہ کی نوکری مل سکے، چونکہ ان کی داڑھی سفید تھی، اس لیے انہیں ڈر تھا کہ شاید انہیں نہ بھیجیں، اس لیے چھوٹی داڑھی رکھا کرتے، جو ان کی جانب سے شہادت سے عشق کو ظاہر کرتا ہے۔

مدافع حرم شہید محمد اپنے وصیت نامے میں اپنی ہمسر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اگر خانم محبوبہ بلباسی نہ ہوتیں تو میں کبھی مدافع حرم نہ بنتا۔ شہید کی شہادت کے بعد آپ کی دختر زینب اس دنیا میں آئیں۔ اسی طرح ھمسر شہید خانم وحید علوی جنکے شریک حیات نے مدافع حرم بننے کی آرزو کی تو آپ نے کربلا کی شیر دل خواتین کی طرح اپنے شریک حیات کو دفاع مقدس کے لیے بھیجا۔ بلاشبہ خانم بلباسی اور خانم علوی آج کی خواتین کے لیے بہترین نمونہ عمل ہیں۔

ان تمام شہداء مدافعین حرم میں ایک اور ایسا خوبصورت جوان بھی موجود ہے، جو فقط چار روز کا دلہا تھا، ہزار خواہشیں اور دنیا کی راحتیں جس کی منتظر تھیں، مگر جیسے سنا ایک بار پھر نسلِ یزید نے حضرت زینب کبریٰ سلام علہیا کی چادر پر میلی آنکھ ڈالی ہے، تمام تر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مثل وہب کلبی اپنے فریضے کو انجام دیا۔ کاروان شہداء تیزی سے آیا اور گزر گیا، ہم ایک بار پھر حسرت سے یا لیتنا معکم کی گردان کرتے رہ گئے۔

یہ خون اہل بیت علیہ السلام کے حرم کا دفاع کرتے بہایا گیا ہے، لہذا انتہائی قابل قدر ہے۔ اگر مدافعین حرم اپنی جان کا نذرانہ پیش نہ کرتے تو سن اکسٹھ ہجری کی کربلا ایک بار پھر دہرائی جاتی۔ شہداء کی زبان شہید ہونے کے بعد کھلتی ہے اور وہ لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے ہیں۔ اگر ہمارے کانوں پر پردہ نہ پڑا ہو تو ہم اِن کی آواز بآسانی سن سکتے ہیں۔ یہی جوان شہید جو حرمِ مقدس کے دفاع کے لیے گئے اور شہید ہوئے، اِن کی باتیں، اِن کے کام، اِن کے معرکے، اِن کی یادیں، اِن کے بارے میں جو باتیں کی جاتی ہیں، سب ہمیں بیدار کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ سب شعور و آگاہی دینے والی باتیں ہیں۔ اگر ہم اِن شہداء کے افکار کو عام کرسکیں تو یقیناً کفر و الحاد کی جانب رغبت اور جھکاؤ ختم ہو جائے گا اور حقیقی اسلام محمدی کا پرچم پوری دنیا میں سر بلند ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 940515
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

irshad hussain nasir
Pakistan
salam
ma sh ALLAH bohat acha, shohada ka zikar karna in ki yadentaza rakhna, in sai mohabat ka izhara apni aakhrat ko sanwarny ka baes h,mola aap ki is koshish ko qabool farmay, aameen
عباس ہادی
Pakistan
بہترین تحریر
معاشرے کی اقدار کو قلم کے ہتھیار سے تبدیل کرنا وقتی ضرورت ہے۔ معاشرے کی اصلاح اور عوام الناس کو شعور دینا نہایت ضروری ہے۔ جب معاشرہ ظالم و مظلوم کی پہچان نہیں کر پاتا تو بے حس ہو جاتا ہے، جمود کا شکار ہو جاتا ہے، پھر اس دور میں حسین (ع) کے قافلے کا انتظار رہتا ہے، تاکہ یہ معاشرہ جمود سے تحرک میں تبدیل ہوسکے۔
جزاك الله
ہماری پیشکش